بد دیانت سفرا مدارس اسلامیہ اور علما کے لیے زبردست خطرہ
بد دیانت سفرا مدارس اسلامیہ اور علما کے لیے زبردست خطرہ
از : عبدالخالق القاسمی
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام کی امتیاز ترین تعلیمات میں سے سب سے اہم تعلیم امانت داری اور دیانت داری کی تعلیم ہے،اور اس اسلامی تعلیمات کو عوام الناس تک پہونچانے میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اہم ترین کردار ادا کر کے امت مسلمہ کو یہ درس دیا کہ زندگی کے ہر موڑ پر امانتداری اور دیانت داری کا خاص خیال رکھیں اس سے بڑی نصیحت اس دور میں نہیں ھوسکتی۔
دور حاضر کا المیہ یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ کے رسمی سفراء کرام میں امانتداری اور دیانتداری کا فقدان ہے،ان میں بددیانتی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔
لیکن نہ کسی ادارے اور نہ کسی تنظیم اور نہ ہی کسی عالم دین نے اس مسئلہ پر اظہار خیال کی جرات کی،رمضان المبارک کا مبارک مہینہ اپنی تمام تر رحمتوں،برکتوں،کے ساتھ سایہ فگن ہونے والا ہے۔
اس مقدس مہینہ میں مدارس اسلامیہ کے اساتذہ وذمہ داران، مدارس کو استحکام بخشنے کے لیے بڑی تعداد میں چندہ کے غرض سے ملک بیرون ملک کے سفرپر نکل چکے ہیں،اس موقع پر بعض اھل مدارس امانت و دیانت کو بالائے طاق رکھ کر شریعت کے تمام اصول و ضوابط کے حدود کو پار کرکے نہایت بے غیرتی اور بے حیائی کے ساتھ اپنی ذاتی منفعت کے لیے چندہ جیسا عظیم کام جو مدرسہ کے تحفظ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
جو کام خود فعل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،غزوہ تبوک کہ موقع پر خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چندہ وصول فرمایا،اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ودیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس میں حصہ لیا،بلکہ ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کی،اور مسابقاتی انداز میں چندہ دیا ہے۔
ایسے کام کے لیے ایسے ایسے شرمناک حربے اور حیلے استعمال کئے جارہے ہیں جو پورے علماء طبقہ کو بدنام کرنے کے لیے کافی ہے،پورے ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مدارس کے سفراء کا تصدیق نامہ اور تعارفی کارڈ کا بنظر غائر مطالعہ کیا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں کتنی صداقت ہے ۔
بعض اہل مدارس تو اتنا مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں کہ جس کو سن اور پڑھ کر جو دلی تکلیف پہونچتی ہے وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی،بعض سفراء حضرات تو دروغ گوئی میں اس درجہ بڑھے ہوئے ہیں کہ انہیں اپنی عاقبت کی بھی پرواہ نہیں،ماہ رمضان کے آتے ہی رسمی سفراء میں بددینی بڑھ جاتی ہیں اور بعض میں تو اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ ان کو نہ نماز نہ تراویح اور نہ روزے سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔
بس ان کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ روپے بٹورنا،ان کی بد احتیاطیوں کا اندازہ اسوقت ہوتا ہے جب یہ شہروں کے 5 اسٹار ہوٹلوں کی زینت بنتے ہیں،اور اس مبارک مہینہ کی قدردانی کے بجائے اس کی بے حرمتی کرتے ہیں۔
اور دن میں ہی خوب مزے سے کھاتے ہیں جو نہایت افسوس اور شرم کی بات ہے،کسی بیان کرنے والے نے راقم سے کہا کہ کیا بتاوں رمضان میں تو میں نے ممبئی جیسے شہروں کے ہوٹلوں میں پردہ لگا دیکھا اور اس میں سفراء کرام کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھا،بعض ذمہ داران مدارس تو طلبہ کی تعداد اس قدر چڑھا بڑھا کر لکھتے ہیں جو واقعہ کے خلاف ہوا کرتا ہے،طلبہ کی تعداد جہاں صفر ہوا کرتی ہے
وہاں ارباب مدارس بڑھا کر لکھتے ہیں،اور جہاں طلبہ کی تعداد سو ہوتی ہے وہاں دوسو بڑھا کر لکھتے ہیں جو محض جھوٹ ہے،اس ماہ میں متعدد مدارس کی طرف سے یہ دھاندھلی بھی سامنے آتی ہے کہ بعض مدارس والے پرانی رسید پر گذشتہ سال کی مفوضہ رقم کو بڑھا کر یعنی سو روپے کو ہزار روپے بناکر چندہ دینے والے کے سامنے دھاندھلی سے پیش کرتے ہیں،اور اس طرح ان سے زیادہ رقمیں وصول کرتے ہیں،جو ادارہ کے لیے بدترین نقصان کا باعث ہے
سال گذشتہ راقم بہار شریف کے سلیم پور محلہ کی ٹاون مسجد میں قیام پذیر تھا،سفرا کی آمد و رفت اس مسجد میں رمضان کے موقع سے کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے،بہار شریف کے باشندگان بڑے ہی خوش نصیب ہیں کہ وصول الی اللہ اور رضائے الہی کے لیے آنے والے سفرا وارباب مدارس حل و عقد کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سرمدی سمجھ کر خوب خاطر مدارات کرتے ہیں۔
افطار میں نہایت لذیذ اشیاء ٹھنڈی مشروبات کا اہتمام ہوتا ہے،سحری کے موقع پر بعض مخیر حضرات کے یہاں دسترخوان کی یہی وسعت ہوتی ہے،یہاں سحری میں چاول کھانے کا رواج نہیں ہے،اس لئے صرف روٹیاں اور خشک غذا ہی ہوتی ہیں،الغرض راقم کی ایک سفیر سے ملاقات ہوئی۔
تین دن کی ملاقات نے اجنبیت کو ختم کرکے دوستی کے ہاتھ کو کچھ زیادہ ہی دراز کردیا،ایک رات راقم اسوقت جب وہ سفیر اپنی پرانی رسید پر لکھی رقم میں رد و بدل کررہا تھا چپکہ سے جب ان کے قریب پہونچا بہت دیر تک اس کے پشت کے پیچھے سے اپنی کن انکھیوں سے دیکھتا رہا بالآخر رہا نہ گیا اور کوسنے لگا بھائی بددیانتی نہ پہیلاو اسلام کو بدنام نہ کرو ۔
آپ جیسے لوگوں نے علماے طبقہ کو بدنام کر رکھا ہے،اللہ حفاظت فرمائے ایسے سفیروں سے مدارس اسلامیہ کی،کتنے ایسے مخیر حضرات ہیں جو ہر سال لاکھوں روپے کی زکوہ نہایت ادب و احترام اور اکرام کے ساتھ سفرا کو تقسیم کرتے ہیں۔
ایسے ہی سفرا کی بے ایمانی بددیانتی کی وجہ سے بڑے بڑے صاحب خیر حضرات یا تو بدظن ہوکر مدارس کو زکوہ دینا بند کردیا ہے،اور اپنی ساری رقم ٹرسٹ کے حوالہ کردیتے ہیں،انہی چند لوگوں کی شرمناک حرکتوں کی وجہ سے تمام مدارس اسلامیہ سے لوگوں کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔
یہی وہ نادان اور کم عقل سفیر ہیں جو چند ٹکوں کی خاطر اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے اپنا چولھا گرم کرنے کے لیے ،مدارس کی بنیاد کو کھوکھلا کر رہے ہیں،اگر بر وقت ان مدارس کو ایسے سفیروں سے بچایا نہ گیا تو مدرسوں کا سخت ترین نقصان ہوگا،سفراء ذرا سوچیں ،اگر اھل مدارس امانتداری اور دیانت داری کی رسی کو چھوڑ دینگے تو آخر دنیا میں کونسی مخلوق ہے جو امانت دار اور دیانت دار کہلائے گی
اس طرح کی دھاندھلی ،بددیانتی اور دروغ گوئی سے سفراء کرام پرہیز کریں،جن مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران وساتذہ کرام اور سفرا بے ایمانی اور جھوٹ بول کر چندہ کریں گے،وہ کبھی بھی چین و سکون کی زندگی نہیں گزار سکتے۔
اور نہ ایسے ادارے سے ملت اسلامیہ کا کوئی فائدہ ہوگا،یقینا اس طرح کی حرکت کرنے والے دین اسلام کی بے عزتی کا ذریعہ بن رہے ہیں ایسی ذلت و نکبت سے بچنے کے لیے ذمہ داران مدارس ۔
سفراے کرام اپنے اندر دیانت اور تقوی پیدا کریں،اور اخلاص کے ساتھ کام کریں،اپنی مذموم حرکتوں سے دین اسلام کو بدنام نہ کریں،خدارا اپنی محدود دنیا کو بنانے کے لیے اپنی ابدی زندگی کو برباد نہ کریں،اور امت کی قیمتی سرمایہ کو جو امت کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ ہونا چاہیے اسے اپنے مفاد میں خرچ کرنے سے بے حد گریز کریں۔
اللہ تعالی ہم تمام علما ارباب مدارس اور سفرا کرام کو للہیت کے ساتھ اپنے دین متین کی خدمت کے لیے قبول فرمائے،آمین
عبدالخالق القاسمی
مدرسہ طیبہ منت نگر مادھوپور مظفرپور