یکساں سول کوڈ uniform civil code مفید یا مضر ؟
یکساں سول کوڈ uniform civil code مفید یا مضر ؟
🖋️ اسرار عالم قاسمی، کشن گنج
ہندوستان کے قوانین (سمودھان) میں یہاں کے رہنے والے تمام ادیان و مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہبی پرسنل لا پر عمل کرنے کی کُھلی آزادی ہے، وہ اپنے دین و مذہب پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نشر و اشاعت بھی کر سکتے ہیں۔
ایک زمانے سے برادرانِ وطن میں سے کچھ شر پسند عناصر موقع موقع سے شور مچاتے رہے ہیں اور ہنگامہ آرائی کرتے رہے ہیں کہ ہندوستان میں رہنے والے خواہ ہندو ہوں یا مسلمان، سکھ ہوں یا عیسائی، بدھ مت کے ماننے والے ہوں یا جینی حضرات، تمام ادیان و مذاہب کے لوگوں کے لیے صرف اور صرف ایک ہی قانون ہونا چاہیے، جسے (uniform civil code) کہتے ہیں؟
اب حکومت بھی اس سلسلے میں بہت متحرک ہوگئی ہے
لا کمیشن نے عوام و خواص سے اس سلسلے میں ایک ماہ کے اندر 13/جولائی 2023ء تک اپنی اپنی رائے پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔
محترم قارئین! میں چاہتا ہوں کہ ہر شخص اس سے واقف ہو، اور اس سے بچنے کے جو بھی مؤثر اسباب ہوں انہیں اختیار کیا جائے۔
سب سے پہلے تو یکساں سول کوڈ (uniform civil law) کیا ہے؟ اسے سمجھا جائے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنے شہریوں کے لیے ایسے قوانین بنائے گی، جو تمام لوگوں کے لیے یکساں ہو؛ حالاں کہ ملک کے موجودہ دستور نے تمام باشندوں کو اپنے عائلی قوانین پر عمل کرنے کی آزادی دے رکھی ہے۔
“یکساں سول کوڈ” کو ان مثالوں سے بھی بآسانی سمجھا جاسکتا ہے، جیسے کہ قرآن مجید کا صریح حکم ہے “لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظّ الْأُنْثَیَیْنِ” کہ مؤنث (بیٹی) کو میت کے متروکہ مال میں مذکر (لڑکے) کا نصف ملے گا
اب اگر ہندوستان میں یکساں شہری قانون کے طور پر یہ قانون بنادیا جائے کہ وراثت میں سب کو برابر ملے گا، کوئی کمی بیشی نہیں، تو یہ قرآن کے صریح حکم کے خلاف ہوگا۔
یہ تو میں نے ایک مثال دی ہے، ایسی سینکڑوں مثالیں بن سکتی ہیں، متبنی کا مسئلہ، طلاق ثلاثہ کا مسئلہ، 18 سال سے پہلے بچے اور بچیوں کو بالغ نہ ماننا، اور ولی کو شادی کروانے کا حق نہ ہونا وغیرہ، کورٹ کے یہ سب فیصلے، جو ہمارے عائلی قوانین میں دخل اندازی ہے، یکساں سول کوڈ ہی کی طرف بڑھتے قدم ہیں۔
یاد رکھیے! ہر جگہ کے قوانین دو طرح کے ہوتے ہیں:
(١) سول کوڈ: سول کوڈ شہری قوانین کو کہتے ہیں، اور
(٢) کرمنل کوڈ: کرمنل کوڈ فوجداری قوانین کو کہتے ہیں۔
سِوِل کوڈ میں شہریوں کو اپنے اپنے عائلی قوانین پر عمل کرنے اور اس کی نشر و اشاعت کی مکمل آزادی ہے۔
ہاں! فوجداری قوانین میں کسی بھی دین و مذہب کو دخل نہیں ہے، وہ ملک کے سیکولر نظامکے مطابق ہی چلے گا۔ہندوستان کے قوانین کی ایک اور تقسیم ہے
(۱) بنیادی اصول، اور
(۲) رہنمایانہ اصول۔
رہ نمایانہ اصول میں سے آرٹیکل نمبر:44 کہتا ہے کہ ملک کی حکومت یہ کوشش کرے گی کہ تمام شہریوں کے لیے یکساں قانون ہو۔
اور بنیادی حقوق میں آرٹیکل نمبر: 25،جس کو (fundamental rights) کہتے ہیں، یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب کے آئینی قوانین پر عمل کرنے کی کلیتاً اجازت ہے۔
یہ قوانین بن کر لوگوں کے سامنے جب آئے تھے، اس وقت بھی ہمارے علمائے کرام نے اس کے خلاف احتجاج درج کرایا تھا کہ ان دونوں آرٹیکلس کے درمیان تصادم اور ٹکراؤ ہو رہا ہے؛ لیکن پھر بھی یہ بل پاس ہو گیا۔
ان قانونی دفعات میں ایک بات یہ بھی لکھی ہوئی ہے کہ: اگر رہنمایانہ اصول اور بنیادی حقوق کے درمیان تصادم اور ٹکراؤ ہو جائے، تو اس وقت بنیادی حقوق کو ترجیح دی جائے گی، اور بنیادی حق یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے اپنے دینی و مذہبی عائلی قوانین پر عمل کرسکتا ہے
اسے عمل کی مکمل اجازت ہے۔یہ بات بھی آپ کے ذہن نشیں رہے کہ “یونیفارم سول کوڈ” کا مخالف ہر شہری کو ہونا چاہیے، یہ سبہوں کی دینی روایات، سماجی پرمپرا اور ملکی سمودھان کے خلاف ہے؛ تاہم ایسا لگتا ہے کہ “یکساں سول کوڈ” کی مخالفت سب سے زیادہ مسلمان ہی کر رہے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا دین اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کردہ ہے، اس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے، اور اس کی بنیاد قرآن و سنت ہے۔ دیگر ادیان و مذاھب میں اتنی پختگی نہیں ہے، ان میں سے اکثر کا تعلق “ادیانِ وضعیہ” سے ہے، بعض کا تعلق “ادیانِ سماویہ” سے ہے
لیکن ان کے اندر اتنی تبدیلیاں آگئی ہیں کہ صحیح اور غلط کا امتیاز انتہائی مشکل ہو گیا ہے، وہ ادیان اپنی اصلی حالت پر نہیں ہیں۔کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ “یکساں سول کوڈ” یعنی ایک جیسے شہری قوانین کے نفاذ سے ملک میں امن و سکون کا ماحول ہو گا
حالاں کہ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ سنہ1914ء سے 1918ء تک عالمی جنگ ہوئی، جس کو عالمی جنگ عظیم اول کہتے ہیں، اور سنہ1939ء سے سنہ 1945ء تک جنگ ہوئی، جس کو عالمی جنگ عظیم ثانی کہتے ہیں، ان دونوں جنگوں میں جو ممالک لیڈنگ کر رہے تھے
یعنی قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے، وہ سب عیسائی مذہب کے تھے، پوری دنیا تقریباً دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی، صرف جنگ عظیم اول میں تقریباً تین کروڑ لوگ مارے گئے تھے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ملک کا قانون ایک ہوگا تو امن وامان ہوگا، یہاں بھی تو دونوں جانب عیسائی مذہب کے ماننے والے تھے، ان کے قوانین کی یکسانیت ان کی جان نہیں بچاسکی۔
ہمارے ملکِ ہندوستان میں کورو اور پانڈو نام کے بادشاہ گزرے ہیں، ایک ہی دین اور ایک ہی فیملی سے تعلق رکھتے تھے؛ لیکن ان میں ایسی شدید لڑائی ہوئی کہ دنیا اسے “مہا بھارت” کے نام سے جانتی ہے۔
قانون ایک ہونے سے ملک میں امن و سکون اور احترامِ انسانیت نہیں ہوسکتا، امن و سکون کے لیے اللہ کا خوف، اس کی خشیت، دین و شریعت کا پاس و لحاظ انتہائی ضروری ہے۔ہر شہری کے لیے ضروری ہے کہ “یونیفارم سول کوڈ” کے نفاذ کی مخالفت کرے اور اپنا احتجاج درج کروائے۔
الحمد للہ مسلم تنظیمیں اس پر کام کر رہی ہیں، آپ بھی ڈٹے رہیں، ان شاءاللہ کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔
آخر میں بارگاہ رب العزت میں دست بدعا ہوں کہ: اے الہٰ العالمین! ہم سب کو امن و سکون اور عافیت کے ساتھ دین و شریعت پر عمل کرنے والا بنا، دشمنان اسلام کے لیے اگر ہدایت مقدر ہو، تو انہیں ہدایت نصیب فرمادے، ورنہ تو ان سے اپنی زمین کو پاک کردے، آمین ثم آمین