مدرسے تیزی سے کیوں بند ہو رہے ہیں
مدرسے تیزی سے کیوں بند ہو رہے ہیں
بہت سارے خود ساختہ (So-called) مدرسے اس لیے بند ہو گیے، کہ ان کے ناظم کو مدرسہ کے نام پر شکم پروری کرنے کے لیے دس بیس غریب بچے بھی نہیں ملے۔ آج کل اکثر مدرسوں کا ہدف یہ بنادیا گیا ہے کہ وہاں یتیموں، مسکینوں اور لاچاروں کی کفالت ہوتی ہو۔
علم و عمل اور دینی اداروں کے حقیقی اہداف یعنی جہاد فی سبیل اللہ، کار جہاں بانی و جہاں رانی، دینی دعوت و تبلیغ کا عالم گیر مشن، اور احیاے کلمۂ حق اور نظام عدل و انصاف کی بالادستی جو قائم و دائم رکھنے والے افراد پیدا کرنے جیسے اصل عناصر کا تو قیام مدارس کے غرض و غایت میں ذکر ہی نہیں ہے، بلکہ اسکی سوچ بھی نہیں ہے۔
کل ملاکر دو وقت کی روٹی اور پھر اسی دو روٹی کے حصول کے لیے غلامی کرنا ایسے مدرسوں کا مشن ہوگیا ہے۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے معمولی مقصد کے لیے مدرسہ چلانے کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کے پروڈکٹس اپنے اسی دو وقت کی روٹی کمانے میں بھی ناکام ہیں، اور کسی طرح گھسی پٹی زندگی گزار رہے ہیں اور غربت و افلاس کی فہرست میں سب سے آگے ہیں۔
وجہ صاف ہے، علامہ اقبال کہتے ہیں۔وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میںجس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کفِ جو علامہ اقبال ایسے علم کے حصول سے منع کرتے ہیں جو جسمانی لذتوں اور آسائشوں تک محدود ہو، اور جس کا ہدف دو چار ہزار کی امامت و خطابت میں محصور ہو۔علامہ اقبال ایسے علم کے حصول کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو مسلمانوں کی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرے، ایمانی قوت کو جلا بخشے، اور دنیا کو سرنگوں کرنے کا ہنر عطا کرے، سب کے سامنے جھکنے کے بجائے صرف ایک رب کے آگے سجدہ ریز ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور بیشک اس علم میں دولت بھی ہے، قدرت بھی ہے اور لذت بھی ہے۔
علامہ اقبال کہتے ہیں
علم میں دولت بھی ہے، قدرت بھی ہے، لذت بھی ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ ہمارا
جو اصل سراغ تھا حصول علم کے پیچھے، ہم اس سراخ کی تلاش میں ناکام ہیں، یعنی ہم اپنے مدارس کے اصل ہدف اور مشن کی تعیین میں ناکام ہیں۔ اگر ہم اپنے مدارس کے صحیح ہدف کا تعین ہی کرلیں اور اپنے بچوں کو وہ تعلیم دیں جو ہمارے اسلاف کا ہدف تھا ، جو ہمارے دین و ایمان کا تقاضا تھا، تو آج بھی اسی علم کی برکت سے عزت ، دولت، ثروت سب کچھ حاصل ہوجائے۔لیکن شکم پروری جیسے معمولی ہدف رکھنے والے ناظمین کے مدرسوں سے تراویح پڑھانے ، نماز پڑھانے اور نکاح خوانی و قرآن خوانی کے ذریعے دو وقت کی روٹی جٹانے والے ہی افراد نکلیں گے۔ جیسی سوچ ویسی اپج۔كل إناء يشوف بما فيه، ہر برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس میں ہوتا ہے۔
اوخویشْتَن گُم اَسْت کِرا رَہْبَری کُنَد
دنیا کے تمام تعلیمی اداروں کو شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔ اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اس کی نوعیت کا ہی شمار کیا جائےکہ دنیا میں کتنے قسم کے تعلیمی ادارے ہیں۔ تاہم ہر سال پوری دنیا کے تعلیمی اداروں کی پرکھ اور گریڈنگ ہوتی ہے۔
یہ گریڈنگ کرنے کے بہت سارے پیمانے ہیں۔ ان میں ایک پیمانہ یہ بھی ہے۔ کہ اس تعلیمی ادارے کے فارغین، تعلیم مکمل کرنے کے بعد ، سماج و معاشرہ اور ملک و قوم کے لیے کس قدر مفید اور کارآمد ہیں۔ وہ کس حد تک ملک و قوم کے لیے ضرورت بنتے ہیں؟
نیز خود ان کی زندگی میں کیسی تبدیلی اور کتنی بلندی آتی ہے؟
اخلاق عالیہ اورحسن عمل کے معاملے میں ان کی ذات کس حد تک لوگوں کے لیے مشعل راہ یعنی رول ماڈل بنتی ہے؟
اب اگر صرف اسی ایک پیمانے پر بر صغیر ہندو پاک کے تمام مدارس کا جائزہ لیا جائےاور پھر ہندوپاک اور بنگلہ دیش کے علماے کرام، و حفاظ و قراے عظام کی حالت زار، اور ان کی کسم پرسی پر نظر ڈالی جائے،اور اسی ایک پیمانے پر اس کی گریڈنگ کی جائے، تو مجھے لگتا ہے کہ شاید سو نمبر میں سے ایک نمبر بھی،آپ مدارس کو نہیں دیں گے۔
لاکھوں مدارس میں سے ایک آدھ مدرسہ کو چھوڑ کر۔ جب کہ ہمارے اداروں کو ان تمام تر دنیاوی اور مادی اداروں کے معیار سے بہت آگے ہونا تھا، اور ہمارے فارغین کو ان مادی اداروں کے فارغین کی بیماریوں کا علاج کرکے انہیں دوا دینا تھا۔ یعنی ہمیں ان کے بھی معالج و راہبر ہونا تھا۔ پہلے کبھی ایسا ہوا کرتا تھا۔ شاہان جہاں ہماری دہلیز پر باادب حاضری دیا کرتے تھے۔
دعوت فکر
ایسے بہت سارے لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ موجودہ دور کے مدارس میں گداگروں، اور دین فروشوں کی فوج تیار کی جا رہی ہے۔ اگرچہ میں ان کی ان باتوں سے قطعی اتفاق نہیں کرتا، لیکن ان کے یہ جملے، اور مدارس پر ان کے یہ حملے، ہم اہل مدارس کو دعوت غور وفکر ضرور دیتے ہیں۔ اہل مدارس کو ضرور بالضرور ان کی اس بے جا تنقیدوں کا جائزہ لینا چاہیے کہ ان تنقیدوں میں کتنی سچائی ہے؟
اور جو خرابیاں مدارس میں در آئی ہیں اس کی اصلاح کرنی چاہیے، تاکہ فارغین مدارس کو اپنی زندگی بہتر کرنے کے لیے دوسرے اداروں میں جانے کی ضرورت ہی نہ رہے۔
اور نہ ہی انہیں اپنی اسلامی زندگی گزارنے کے لیے کسی دنیادار کا محتاج ہونا پڑے۔ اقبال کہتے ہیں۔یہ بتانِ عصر حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میںنہ ادائے کافرانہ، نہ تراشِ آزرانہ
حالات حاضرہ اور مدارس
کیا یہ تلخ حقیقت نہیں ہے کہ لوگ (اس میں اپنے بیگانے سب شامل ہیں) مدارس اور مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو حقیر اور کمتر سمجھتے ہیں اور کچھ غلط لوگوں کی غلطیوں کی وجہ سے لوگ مدارس اور علما سے بیزار ہو رہے ہیں۔
اچھے لوگ اپنے بچوں کو مدارس میں پڑھانا نہیں چاہتے۔ایک اہم سوال یہ ہے کہ مدارس کے صدر، ناظم اور دوسرے ذمہ دار لوگوں میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو اسی مدرسے میں پڑھاتے ہیں جس کے وہ ذمہ دار ہیں؟
یہی وجہ ہے کہ مدارس میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ بہت سارے مدرسے، اس لیے بند ہو گئے، کہ انہیں مدرسہ کے نام پر شکم پروری کرنے کے لیے دس بیس غریب بچے بھی نہیں ملے۔
آج مدارس میں حقیقی انقلاب کی سخت ضرورت ہے۔اقبال عظیم آباد کہتے ہیں۔ بدلنا ہے اگر تو، رندوں سے کہو اپنی چلن بدلیں فقط ساقی بدل جانے سے میخانہ، نہ بدلے گاکب تک ہم اللہ و رسول کا نام لے کر اپنا اور اپنی قوم کا استحصال کرتے رہیں گے۔
اگر ہم نے اپنی اصلاح کر کے اپنی حالت نہیں بدلی تو لوگ ہمیں بدل دیں گے۔ حالات کچھ ایسے ہی آنے والے ہیں۔تو کسی انقلاب کی آمد کا انتظار نہ جو ہو سکے تو آج ہی انقلاب پیدا کر
محمد شہادت حسین فیضی