مشکل حالات میں خوش رہنا سیکھئے
زندگی میں بہت سارے ایسے مواقع آتے ہیں جب آدمی پر خوشی یا غمی کا غلبہ ہوتا ہے ان دونوں موقع سے آدمی بے خود ہوجاتاہے ، اپنے میں نہیں رہتا ، یہ انسانی سرشت ہے ، شریعت چاہتی ہے کہ ان دونوں موقعوں سے بھی آدمی قابو میں رہے ، بے پناہ خوشی کے موقع سے وہ لہو ولعب میں مبتلا نہ ہو اور غم کی پُروائی اسے مایوسی میں مبتلا نہ کرے
اسے احساس رہے کہ معاملہ خوشی کا ہویا غمی کا، سب اللہ رب العزت کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں، وہ حکیم ہے، اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوا کرتا، اللہ ایک معتدل زندگی گذارنے کی تلقین کرتا ہے
اسی لیے وہ زیادہ ہنسنے کو منع کرتا ہے اور ہنسنے کے بجائے اللہ کے سامنے رونے کا حکم دیتا ہے ، کم ہنسو اور زیادہ روؤ ؛جو اعمال ہم کرتے ہیں، اس کا تقاضہ یہی ہے ، اسی طرح وہ نا امید ہونے کو بھی پسند نہیں کرتا اور بندے کو حکم دیتا ہے کہ اسے اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا چاہیے؛ کیونکہ نا امید وہی ہوتے ہیں جو اللہ کو نہیں مانتے ۔
اس اعتدال، توازن کے ساتھ جب زندگی گذرتی ہے تو غم کے
موقع سے بھی خوشی کا پہلو نکل آتا ہے، مثلا آپ کثیر العیال ہیں اور رزق کی تنگی کا سامنا ہے ، دن بھر محنت کرتے ہیں، کوئی آپ کے کان میں سرگوشی کرتا ہے کہ یہ ساری پریشانی زیادہ بچوں کی وجہ سے ہے، اگر ہم دو بچوں کے باپ ہوتے تو شاید ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا
پھر آپ سوچتے ہیں کہ میرے آنگن میں جو بچوں کی کلکاریاں اور گھروں میں روشنی ہے وہ ان بچوں کے ہی دم قدم سے ہے ، اگر یہ بچے نہ ہوتے توگھر کیسا ویران لگتا ، یہ پریشانی میں خوشی کی بات نکل آئی، یہ سوچ کر آپ کے ذہن ودماغ پر جو بوجھ تھا وہ اتر جائے گا ، آپ سوچیں گے کہ کچھ ہی دنوں کی تو بات ہے ، یہ بچے اپنے ساتھ دو کمانے والا ہاتھ اور ایک سوچنے والا دماغ بھی لے کر آئے ہیں، یہ بڑے ہوں گے تواپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے
میرا خیال رکھیں یا نہیں ، لیکن اپنی زندگی گذارنے کے وہ لائق ہوجائیں گے تو میرا بوجھ ہلکا ہو جائے گا ، گھر میں آپ کی بیوی کو بھی ان بچوں کی وجہ سے دن بھر کام میں لگا رہنا پڑتا ہے، بچوں کے کپڑے دھونا ، اسکول جانے کے پہلے انہیں ناشتہ کھلا کر تیار کرنا، دن کا کھانا ساتھ کرنا ، اسکول سے لوٹیں تو پھر سے ان کاموں پر لگ جانا،جسمانی ، دماغی ہر طرح کی مشقت کا سامنا ہے
لیکن اگر آپ کی بیوی عقل مند ہے تو اس میں اس کے لیے خوشی کا بھی پہلو ہے کہ وہ بچے اس کی ممتا کو تسکین دیتے ہیں اور عورت کو دنیاوی اعتبار سے اپنے جینے کا ایک مقصد سمجھ میں آتا ہے ، وہ ان بچوں کے لیے جیتی ہے اور ان کی ترقیات دیکھ کر خوش ہوتی ہے ۔
کسی کا شوہر بہت خراٹے لیتا ہے ، وہ ان خراٹوں کی آواز سے رات بھر سو نہیں پاتی ہے ، اسے اس صورت حال سے پریشانی ہے ، لیکن وہ اس پریشانی میں خوشی کا پہلو ڈھونڈھتی ہے کہ یہ کتنی اچھی بات ہے کہ میرے شوہر میرے پاس رہتے ہیں اور ان کے خراٹے ہمیں ان کے پاس ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں، وہ ہم سے دور ہوتے ، کہیں پر دیس میں رہتے تو میں کیسی تنہائی محسوس کرتی ، او زندگی کس قدر بے رس اور بے مزہ ہوتی، خراٹے ان کی زندگی کا ثبوت ہیںاور اس کا بھی کہ وہ میرے پاس موجود ہیں ۔
آپ کی آمدنی محدود ہے اور ہر مہینے آپ کو بجلی ، پانی ، گیس وغیرہ کا بل جمع کرنا پڑتا ہے ،ا س کا بوجھ آپ کی جیب پر پڑتا ہے ، جو آپ کو ملول کرتا ہے ، لیکن خوشی کا یہ پہلو اس میں ہے کہ یہ چیزیں آپ کو مہیا ہیں
ذرا تصور کیجیے ایسی آبادی کا جہاں ابھی بجلی نہیں پہونچی ہے ، پانی کی سطح زیر زمین اس قدر نیچے چلی گئی ہو کہ آپ پینے کے پانی کے لیے پریشان ہو رہے ہیں، ایندھن کے لیے آپ پر یشان ہیں ، گیس نہیں مل رہا ہے ، ایسے میں آپ کی زندگی کس قدر دشوار ہوتی ، لیکن ان چیزوں کی سہولت نے آپ کی زندگی
کو کس قدر خوش گوار بنا دیا ہے۔
آپ کا لڑکا روز صبح اٹھ کر اپنی ماں سے جھگڑا کرتا ہے ، کہ
مچھر اور کھٹمل نے مجھے رات بھر سونے نہیں دیا ، جھگڑا بُری چیز ہے ، اسے نہیں کرنا چاہیے، لیکن اس کا خوشگوار پہلو یہ بھی ہے کہ وہ رات بھر گھر پر رہتا ہے ، آپ کے پڑوس میں رہ رہے نوجوانوں کی طرح آوارہ گردی نہیں کرتا ، وہ بُری صحبت میں مبتلا نہیں ہے ، وہ مچھر ، کھٹمل کے آزار بر داشت کرتا ہے ، لیکن رات گھر ہی میں گزارتا ہے ، ذرا سوچیے جو بچے رات رات بھر گھر سے باہر رہتے ہیں، ان کے گارجین کو کس قدر کلفت اٹھانی ہوتی ہے ، خود ان بچوں کی صحبت ایسے لوگوں سے ہوجاتی ہے جو بعد میں خاندان کے لیے ننگ وعار کا سبب ہوجاتا ہے ، کبھی کبھی وہ ان کا موں میں مبتلا ہوجاتا ہے جو تھانے پولیس تک اسے پہونچا دیتا ہے اور آپ وکیلوں کے چکر لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ایک آدمی ہوسپیٹل میں پڑا ہوا ہے ، یقینا یہ اس کے لیے تکلیف دہ ہے ، اسی درمیان اس کے گاؤں میں کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش آگیا ، گاؤں کے لوگ اس میں ماخوذ ہو گیے ، اور نئی ابتلا وآزمائش سے دو چار ہو ئے ، ایسے میں اس مریض کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ سوچے کہ ہمارا بستر مرض پر پڑا رہنا ہمارے لیے اچھا تھا ، اگر ہم بھی گاؤں میں ہوتے تو دوسروں کے ساتھ ہم بھی ملوث ہوجاتے اور ہمیں بھی ان مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ، جس سے گاؤں کے لوگ جوجھ رہے ہیں۔
یہ اور اس قسم کی بہت ساری مثالیں آپ کو مل جائیں گی جو غم ناک اور المناک موقعوں سے بھی آپ کے ذہن میں یک گونہ خوشی کا احساس جگائیں گی اور آپ اللہ کے فیصلے پر راضی ہونے کے لیے اپنے کو تیار کر سکیں گے ، اللہ کے فیصلے پر راضی تو ہر حال میں ہونا اور رہنا ہے ، اس سے مفر نہیں، لیکن رضا کا ایک درجہ ہنسی خوشی ہے اور ایک بجبر واکراہ اور ظاہر ہے دونوں کا جو فرق ہے وہ ہر ایک پر واضح ہے ، خوش رہنے کے اس فارمولے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کا ذہن نئے منصوبوں کے بنانے اور عملی پیش رفت کے لیے تیار رہتا ہے ،اس کے بر عکس جب غم والم کی کیفیت ذہن ودماغ پر طاری ہو تو مایوسی کا غلبہ ہوتا ہے اور مایوس انسان ڈپریشن اور احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتا ہے، مایوسی اور ڈپریشن کے ساتھ تعمیری کاموں کا نہ تو کوئی منصوبہ ذہن میں آتا ہے اور نہ ہی کام کو آگے بڑھانے کا حوصلہ انسان اپنے اندر پاتا ہے
اس لیے خوش رہیے ، نہیں رہ پاتے تو خوش رہنا سیکھئے، با مقصد زندگی گذارنے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے ۔ایک عربی شاعر نے بڑی اچھی بات کہی کہ جب مصائب تم پر شدید ہوں تو سورہ الم نشرح میں غور کرو ، تمہیں معلوم ہوگا کہ عسر (پریشانی او رتنگی) دو آسانیوں کے درمیان ہے، یعنی کوئی پریشانی جو آتی ہے اس کے پہلے بھی آسانی کا دور گذرتا ہے اور بعد میں بھی آسانیاں آنے والی ہوتی ہیں، اس زاویے سے غور کرو گے توتمہیں خوشی ہوگی۔
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف