بدگمانی سے بچیں اور نہ کسی کو بدنام کریں
بدگمانی سے بچیں اور نہ کسی کو بدنام کریں
تحریر: جاوید اختر بھارتی
آج کا دور بڑا ہی پر آشوب و پر فتن ہے یہاں تک کہ اب یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کل تک دنیا گول تھی لیکن آج دنیا مطلب پرست ہے نہ چھوٹے بڑے کا ادب و احترام ہے اور نہ اخلاص وفا کا جذبہ ہے نہ کسی کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا جذبہ ہے کوئی ہرے درختوں کی جڑوں میں گرم پانی ڈال رہا ہے تو کسی کے تعلقات کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھ رہا ہے
جھوٹ اور مکر و فریب کے لباس میں ملبوس ہوکر دغابازی کا بازار گرم کررہا ہے تو کوئی قربت کو کاٹ رہا ہے اور صرف اپنی خوشی کے لیے دوسروں کا سکھ چین برباد کررہا ہے اور خوب بدگمانی کو فروغ دے رہا ہے ماحول تو ایسا ہوچکا ہے کہ پڑوسی پڑوسی کے لئے خطرناک، دوست دوست کے لئے خطرناک بنتا جارہا ہے ایک انسان کسی دوسرے انسان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو وہ وہ چہرہ بھی دیکھتا ہے اور اس کی حیثیت کو بھی دیکھتا ہے
یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کوئی کسی کو حد سے زیادہ چاہتا ہے تو اسے کوئی برائی نظر نہیں آتی اور جب کوئی کسی کا ساتھ چھوڑتا ہے تو اس کے اندر کوئی اچھائی نظر نہیں آتی اور وہ بدگمانی کا شکار ہوجاتا ہے دوستی دشمنی میں اور محبت نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہوجاتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی غیبت و چغلی کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں بعض لوگ تو لڑائی جھگڑے کا انتظار کرتے ہیں کہ کب موقع ملے تو ویڈیو بنائیں اور طنز کسیں زید نے بکر کو دیکھا تو اس کے اندر بکر کی ہمدردی آئی بلکہ زید کے دل میں بکر کی محبت کی محبت پیدا ہو گئی
وہ بکر کو دیکھتا اور اللہ سے دعا کرتا کہ کاش بکر میرا دوست بن جاتا آخر ایک دن زید نے اپنی محبت کا اظہار کرہی دیا مگر بکر نے زید کو اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ میرے ساتھ رہے تو اس اظہار محبت کا ذریعہ ہی کاٹ دیا زید افسوس میں ڈوب گیا جبکہ وہ بکر کے متعلق بڑا ہی پاکیزہ خیال رکھتا تھا مگر سب کچھ خاک میں مل گیا۔
آج کوئی کسی بات کی تحقیق کرنے کو تیار نہیں، کسی نے کچھ کہہ دیا تو اس کے متعلق صحیح معلومات کرنے کو تیار نہیں بس خرافات اور برائی شروع، الزامات کی بوچھار شروع، بغض و حسد کا اظہار شروع چغلخور کو بھی سکون مل گیا کہ چلو فلاں ابن فلاں کے درمیان اب تعلقات ناساز گار ہوگئے جھوٹی باتوں پر تو آج اتنی جلدی یقین ہوجاتا ہے کہ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک آدمی اپنی کار سے سفر کرہا ہے،،۔
راستے میں ایک صاحب ملتے ہیں گاڑی چلانے والے اس آدمی کے پاس اپنی گاڑی روک دیا اور پوچھتا ہے کہ بابا آپ کہاں جارہے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ بس تھوڑی ہی دور تک جانا ہے کوئی بات نہیں میں پیدل ہی چلا جاؤں گا لیکن گاڑی مالک بولتا ہے کہ بابا آپ میری گاڑی میں بیٹھ جائیں میں آپ کو وہاں تک چھوڑ دیتا ہوں اب بابا اس کی گاڑی میں بیٹھ گئے ابھی کچھ ہی دور پہنچے تھے کہ گاڑی مالک نے کہا کہ بابا آپ کی زندگی میں کوئی ایسا موقع آیا ہو جسے آپ بھلا نہیں سکے ہوں تو مجھے بھی بتائیں ہوسکتا ہے مجھے کچھ نصیحتیں حاصل ہوں،،
اب بابا کہتے ہیں کہ بیٹا ایک مرتبہ ایک خوب صورت نوجوان لڑکے سے میری ملاقات ہوئی اور وہ خوب صورت نوجوان لڑکا کافی پریشان نظر آرہا تھا چہرے پر اداسی تھی اور تھکا ہوا لگ رہا تھا
میں نے اس سے پوچھا کہ بیٹے کیا بات ہے کیوں پریشان ہو تو اس نے جواب دیا کہ بابا وہ ایک خوبصورت لڑکی ہے جس سے بے پناہ محبت کرتا ہوں تو میں نے کہا کہ جب محبت کرتے ہو تو پیغام نکاح بھیجوا دو تو اس نوجوان لڑکے نے جواب دیا کہ میں تو اس سے محبت کرتا ہوں مگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ صحیح لڑکی نہیں ہے اور اسی وجہ سے میں نکاح کا پیغام نہیں بھیج سکتا۔
اب بابا کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ اس کا امتحان ہی لے لیا جائے چنانچہ بابا نے کہا کہ میرے پاس چار لڑکیاں ہیں تم دیکھ لو اور جس سے چاہو تم اس سے نکاح کرلو تو اس نوجوان نے کہا کہ مجھے غور وفکر کرنے کے لیے تھوڑا وقت چاہئے تاکہ میں کچھ سوچوں اور سمجھوں اور پھر کوئی فیصلہ لوں،، بابا نے کہا کہ ٹھیک ہے میں تمہیں ایک مہینے کا وقت دیتا ہوں آخر کار ایک مہینہ گزر گیا ایک دن پھر اس خوبصورت نوجوان لڑکے سے بابا کی ملاقات ہوتی ہے تو بابا نے پوچھا کہ اے نوجوان بتا کیا تونے کوئی فیصلہ لیا تو اس نے جواب دیا کہ ہاں میرا فیصلہ یہ ہے کہ میں آپ کی کسی بھی لڑکی سے شادی نہیں کرسکتا بابا نے پوچھا کہ آخر کیوں؟
کیا میری لڑکیاں تمہیں پسند نہیں ہیں تب وہ نوجوان جواب دیتا ہے کہ بابا آپ کی سبھی لڑکیاں بہت خوبصورت ہیں مگر مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کی لڑکیوں کی عادت بری ہے ان کی سیرت اچھی نہیں ہے وہ بازاروں میں آتی جاتی ہیں اور ان کے تعلقات بھی بہت سے لوگوں کے ساتھ ہیں اس مجھے معاف کریں اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں میں آپ کی بیٹیوں سے شادی نہیں کرسکتا
اب بابا نے اس خوب صورت نوجوان لڑکے کا ہاتھ پکڑا اور اور اپنے گھر لے گئے دروازہ کھولا اندر داخل ہوئے تو ایک بوڑھی عورت تھی جس کی دیکھاتے ہوئے بابا نے اس نوجوان سے کہا کہ بیٹا اس گھر میں میں اور میری بوڑھی ماں یعنی ہم ہی دونوں رہتے ہیں اور میں نے شادی ہی نہیں کی ہے اور اس لئے میری کوئی لڑکی نہیں ہے بس میں تمہارا امتحان لے رہا تھا کہ تم کسی کی سنی سنائی باتوں پر کتنا یقین رکھتے ہو یاد رکھو جس طرح ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی تو اسی طرح ہرکسی کی ہر بات بھی سچ نہیں ہوتی اس لئے بدگمانی سے بچو اور ہر بات کی تحقیق کرو تاکہ سچائی پھلے پھولے اور جھوٹ، عیاری، مکاری کا خاتمہ ہو سکے اور نتیجے میں صاف شفاف معاشرے کی تشکیل ہوسکے۔
یہاں ایک واقعہ بھی تحریر کرنا مناسب ہے جو اکثر و بیشتر مقررین اپنے اپنے انداز فن کے مطابق بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام اوزاعی کے گھر صبح سویرے ایک عورت آئی خود امام اوزاعی نے دروازہ کھولا مگر فوراً وہ اندر چلے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ جاؤ ایک خاتون آئی ہوئی ہیں ان کو بیٹھاؤ ان کی بیوی جاتی ہے اور اس خاتون کو دالان میں بچھی چٹائی پر بیٹھاتی ہے جیسے ہی وہ عورت بیٹھتی ہے تو اس کا کپڑا بھیگ جاتا ہے اور اتفاقاً سامنے تھوڑی سی دوری پر ایک چھوٹا سا بچہ بھی ننگا نظر آتا ہے اب کیا تھا وہ مہمان عورت حضرت امام اوزاعی کی بیوی پر برس پڑی بہت کچھ کہتے کہتے یہاں تک کہہ دیا کہ تمہارے اس بچے نے پیشاب کیا ہے اور تم نے مجھے اسی ناپاکی پر بیٹھا دیا
جب کہ امام اوزاعی کی بیوی بار بار کہتی رہی کہ ائے میری بہن تمہیں بدگمانی ہورہی ہے اور تم غلط فہمی میں مبتلا ہو میں نے جس جگہ تمہیں بیٹھایا وہ پاک جگہ ہے وہاں کوئی پیشاب نہیں ہے مگر وہ عورت ماننے کو تیار نہیں جب امام اوزاعی کی بیوی نے بہت سفارش کی اور اس کی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کرتی رہی آخر کار اس عورت نے کہا چلو میں مان بھی لوں تو تمہارے پاس ثبوت کیا ہے تب امام اوزاعی کی بیوی نے کہا کہ ائے میری بہن یہ ناپاک جگہ نہیں ہے بلکہ یہ وہ چٹائی ہے اور وہ جگہ ہے جہاں فجر کی نماز کے بعد میرے شوہر روزانہ بیٹھ کر قرآن مقدس کی تلاوت کرتے ہیں
اور ہاتھ اٹھا کر اللہ رب العالمین سے دعائیں مانگتے ہیں اور اتنا روتے ہیں کہ یہ آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں اور اسی آنسو سے یہ چٹائی اسی طرح بھیگ جایا کرتی ہے اور اتفاق آج ایسا ہوا کہ تم آئی تو تمہیں وہیں بیٹھنے کا موقع مل گیا ورنہ میرے شوہر بار بار کہتے تھے کہ ائے میری بیوی تم میرے اس عمل کا تذکرہ کسی نہیں کرنا بلکہ میں جانوں اور میرا رب جانے تاکہ میرا یہ عمل دیکھاوے اور ریا کاری سے پاک رہے
کیوں کہ لوگ صرف یہی مشہور کرتے ہیں کہ اللہ کی ذات ایسی ہے بخشنے کے لیے ایک سجدہ کافی ہے اور یہ نہیں کہتے کہ وہ چاہے تو ہزار سال کے سجدے بھی منہ پر ماردے اور کہدے کہ تو عبادت ریاکاری میں ڈوب کر کیا ہے تیری ایسی عبادت میرے نزدیک قابل قبول نہیں تو دنیا میں میرے بندوں کی غیبت کرتا تھا، دوسروں پر تہمت لگاتا تھا اور خوب خوب بدگمانی کرتاتھا اس لیےرکوع و سجود بیکار اور دنیا میں تیری مصنوعی عبادت کا نتیجہ آج میری عدالت میں صفر ہے اور صرف صفر ہے۔
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین)
محمدآباد گوہنہ ضلع مئو
بھارت جوڑو یاترا سے کانگریس کو کتنا فائدہ
ہم نے آمد کی خوشی تو منالی لیکن
فکر لال بتی کی نہیں بس لال کارڈ کی ہے
معزز علماے اہل سنت سے مودبانہ گزارش
مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی
سیکورازم بچانا ہماری ذمہ داری ہے صاحب
حسد کی تباہ کاریاں اور ہمارا معاشرہ