اسلام کا فلسفۂ زکات

Spread the love

اسلام کا فلسفۂ زکات

از: اشرف الفقہاء مفتی محمد مجیب اشرف علیہ الرحمۃ

اسلام نے ایک مہذب اور فطری مذہب ہونے کی حیثیت سے بنی نوع انسان کی ہمیشہ رہنے والی اُخروی اور روحانی زندگی کو کامیاب اور بہتر سے بہتر بنانے کے لیے اصلاحی اور تربیتی پروگرام کے تحت جن اُصول و ضوابط اور آئین و قوانین کو مرتب فرماکر دُنیا والوں کے سامنے پیش کیا ہے اُن کی اچھا ئی، اُن کے معیار کی بلندی اور انسانی زندگی سے ہم آہنگی اپنی جگہ مسلم اور اٹل ہے، اور یہ ناقابل انکار حقیقت ہر منصف مزاج، ذی شعور، سلیم الطبع اور صاحب بصیرت پر روشن ہے ۔

لیکن چوں کہ اسلام دیگر مذاہب کی طرح صرف روحانی اور خالص مذہبی تحریک نہیں ہے اور نہ وہ صرف روحانی اقدار ہی کو بلند کرنے کے لیے آئین و قوانین مرتب کرتا ہے بلکہ اسلام کی حیثیت عظیم الشان باامن انقلابی تحریک کی بھی ہے ۔

اسی لیے اس کا مرتب کردہ ضابطۂ حیات جس طرح انسان کی دینی اور روحانی زندگی کے لیے مفید اور اس کے ہر گوشے پر حاوی ہے اسی طرح کی دُنیوی اور مادی زندگی کے لیے بھی مفید اور کار آمد ہے۔ جس کی نظیر دُنیا کے کسی مذہب اور تحریک میں نہیں ملتی اور نہ آیندہ مل سکے گی۔

اسلام نے دُنیا کی عظیم ترین باامن انقلابی تحریک ہونے کی حیثیت سے بنی نوع انسان پر جو زبردست اور ناقابلِ فراموش احسانات کیے ہیں ان کا دائرہ اتنا وسیع اور پھیلا ہوا ہے کہ صرف ان کا تذکرہ اور احاطہ کرنا دُشوار ہے، اور یہ بات اس لیے بھی درست اور قابل تسلیم ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں پر اس بات کو واجب اور ضروری گردان کرانھیں ذمہ دار بنادیا ہے کہ ان کی زندگی کا ہر شعبہ اور ہر پہلو مذہب کے ماتحت ہو۔ اسی لیے فرزندانِ اسلام کے تمام تاریخی کارنامے بھی اسلام کے ان اصلاحی کارناموں کے حدود اور دائرے میں آجاتے ہیں جنھیں اسلام اور مسلمانوں کے مخالفین عالم انسانیت پر اسلام کے احسانات تسلیم کرتے ہیں۔

تاریخِ عالم اس بات پر گواہ اورشاہد عدل ہے کہ اس مہذب دُنیا نے اسلام اور مسلمانوں سے کیا کیا فائدے حاصل کیے ہیں۔ آج جہاں کہیں بھی تہذیب و تمدن، علوم و فنون ، شایستگی و متانت، سنجیدگی و دیانت ، مساوات و اخوت اور باہمی ہمدردی و مروت کی روشنی یاجھلک پائی جاتی ہے وہ اسلام ہی کی کرشمہ سازیوں کا لازمی نتیجہ اور اثر ہے ۔

یوں ہی جمہوری نظام اور بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد اسلام نے رکھی ۔ نیز اسلام ہی نے اقتصادی اور معاشی نظام کو بالکل واضح اور مکمل شکل میں سب سے پہلے پیش کیا ہے اور اب تو غیر مسلم بھی اسلام کی افادی حیثیت کی تحقیقات کرنے کے بعد قدم قدم پر اقرار کرتے جارہے ہیں کہ، علمی، تہذیبی، اخلاقی، تعمیری اور ترقیاتی سرمایہ جو دُنیا کے پاس ہے وہ اسلام کاعطا کردہ ہے اوردراصل حقیقت بھی یہی ہے۔

کیوں کہ اسلام کی تشریف آوری ایسے نازک وقت اور پُرخطرماحول میں ہوئی ہے کہ اس وقت تمام پرانی تہذیبیں مٹ چکی تھیں، یا فرسودگی کی چادر میں منہ چھپائے سسک سسک کر دَم توڑ رہی تھیں ۔ اسلام نے ان کی روح کے ساتھ مسیحائی کاکام اور ان اچھائیوں اور خوبیوں کو اپنے ذاتی محاسن سے وابستہ کرکے دُنیاوالوں کے سامنے تہذیب وتمدن کا وہ اعلیٰ معیار پیش کیا جو اپنی مثال آپ ہے اور جس پر آج پوری مہذب دُنیا کی بنیاد قائم ہے۔

مشہور یورپی مفکر سر ولیم میور لکھتا ہے: ’’ہم بڑی فراخ دلی سے اقرار کرتے ہیں کہ محمد(ﷺ)کے ماننے والوں میں خدا کی توحید کا سچے دل سے اقرار موجود ہے۔ اسلامی تعلیم کے ذریعے اخلاقی نیکیوں میں اضافہ ہوا۔ ایمان کے دائرے کے اندر برادرانہ محبت کی تلقین کی گئی، یتیموں اور بیواؤں کی حفاظت اور بے کسوں و بے بسوں کی خاطرداری کے ساتھ ان کے حقوق کاتعین ہوا۔

نشہ آور چیزوں کی ممانعت ہوئی غرض کہ اسلام ایسے اعلیٰ کردار اور اُصول پر فخر کرسکتا ہے جس کی دوسرے مذہب کو خبر تک نہیں ہے۔‘‘ نامور فرانسیسی مؤرخ موسیو سیلایو یورپ پر مسلمانو ں کے احسانات کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے :’’اگر مسلمان اسپین میں نہ آتے تو نہ جانے کتنی مدت تک پورا یورپ جہالت کی تاریکیوں میں مبتلارہتا ۔اہلِ یورپ کو مسلمانوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے اسپین میں علم کی شمع روشن کرکے یورپ کے لیے علوم و فنون کادروازہ کھول دیا۔ انگلستان، جرمنی، اٹلی،فرانس اور دیگر یورپین ممالک کو علم کی روشنی سے منور کردیا۔‘‘ اسلام کی احسان مندی کایہ مفید اور حیات آگیں سلسلہ زمانۂ ماضی میں ہی اختتام پذیر نہیں ہوکر رہ جاتا۔ بلکہ آج بھی اور رہتی دُنیا تک اسلام کے وسیع دامن رحمت میں ایسے بے شمار جواہر ریزے پائے جاتے ہیں اور پائے جائیں گے، جو انسانیت کی ثروت مندی اور تاب ناکی میں بے پناہ اضافہ کرکے چار چاند لگاسکتے ہیں۔

مثال کے طور پر موجودہ زمانہ کی اقتصادی اور معاشی کشمکش اور اس کے شدید ترین الجھاؤ کو مد نظر رکھیے، پھر اس کے بعد تاریخِ عالم کا بغور مطالعہ کیجیے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ اقتصادی اور معاشی کشمکش نے آج جو پُرفتن اور خطرناک صورت اختیار کرلیا ہے ۔ اس سے پہلے کسی قرن کسی دور میں بھی نہیں تھی۔ اس وقت دُنیا میں جس طرف نظر ڈالیے سرمایہ داروں اور مزدوروں کے درمیان عملی یاذہنی کشمکش ضرور نظر آئے گی ۔ اس سے شاید ہی دُنیا کاکوئی ملک خالی ہو، اور اسلامی تاریخ میں تو اس کشمکش اوراُلجھاؤ کا نام و نشان تک نہیں ملتا ۔ اسلامی تاریخ میں اس کشمکش کے نہ ملنے کا واحد اور اولین سبب یہ ہے کہ اسلام نے اقتصادی اور معاشی نظام کی اہمیت اور اس نظام کی خرابی کے تباہ کن اثرات اور خطرناک نتائج کو خوب اچھی اور پوری طرح محسوس کرلینے کے بعد اس نے ایک ایسا مکمل اور مضبوط اقتصادی اور معاشی نظام مرتب فرمایا، جس میں نہ تو سرمایہ داری کے لیے کوئی جگہ باقی ہے اور نہ مزدوروں، محنت کشوں، ناداروں اور غریبوں کے ساتھ ناانصافی اور حق تلفی کا کوئی امکان موجود ہے ۔

آج انسان ایورسٹ کی سر بہ فلک چوٹی کو اپنے قدموں سے روند کر اپنی عظمت کا اعلان کرچکا ہے۔ خلائی سفر کے لیے راستہ ہموار کرکے دُنیاے سائنس میں ایک نیا باب کھول دیا ہے۔ چاند کی دُنیا میں پہنچنے کی آرزو میں اپنے آہنی عزم و استقلال پر دادِتحسین حاصل کرچکا ہے۔ باوجود اس کے اقتصادی اور معاشی کشمکش انسان کے لیے مستقل اُلجھن اورشدید ترین مصیبت بنی ہوئی ہے، اور اس سے بہت سی برائیاں اور فتنے پیدا ہورہے ہیں، اور روز بروز ان میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ انھیں برائیوں اور فتنوں کی روک تھام کے لیے’’ شوشلزم‘‘ اور’’ کمیونزم‘‘ وغیرہ تحریکوں نے جنم لیا۔ اس وقت دُنیا میں ’’کمیونزم‘‘ اور ’’شوشلزم‘‘کو بہترین اقتصادی اور معاشی تحریکات اور سرمایہ داری کا بدترین مخالف سمجھا جاتاہے، اور بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلام کمیونزم اور شوشلزم کاحامی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا نظام موجودہ کمیونزم اور شوشلزم سے بالکل مختلف اور الگ ہے۔عچہ نسبت خاک را با عالم پاک کیوں کہ اسلام کے نظام اقتصادیات و معاشیات میں یہ بات خصوصیت کے ساتھ موجود ہے کہ وہ بغیرکسی کو نقصان پہنچائے سب کو فائدہ پہچانے پر زور دیتا ہے۔

وہ ’’حق بہ حق دار رسید ‘‘ کا حامی ہے ۔ اسی لیے اس نے شخصی مفاد کو نظر انداز نہیں کیا ہے بلکہ اس کو پوری طرح برقرار رکھا ہے، تاکہ ظلم اور ناانصافی کو راہ یابی کا موقع نہ مل سکے۔ نیزاسلام ہر شخص کو زیادہ سے زیادہ سرمایہ پیداکرنے کاپورا پورا مجازاور اختیار بخشتاہے، لیکن دولت کی فراہمی کے لیے وہ ناجائز وسائل و ذرائع کی سخت مخالفت اورمذمت کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے سرمایہ داری کے سب سے بڑے اورمؤثر وسیلہ ’’سود‘‘ کو سرے سے ہی حرام قراردیا ہے۔

اور دوسرے جائز وسائل سے جمع کی ہوئی دولت پر زکوٰۃ مقرر کرکے براہِ راست زر اندوزی پر ایک ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ ’’سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی‘‘ پھر اسلام سرمایہ داروں کو اصطلاحی طور پر مالکِ سرمایہ ضرور تسلیم کرتاہے اور ان کو اپنے کمائے ہوئے سرمایہ سے جائز طور پر بھرپور فائدہ حاصل کرنے کا حق دار بھی گردانتاہے۔ لیکن درحقیقت انھیں امین(سے) زیادہ حیثیت نہیں دی ہے، یعنی جس طرح ایک امین محض اپنی مرضی سے بغیر مالک کی اجازت کے امانت میں کسی قسم کے تصرف کاقطعاً کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اسی طرح ایک سرمایہ داراسلامی اُصول کے خلاف اپنی دولت کو ہرگزہرگز خرچ نہیں کرسکتا، اگر کرتا ہے تو وہ خائن اور مجرم ہے۔ اس طرح دولت کو مرضیِ الٰہی کے خلاف من مانی طور پر خرچ کرنے سے روک کر انسان کو بہت سی برائیوں اور فتنوں سے بچالیا گیا ہے ۔پھر دولت کو خرچ کرنے کے لیے کچھ مصارف مقرر کردیے ہیں۔ جن کی وجہ سے کوئی دولت مند مسلمان سرمایہ داری کی لعنت میں مبتلا ہی نہیں ہوسکتا۔

اس طرح سے قومی دولت ہمیشہ گردش میں رہتی ہے۔ دولت کے کسی ایک فرد یا گروہ کے پاس جمع ہوجانے سے قومی اقتصادیات و معاشیات میں جو بد نظمی اور خلل پیدا ہوجاتا ہے۔ اسلامی سماج میں وہ بد نظمی ہر گز پیدانہیں ہوسکتی۔

یہ بات ہمارے زمانے میں پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ کمیونزم اور شوشلزم وغیرہ اقتصادی تحریکیں جس مقصدکے لیے عالمِ وجود میں آئی تھیں انھیں اپنے مقصد میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہوسکی اور بہت جلد اہلِ بصیرت پر ان کا نقص اور کھوکھلا پن ظاہر ہوگیا لیکن اسلام کا نظامِ اقتصادیات جس طرح آج سے چودہ سو برس قبل عوام و خواص کی خوش حالی، باہمی ہمدردی اور سماجی تعلقات کی استواری کا ضامن تھا، ٹھیک اسی طرح اس ترقی یافتہ دور میں بھی عوام کی زندگی کو خوش حال اور طبقۂ اعلیٰ و اسفل کے مابین ذہنی اور عملی کشمکش کو دور کرکے باہمی تعلقات کو استوار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ایک یورپین مفکر اسی حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’دُنیا اگر اقتصادیات و معاشیات پر کسی نظام سے بآسانی قابو پاسکتی ہے تو وہ صرف اسلام کاپیش کردہ مکمل نظامِ اقتصادیات ہے۔‘‘ اس متعصبانہ د ورمیں جب کہ اغیار اسلامی اُصول کی سچائی اور افادیت کاقدم قدم پر اقرار و اعتراف کرتے ہیں اور دُنیا والوں کی فلاح و بہبود کا اسے ضامن یقین کرتے ہیں نیز انھیں اُصولوں پر چلنے کی وہ دعوت بھی دیتے ہیں۔

تو ہم مسلمان کہیں زیادہ اس کے مستحق ہیں کہ اپنے مذہب کے ہر چھوٹے بڑے اُصول پر سب سے پہلے عمل پیر اہوں، کاش کہ مسلمان کی عملی زندگی اسلام کا آئینہ دار ہوتی۔ ’زکوٰۃ‘ اسلام کا وہ اہم رکن ہے جس میں دین و دُنیا کی برکتیں اور بھلائیاں پوشیدہ ہیں، زکوٰۃ دینے سے انسان میں ایثار و قربانی اور ہمدردی و مروت کے جذبات اور مستحقین کے حقوق کی ادایگی کاخیال اور احساس پیدا ہوتا ہے ، غرور و نخوت کی لعنتوں سے اس کا دامنِ حیات پاک ہوجاتا ہے ،یہ وہ اوصاف ہیں جن پر اخلاقیات کی بنیاد قائم ہے نیز یہی انسان کے اصلی جوہر بھی ہیں اور دوسرے یہ کہ اُخروی سعادتوں کے علاوہ زکوٰۃ دینے سے دنیاوی عزت و وجاہت اور عوام کی پوری پوری ہمدردی بھی حاصل ہوتی ہے، مولیٰ تعالیٰ ہر صاحبِ استطاعت کو توفیق بخشے کہ وہ پوری دیانت اور ایمان داری سے ہر سال اپنی پاک کمائی کا چالیسواں حصہ راہِ خدا میں خرچ کرکے اپنے قوم و سماج کی فلاح و بہبودی اور ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور عند اللہ خیرِ کثیر اوراجر عظیم کامستحق ہے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ واصحابہٖ اجمعین!

(ماہ نامہ مدنی تجلیات : ناگ پور ، شمارہ جنوری۱۹۶۶ء، ص۱۹۱ ۔

مضامین اشرف الفقہاء، مطبوعہ نوری مشن مالیگاؤں ۲۰۲۰ء) ترسیل : نوری مشن مالیگاؤں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *