اردو زبان کی اہمیت و افادیت

Spread the love

اردو زبان کی اہمیت و افادیت

اردو جنوبی ایشیا کی ایک اہم اور بڑی زبان ہے بر صغیر ہند کی آزادی کے بعد اس کی مقبولیت اور اہمیت بڑھتی ہی گئی ہے یہ ہندوستان کی قومی زبانوں میں سے ایک ہے ، اردو اپنی چاشنی ، حلاوت ، مٹھاس اور نغمگی میں ہندوستان کی تمام زبانوں سے فائق وبرتر ہے ۔ اس کے اندر حسن کو لڑی میں پروکر بیان کرنے اور راز کائنات کو خوب صورت مرقع میں پیش کرنے کی جو صلاحیت موجود ہے اس کا ہم پلہ ہندوستان کی کسی زبان کو نصیب نہیں

اس وقت اردو اپنی بازوں کو پھیلا کر ہندوستانی سرحدوں کو عبور کرکے انگلینڈ وامریکہ ، کناڈا و جاپان ، ڈنمارک ،ناروے اور سوئیڈن ملیشیا بحرین تک پہونچ چکا ہے ، ہر جگہ اپنی دھوم مچا رہا ہے ۔ اردو زبان کی اہمیت ،ضرورت اور شہرت کے حوالے سے داغ دہلوی کا یہ شعر کہہ دینا بلکل صحیح ہوگا

اردو ہے جس کانام ہمیں جانتے ہیں داغ

ہندوستان میں دھوم ہماری زبان کی ہے

آج دنیا کے بیشتر ممالک میں اردو بولی، سمجھی اور پڑھی جاتی ہے اور اپنے وطن عزیز میں کشمیر سے کنیا کماری تک اردو بولنے والوں کی ایک لمبی تعداد ہمارے سامنے ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب اپنی اس پیاری اور انمول زبان اردو کو زندہ رکھنے اور بعد کی نسلوں تک پہنچانے کے لیے خوب جدو جہد کریں یہ بھی بتادوں کہ اس زبان نے ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اردو ہندوستان کی خوب صورت مشترکہ تہذیبی وراثت ہے، جسے ہمارے آبا ؤ اجداد نے ہمیں سجا سنوار کر ورثے میں دیا ہے۔ ہماری ذمّہ داری یہ ہے کہ ہم اس امانت کو پوری ایمان داری کے ساتھ اگلی نسلوں میں منتقل کریں۔ ہمیں اردو سے سچی اور عملی محبت کرنی چاہیے۔

ایک بات فارح صاحب کی زبانی سنا جو میرے دل میں خنجر کی طرح چبھا موصوف بول رہے تھے زبانیں ماں کی گود میں ہی پلتی ہیں اور وہ اداروں میں سنورتی ہیں۔ تب جاکر یہ اہل زبان کے دلوں میں دھڑکتی ہیں۔ لہٰذا اردو زبان کی ترقی کے لیے جو بھی ضرورت پیش آئے ہمیں تیار رہنا چاہئے اردو زبان ایسی زبان ہے جس کی تعریف اپنے تو اپنے بیگانے بھی کرتے ہیں

احتشام حسین کہتے ہیں اس نے ہندوستانی تہذیب کی روح اپنے اندر جذب کی تھی اور پہلی مرتبہ ملک نے لسانی اتحاد کی طرف قدم بڑھائے یہ تاریخی اور سماجی ارتقا کے تقاضوں کو پورا کر رہی تھی اس لیے ہندو اور مسلمان دونوں اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ اسی کی ایک شکل کا نام اردو ہے

نارنگ کہتے ہیں درباروں سے اردو کا رشتہ بڑا معنی خیز ہے، اردو نے درباروں سے نہیں بلکہ خود درباروں نے اردو سے رشتہ پیدا کیا۔

گوپی چند نارنگ کہتے ہیں

اپنی زبان کس کو پیاری نہیں لگتی۔ اس بارے میں طرف داری برحق، لیکن “سخن فہمی” بھی ضروری ہے۔ اردو کی زلف گرہ گیر کے ہم سب اسیر ہیں۔ اردو کے حسن و خوبی کا تذکرہ کون نہیں کرتا۔

دوسرا قول ہے کہ کون نہیں جانتا کہ اردو نے ہند آریائی کا دودھ پیا ہے اور اسی دھرتی پر پلی بڑھی ہے اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری اردو زبان فارسی کی آغوش تربیت میں پرورش پائی ہے (دیباچہ فرہنگ عامرہ)

 

آج اگر دنیا کی ترقی یافتہ تمام ممالک کو دیکھیں گے تو یہی پائیں گے کہ انہوں نے اپنی زبان کو خوب فروغ دیا جس کی وجہ سے کامیابی کی گونج دنیا کے ہر گوشہ میں سنائ دینے لگی

ایک مثال چین کی لے لیں جس نے اپنی چینی زبان پر بھروسہ کر کے خوب ترویج و اشاعت کی اور دنیا کو دیکھا بھی دیا کہ انگریزی زبان ترقی کی ضامن نہیں ہے ترقی تو اپنی زبان میں رہ کر بھی کی جاسکتی ہے ۔ چینی صدر کے سامنے جب انگریزی زبان میں سپاس نامہ پیش کیا گیا تو انھوں نے جواب میں ایسا جملہ بولا جو قابل تفکر ہے موصوف بولے کہ “ چین ابھی گونگا نہیں ہوا ” چین میں کوئی سرکاری یا نجی عہدہ دار انگریزی زبان بولتا نظر نہیں آئے گا۔

دنیا کی ہزارہاں سالہ ماضی کی تاریخ کھنگھال کر دیکھ لیں لیکن ایک بھی قوم ایسی نہیں جس نے کس دوسری زبان میں ترقی کی ہو۔۔

دنیا کا جدید ترین ملک اسرائیل کو دیکھیں ، وہاں کسی کو انگریزی نہیں آتی۔

کم مدت میں انتہائی ترقی کرنے والا ملک جرمنی ، جہاں لوگ انگریزی سے نفرت کرتے ہیں۔

دنیاے اسلام کا سب سے ترقی یافتہ ملک ترکی جہاں استاد سے لے کر آرمی چیف اور سائنس دان سے لے کر چیف جسٹس تک سارا نظام ترک زبان میں ہی ہے۔

ایران کا تمام سرکاری نظام مادری زبان / فارسی زبان میں ترتیب دیا گیا ہے یہاں ہر سال کوئ نہ کوئ نوبل پروسکار نامزد ہوتا ہے۔

دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے او ر ہم خام خیالی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ایسی سوچ رکھے ہیں کہ ہماری ترقی اسی وقت ممکن ہے جب ہم انگریزی صحیح طریقے سے بولیں گے، نہیں ایسا نہیں ہے پیارے بلکہ ترقی اپنی زبان میں ہی کی جاسکتی ہے حیرت تو اس بات کی ہے کہ اردو ادب کی تاریخ ہزار سالہ پرانی ہےاور انگریزی ادب تین سو سال سے پہلے نظر نہیں آتا۔ اگر دنیا میں اپنی پہچان بنانا ہے تو ہمیں اپنی اردو زبان کو اہمیت دینی ہوگی

ایک مشہور کہاوت ہے اپنی زبان بولو غلام نہیں ہووگے جیسے طوطا کو دیکھیں دوسروں کی زبان بولتا ہے اسی لیے پنجرے میں رہتا ہے اور کوئل کو دیکھیں وہ اپنی زبان بولتا یے اسی لیے آزاد رہتا ہے

تمام ممالک اپنی اپنی زبان کی بدولت آسمان کی بلندیاں حاصل کر گیے اور ہم ہیں جو آدھی عمر گنوا بیٹھے انگریزی زبان سیکھتے سیکھتے… افسوس صد افسوس

اللہ رب العزت ہمیں اردو زبان پہ ملکہ راسخہ عطافرمائے اور اپنی زبان کو فروغ دینے کی توفیق بخشے

از قلم: مجیب الرحمٰن سلطانی ثقافی

گڑھوا جھارکھنڈ

متعلم جامعہ مرکز الثقافة السنیة الاسلامیة کیرلا ہندوستان

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *