ڈاکٹر عبدالوہاب ایک عہد ساز اور مردم ساز انسان تھے
ڈاکٹر عبدالوہاب ایک عہد ساز اور مردم ساز انسان تھے ۔ ڈاکٹر عبد الودود قاسمی
دربھنگہ کی سرزمین ابتدا سے آج تک علمی وادبی سرزمین رہی ہے۔ ہر زمانے میں دربھنگہ کی خاک سے ایسے ایسے لعل و گہر پیدا ہوتے رہے ہیں جن کی سیاسی، سماجی، ملی، طبی فلاحی اور رفاہی خدمات قابل رشک ہی نہیں قابل تقلید عمل بھی ہے
انہی خوش بختوں میں سے ایک عہد ساز مردم ساز اور ادارہ ساز شخصیت ڈاکٹر عبدالوہاب کی تھی، جن کی خدمات حقیقتاً قابل رشک ہے، موصوف ایک غریب پرور اور نہایت رحم دل انسان تھے،موصوف تاحیات پیشہ طبابت سے جڑ کر خدمت خلق کرتے رہے
ان کی ملی و فلاحی خدمات کے دائرے کافی وسیع ہیں، موصوف طبابت کے علاوہ قوم و ملت کے اصل روحانی طبیب تھے۔ قوم و ملت کے نونہالوں کو کیسے تعلیم سے آراستہ کیا جائے، اور مسلم سماج میں جہالت کی بیماری کو کیسے ختم کیا جائے ڈاکٹر صاحب دن رات اسی فکر میں گھلتے رہتے تھے۔
ان تمام باتوں کا اظہار اردو زبان و ادب کے مشہور شاعر وادیب ڈاکٹر عبدالودود قاسمی نے ڈاکٹر عبدالوہاب صاحب کی خود نوشت سوانح حیات “سوز وساز حیات” کے رسم اجرا کے موقع پر منعقد ایک عظیم الشان محفل میں اپنے گفتگو کے دوران کہی،
موصوف نے مزید کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی قیادت و سیادت میں صغریٰ گرلس ہایی اسکول، شفیع مسلم ہائی اسکول اور درسگاہ اسلامی( رحم خاں) و پرانی منصفی آج بھی تعلیمی مشن پر رواں دواں ہے۔
آج مسلم قوم کی ہزاروں بچیاں پوری اسلامی حیا داری اور پاکیزہ ماحول میں صغریٰ گرلس اسکول میں تعلیم کی زیور سے آراستہ وپیراستہ ہو رہی ہیں یہ ڈاکٹر صاحب کی کوششوں کا ہی ثمرہ ہے۔ درسگاہ اسلامی پرانی منصفی میں جب میں بحیثیت پر نسپل مامور ہوا،ان دنوں ڈاکٹر عبدالوہاب صاحب جو کہ درسگاہ اسلامی کے صدر ہوتے تھے۔
آپ جیسی نابغہ روزگار شخصیت سے دن رات مجھے تعلیمی تجربات کے علاوہ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا رہا۔ موصوف کی غرباء اور مساکین پروری کے سینکڑوں واقعات ہیں جو میرے ذہن میں آج بھی نقش ہیں۔ درسگاہ اسلامی جو بہت معمولی فیس لے کر قوم کے نونہالوں کو آج بھی تعلیم دے رہی ہے۔
کئی بار ایسا ہوا کہ گارجین اپنے بچوں کی فیس نہیں جمع کرتے تھے، میں ان کو بلا کر فیس کی یاد دہانی کراتا تو وہ معذرت کرتے، اور دوسرے ہی دن ہاتھ میں ایک میرے نام لکھا ہوا پرچہ لے کرآدھمکتے، جو ڈاکٹر صاحب کی دریا دلی کا ثبوت ہوتا تھا۔
اور وہ پرچہ ڈاکٹر صاحب کی سفارشی تحریروں پر مشتمل ہوا کرتا تھا اس میں ڈاکٹر صاحب لکھتے کہ اس کی فیس معاف کر دیں اور اس کی بقایا رقم میرے نام لکھ لیں اور مجھ سے لے لیں۔ ایسے سیکڑوں واقعات آے دن ہوتے رہے۔
موصوف عام طبیبوں سے الگ ایک مفکرو مدبر بھی تھے۔قرآن و حدیث پر ان کی خاص نگاہ تھی، ایک زمانہ میں مجھ سے کہتے تھے کہ مجھے فارسی پڑھا دو، مجھے مثنوی مولانا روم کا اصل نسخہ جو فارسی میں ہے پڑھنا ہے۔
آج ان کی یاد میں ان کے صاحبزادہ ڈاکٹر احمد نسیم ارزو نے ڈاکٹر عبدالوہاب فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ان کی خود نوشت سوانح حیات “سوز وساز حیات” کے رسم اجرا کی باوقار محفل سجائی، محفل میں لوگوں کے اژدھام کو دیکھ کر ایسا لگا کہ ڈاکٹر صاحب آج بھی کل ہی کی طرح لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں
واضح رہے کہ دربھنگہ کے کسی بھی شخصیت کی وفات کے بعد ان کی یاد میں سجائ گی ٔمحفلوں میں اتنی بھیڑ میں نے آج تک نہیں دیکھی، جو آج دیکھنے میں آیی ۔نو تعمیر شدہ ملت کالج کے قرب میں واقع”ملٹی ہال” جس کا ابھی باضابطہ آفیشیل افتتاح بھی نہیں ہوا ہے ڈاکٹر صاحب کے چاہنے والوں سے کھچا کھچ بھرا نظر آیا
لیکن اللہ پاک کی مرضی اور فیصلہ دیکھیے کہ رب کریم نے اپنے ایک عظیم اور نیک و بزرگ بندہ عبدالوہاب صاحب کی کتاب کی اجرا کے بہانے اس ملٹی ہال کا ایسا باوقار افتتاح کروا دیا جو تادیر یاد رکھا جائے گا۔
ان باتوں کا اظہار واعتراف محفل میں شریک دیگر مہمانان کرام نے بھی اپنی گفتگو میں برمحل کیا، معروف سیاسی لیڈر جناب عبدالباری صدیقی (سابق وزیر مالیات حکومت بہار)۔ جناب علی اشرف فاطمی (سابق وزیر مملکت) نے بھی برملایہ کہا کہ بنیادی طور پر ابھی اس ھال کا آفیشل افتتاح بھی نہیں ہوا ہے لیکن اللہ نے اپنے ایک محبوب بندہ کی سوانح حیات کتاب کے رسم اجرا سے باضابطہ اس ملٹی ھال کا افتتاح کر دیا ہے۔
یہ اس ھال کی بھی خوش بختی ہے،اپنے والد محترم کے چاہنے والوں کی بھیڑ اور جم غفیر دیکھ کر ڈاکٹر صاحب کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر احمد نسیم آرزو صاحب کافی جذباتی ہو گیے اور ان کی آنکھیں اشکباری کرتی ہوی نظر آییں۔اللہ پاک سے میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت ڈاکٹر صاحب کو جنت الفردوس میں اعلٰی سے اعلٰی مقام عطا فرمائے۔آمین