دینی جلسے اور دنیاوی علما
دینی جلسے اور دنیاوی علماء
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نہ اَبلہِ مسجد ہُوں، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہَلاہِل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
محفل ذکر و مجلس علم جنت کی کیاری
وعن أنس بن مالك – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – أن رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “إِذَا مَرَرْتُمْ بِرِيَاضِ الْجَنَّةِ فَارْتَعُوا”.قَالَ: وَمَا رِيَاضُ الْجَنَّةِ؟قَالَ: “حلق الذكر”.وفي رواية، مجالس العلم. (سنن الترمذي)
حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم جنت کے باغوں سے گزرو تو تم (کچھ) چر لیا کرو ،لوگوں نے پوچھا «رياض الجنة» کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ذکر کے حلقے اور ایک روایت میں ہے، علم کی مجلسیں“۔
علم و ذکر کی مجلسیں اسلام میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔
ذکر دراصل مؤمن کے لیے روح و ریحان ہے اورمہلک علم مؤمن کے لیے وہ عظیم دولت ہے جس کی تلاش میں وہ ہمیشہ رہتا ہے ،پس علم کی شرف و منزلت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں،علم عقل وفکرکاحاکم ونگہبان ، ذکروفکر کازینہ ،ایمان و عمل کی سلامتی کا ضامن، صحت عقیدہ کی دلیل اور عرفان حقیقی کا ذریعہ ہے۔
ذکر جمیل کی بہت سی صورتیں ہیں۔ ان میں سے ایک صورت۔ قال اللہ و قال الرسول کی محفلیں ہیں، جسے ہم موجودہ دور میں محفل میلاد، مذہبی جلسے، دینی کانفرنس اور سیمینار کہتے ہیں۔
یہ اور اس طرح کی ساری مجلسیں ریاض الجنہ کے زمرے میں شامل ہیں۔ کچھ لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے قرآن و حدیث کی تعلیم دینا آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ عظیم سنت ہے جس کی نظیر مسجد نبوی کے تعلیمی حلقات اور اصحاب صفہ کی مجلس علم و ذکر ہیں۔
اور اگر یہ دینی مجلسیں بڑے وسیع پیمانے پر منعقد ہوں تو اس کی نظیر میدان عرفات میں نبی آخرالزماں کا حجۃ الوداع کا وہ مشہور خطبہ ہے جہاں کم و بیش ایک لاکھ چوالیس ہزار انسانوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ 9 ذوالحجہ 10 ھ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عرفات کے میدان میں تمام مسلمانوں سے خطاب فرمایا۔ یہ خطبہ اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ اور اسلام کے سماجی، سیاسی اور تمدنی اصولوں کا جامع مرقع ہے۔
الغرض دینی مجلس چھوٹی ہو یا بڑی، گھر میں ہو یا مسجد میں یا میدان میں، اگر قرآن و سنت کی تعلیم و تربیت اور ترویج و اشاعت کے لیے منعقد ہے، تو وہ محفل یا اجتماع ریاض الجنہ میں شامل ہیں۔
انھیں دینی محفلوں کی برکت سے، چہار دانگ عالم میں تقریباً ایک ارب ستاون کروڑ مسلمان، عقیدے کے اعتبار سے مضبوط اور مستحکم ہیں۔
دوسری جانب ان جلسوں کو ریاض الجنہ بنانے والے، ہمارے صلحائے امت، علماے کرام ہیں۔
جن کے بارے میں آقاے کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:عُلَماءُ أمَّتي كأَنبياءِ بَني إسرائيلَ (ملا علي قاري-الأسرار المرفوعة) ترجمہ: میری امت کے علما، بنی اسرائیل کے انبیا کی طرح ہیں۔ نیز ان علمائے حق کے تعلق سے اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاطر:28) ترجمہ: اللہ تبارک و تعالی کے بندوں میں سے صرف علمائے حق ہی اللہ تعالی سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ داعیان اسلام اور علمائے کرام کی یہ وہ مقدس گروہ ہے
جس کی فضیلت اللہ تبارک و تعالٰیٰ نے اس طرح بیان فرمائی ہے:كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ۔ ترجمہ: تم تمام امتوں میں بہتر ہوں کہ تم لوگوں کے درمیان ظاہر ہوئے ہو۔ نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور گناہوں سے روکتے ہو۔ اور اللہ تبارک و تعالی پر ایمان رکھتے ہو۔ موجودہ جلسے اور ہم
دینی جلسوں اور سیمیناروں کو ریاض الجنہ بنانے والے صلحاے امت اور علمائے حق تھے۔ جن کے حسن کردار و حسن عمل اور جن کے اخلاص و صدق نیت کی برکتوں سے یہ محافل جنت کی کیاریاں بنتی تھیں۔ جہاں لوگوں کو جہنم سے بچایا جاتا تھا اور جنت کا راستہ دکھا کر جنتی بننے کی ترغیب دی جاتی تھی۔
لیکن کیا دین کے نام پر منعقد ہونے والے موجودہ دور کے جلسے اور سیمینار ریاض الجنه ہیں ؟ جنت کی ان کیاریوں کو دنیا داری کی کھیتی کن لوگوں نے بنائی ہے؟ وہ کون لوگ ہیں جو دین کے نام پر لوٹ مچائے ہوئے ہیں؟ یہ حدیث ملاحظہ کریں بات سمجھ میں آجائے گی إن شاء الله!
قرب قیامت کی علامت
عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :يوشك أن يأتي على الناس زمان لا يبقى من الإسلام إلا اسمه ، ولا يبقى من القرآن إلا رسمه ، مساجدهم عامرة وهي خراب من الهدى ، علماؤهم شر مَن تحت أديم السماء ، مِن عندهم تخرج الفتنة وفيهم تعود )رواه ابن عدي في ” الكامل ، والبيهقي في ” شعب الإيمان “)
ترجمہ: حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔انہوں نے فرمایا کہ: آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :”عنقریب لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گاکہ اسلام باقی نہیں رہے گا، مگر اس کا نام۔ قرآن باقی نہیں رہے گا، مگر اس کا رسم الخط ۔ ان کی مسجدیں آباد ہوں گی، لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے سب سے زیادہ برے لوگ ہوں گے،کہ ان کے ذریعے فتنے پیدا ہوں گےاور انہیں کی طرف لوٹیں گے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے ذریعے روایت کردہ حدیث پاک میں یہ الفاظ زیادہ ہیں۔السنة فيهم بدعة و البدعة فیھم سنة۔
ترجمہ : سنت کی حیثیت ان کے نزدیک بدعت ہو جائے گی اور بدعت سنت۔
اسی حدیث کو دیلمی نے مسند الفردوس میں ان الفاظ کے اضافے کے ساتھ روایت کی ہے۔
ىأتی علی الناس زمان، همھم بطونهم و شرفهم متاعھم وقبلتهم نساؤھم ودينهم دراهمھم۔
لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا، جب لوگوں کی زندگی کا مقصد ان کا پیٹ ہوگا۔ ان کی شرافت و بزرگی دولت ہوگی۔ ان کا قبلہ ان کی بیویاں ہوں گی۔ ان کا دین روپے و پیسے ہوں گے۔
لمحۂ فکریہ
ہمیں غور کرنا چاہئے کہ مذکورہ بالا احادیث کریمہ کے معنی و مفہوم کا انطباق موجود دور کے علماء، خطباء، شعراء اور نقباء پر ہوتا ہے ؟
اقبال نے اس کو اس طرح کہاہے۔
واعظِ قوم کی وہ پُختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شُعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذاں، رُوحِ بِلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصافِ حجازی نہ رہے
_دعائے خیر
یا اللہ اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں ہم سب کو ان برائیوں سے محفوظ فرما اور حسن نیت کے ساتھ حسن عمل کی توفیق عطا فرما آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
محمد شہادت حسین فیضی
9431538584