موجودہ مسلم معاشرت اسباب و زوال

Spread the love

موجودہ مسلم معاشرت۔۔ اسباب زوال

فی زمانہ مسلم معاشرت کے بگاڑکاجوحال ہے وہ انتہائی افسوسن ناک، عبرت ناک ،اور شرمناک ہے۔اس معاشرہ کی تمام خرابیوں کی تفصیل اوراس کے متعلقات پرغورکیجیے تو دل خون کے آنسورلاتاہے۔ اس کے بگاڑکا ایک عام لیکن بہت اہم پہلو وہ غیراسلامی اور غیرشرعی رسوم ورواج ہیں جن کومسلمانوں نے اپنے سماج میں خوش دلی سے رائج کررکھا ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ جب کسی مسلمان کے گھر میں بیٹی کی ولادت ہوتی ہے تو لوگوں کے چہرے اتر جاتے ہیں۔ایسا نہیں کہ اسے بیٹی سے محبت نہیں۔ مگر وہ بے چارہ کیا کرے ۔ نام نہادجہیزاوربارات کی لعنتی رسموں سے خوف زدہ ہوکر غمگین ہوجاتاہے۔ جہیز اور بارات خالص ہندوی رسمیں ہیں جن کو مسلمانوں نے خوش دلی سے اپنے سماج میں رائج کرلیا ہے۔ اورفرمان رسول کی خلاف ورزی کے جرم میں تباہ وبربادہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں بارات کا تصور ہے اور نہ جہیز کا۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرہ کو جہیز کے نام پر کچھ نہیں دیا اور نہ ہی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کسی بارات کا اہتما م کیا۔شادی کے سارے اخراجات حضرت علی سے لیے گیے جوانھوں نے اپنی زرہ بیچ کرادا کیے تھے۔
یعنی شادی کے سارے اخراجات کا ذمہ لڑکے پر ہے۔ لڑکی کو ان امورسے الگ رکھاگیا۔ حضور نے اپنی امت کے لیے عملی نمونہ پیش کیا اور ایک مثالی معاشرہ کی تشکیل فرمائی جس کی روشنی میں امت کے افراد کوچل کر زندگی گزارنی تھی۔اوریاد رکھیے کہ نبی ورسول کے اعمال ان کی امت سے اتباع کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ رسول کو تو مانتے ہیں اور بہت مانتے ہیں لیکن رسول کی نہیں مانتے۔ مانتے بھی ہیں تو صرف اتنا کہ جس سے ان کے ذاتی مفادات وابستہ ہوں۔ اور یہودیت اسی کانام ہے۔ پوری قوم یہودیت کی بیماری میں مبتلا ہے۔
بیٹیوں کو ایک ناکردہ گناہ جیسا سمجھا جانے لگاہے۔اسی جہیز اور بارات جو خالص نمائشی چیزیں ہیں، کے سبب ہماری بچیاں سن بلوغیت کی حدوں سے متجاوز ہوجاتی ہیں، بالوں میں چاندی کے تار آجاتے ہیں اورآنکھوں کے سارے سہانے خواب مرجاتے ہیں۔ اکیلی زندگی بڑی دشوار ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے ان میں کئی بچیاں شریک زندگی کے بطور غیرمسلموں کا انتخاب کرلیتی ہیں اورکافر ہوجاتی ہیں۔ یہ ان کی مجبوری ہے۔ کوئی مسلم لڑکابناجہیزکی شادی کے لیے تیار نہیں۔بچیوں کے والدین جہیز دینے کے قابل نہیں۔ اب کیا ہو۔؟۔ اب تو لڑکی والوں کو مطالبے کی ایک طویل فہرست بھی دی جانے لگی ہے۔ اسی جہیزاوربارات کی وجہ سے مسلمانوں کی پسماندگی اور ناخواندگی ختم ہونے میں نہیں آرہی ہے۔ چھوٹا موٹا بزنس کرنے والے اپنی معاشی سطح سے اوپر نہیں اٹھ پارہے ہیں۔ شادیاں اب لاکھوں میں ہوتی ہیں۔ غریب مسلمان کہاں سے لاکھوں روپیے لائے اور اپنی بیٹیوں کو جہیز میں دے۔ ان لاکھوں روپیوں کوجمع کرنے کے لیے وہ اپنے بچوں کو اپنے ساتھ بزنس یا مزدوری میں لگا لیتا ہے۔ پڑھائی چھوٹ جاتی ہے۔ بہنوں کا بوجھ بہت بھاری ہوگیاہے۔ جی چاہنے کے باوجود وہ کس طرح تعلیم حاصل نہیں کر پا رہا ہے۔ یہ ظلم اورجرم کس کے کھاتے میں لکھا جائے۔
قوم کے علماء قوم کاوقارومعیارہوتے ہیں۔ ان کی شخصیت اورذات رہنمایانہ ہوتی ہے۔ اس گری پڑی حالت میں بھی قوم کے افراد ان پر کسی نہ کسی قدراعتمادرکھتے ہیں۔ اس لیے تباہی کے اس عظیم سیلاب سے قوم کے تحفظ کے لیے علمائے کرام کوعملی طورپر سامنے آنا چاہئے۔ قوم ان سے تحفظ کامطالبہ کرتی ہے۔ علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کو صحیح خطوط پر چلائیں۔ وہ اپنے گھروں میں اور اپنے اقرباء میں بنا جہیزاوربارات کی شادیوں کو رواج دیں۔ وہ اپنے کردار وعمل سے ثابت کریں کہ وہ نائب رسول ہیں۔ قوم کی ڈوبتی ہوئی کشتی کے ناخدا ہیں۔ پہلے وہ خود غیراسلامی اور غیر شرعی سماجی رسموں سے اجتناب کریں۔ پھر قوم کے افراد بھی ضرور ان کی اتباع کریں گے۔ اورمسلم معاشرہ کی اصلاح کا عمل کارگر ہو سکے گا۔ یاد رکھئے۔!جب تک مسلم سماج مذموم و مہلک ہندوی رسموں،رواجوں سے نجات نہیں حاصل کرلیتا، قوم کی ترقی کا تصور بھی محال ہے۔
اسلام دین فطرت ہے اور سادگی اس کا حسن اور وصف ہے۔ تولوگو! اسلام کی طرف لوٹ آؤ، اسی میں تمھاری بھلائی اور ترقی ہے۔
جہزاوربارات پر میرا ایک مستقل مضمون ہے۔ اس لیے میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ بس صرف اتنا عرض ہے کہ دوسری قوموں کا اتباع چھوڑدو۔ اپنے خدا اور اس کے رسول کی اتباع کرو۔ یقینا تم ہی کام یاب رہوگے۔ جس دن مسلم قوم شادی بیاہ کی فضول اور لایعنی رسموں سے نجات پالے گی، وہ دن اس کی علمی ترقی کاپہلا دن ہوگا۔

انس مسرورانصاری
قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *