کانوڑ یاترا اور مسلمانوں کی مشرک نوازی

Spread the love

کانوڑ یاترا اور مسلمانوں کی مشرک نوازی

غلام مصطفےٰ نعیمی ، روشن مستقبل دہلی

ہندو سماج میں اپنے بھگوانوں کو خوش کرنے کے لیے مختلف یاترائیں(سفر) کرنے کا رواج ہے جیسے امرناتھ یاترا، نرمدا پَرِیکَرما،چوراسی کوس پَرِیکَرما، جگنّاتھ یاترا، پَنچ کوشِی یاترا،چار دھام یاترا، گووَردَھن یاترا وغیرہ۔کانوڑ یاترا بھی اسی مذہبی رواج کا ایک حصہ ہے جسے اُتر بھارت کے یوپی، اتراکھنڈ، راجستھان،ہریانہ اور ایم پی وغیرہ میں بسنے والے ہندو افراد مذہبی عقیدت کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔

گذشتہ کچھ سالوں سے اس یاترا کا چلن بڑی تیزی کے ساتھ بڑھا اور بڑھایا گیا ہے جس کی وجہ سے کانوڑ یاترا اب ایک بڑا مذہبی تہوار بن گئی ہے۔

 

کانوڑ یاترا کیا ہے؟

ہندو بِکرمی کیلنڈر کا پانچواں مہینہ ساون کہلاتا ہے۔اسی مہینے میں ہندو سماج کے لوگ اپنے اپنے علاقوں سے گنگا یا دیگر ندیوں کا سفر کرتے ہیں۔اس سفر کے لیے ہندو لوگ درمیانی لمبائی کا بانس لیتے ہیں اور باریک لکڑیوں سے اس کے اگلے پچھلے کناروں پر رنگ برنگی کاغذ اور پَنّی سے مندر جیسا ہلکا پھلکا نقشہ بناتے ہیں۔بانس کے دونوں جانب گنگا جَل بھرنے کے لیے برتن لٹکایا جاتا ہے۔

بس اسی چیز کو کانوڑ کہا جاتا ہے۔ہندو عقیدت مند اپنے کندھے پر کانوڑ اٹھا کر ہری دوار جیسے شہروں کا سفر کرتے ہیں۔اور وہاں سے گنگا ندی کا پانی لاکر مقامی شِو مندروں میں چڑھا کر اپنے بھگوان شِو کی پوجا کرتے ہیں۔

پہلے یہ سفر پیدل کیا جاتا تھا لیکن گذشتہ کچھ وقت سے کانوڑ یاترا کے لیے موٹر سائکل اور کھلی ہوئی four wheeler گاڑیوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔جس میں ڈی جے سسٹم کے ساتھ شِو کی بڑی سی مورتی نصب کی جاتی ہے۔کچھ نوجوان اس گاڑی پر سوار ہوتے ہیں جب کہ درجنوں نوجوان موٹر سائیکل پر سوار ہوکر ریلی کی شکل میں ناچتے گاتے نکلتے ہیں۔آج کل یہی طریقہ سب سے زیادہ ڈیمانڈ میں ہے۔

کانوڑ کا بڑھتا چلن

سن 1990 تک کانوڑ یاترا کا بہت زیادہ چلن اور رواج نہیں تھا۔چند سادھو سنت اور مذہبی افراد ہی یہ رسم ادا کرتے تھے۔اس لیے عوام الناس کو زیادہ پتا بھی نہیں چلتا تھا اور عوامی زندگی اس سے متاثر بھی نہیں ہوتی تھی۔نوّے کی دہائی سے رام مندر تحریک اور شہادت بابری مسجد کے بعد متشدد تنظیموں نے اظہار طاقت کے لیے اس یاترا کو بڑھاوا دینا شروع کیا۔جس کے تحت مختلف علاقوں میں کانوڑ کیمپوں کا انعقاد کیا جانے لگا۔جہاں کانوڑیوں کے رہنے/کھانے/پینے/علاج ومعالجہ کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ابتداً یہ کام بڑے شہروں اور چنندہ علاقوں میں شروع ہوا۔

کم وقت میں شہرت کے خواہاں افراد نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اپنی اپنی سطح پر کانوڑ کیمپ لگائے اور اسی بہانے اپنی برانڈنگ شروع کردی۔اس کا نتیجہ بھی ملنے لگا جو بھی کانوڑ کیمپ لگاتا دیکھتے ہی دیکھتے وہ مقامی سطح کا لیڈر بن جاتا،بس پھر کیا تھا جسے دیکھو وہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے نکل پڑا اور اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ساون کا مہینہ آتے ہی گاؤں، قصبوں اور شہروں کے گلی کوچے کیمپ لگانے والوں کے پوسٹر اور بینروں سے پَٹ جاتے ہیں۔پیسہ عوامی چندے کا ہوتا ہے مگر نام لیڈر کا ہوتا ہے، دھرم پریمی ہونے کا ٹائٹل الگ ملتا ہے، اب اس سے اچھا کام آج کے زمانے میں بھلا اور کیا ہوسکتا ہے؟

حکومتی نوازشات

کانوڑ یاترا کی تشہیر میں کئی سیاسی و دھارمک تنظیمیں شامل تھیں اس لیے عوامی مقبولیت بڑھتے ہی سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے جا بجا حکومتی سطح پر کیمپوں کا انعقاد ہونے لگا۔جہاں علاج ومعالجہ کی سہولت اور کھانے پینے کا بہترین نظم کیا جاتا۔حکومت اور عوامی پذیرائی کے احساس سے عام ذہن کا جھکاؤ اس یاترا کی جانب بڑھنے لگا۔

جھانکی اور ڈاک کانوڑ کے چلن نے پیدل مشقت سے بچا دیا جس نے ہندو نوجوانوں کو کانوڑ کی جانب بہت زیادہ راغب کیا۔انہیں وجوہات کی بنا پر آج کانوڑ یاترا اُتّر بھارت کا ایک بڑا دھارمک تہوار بن گئی ہے۔ان دنوں اتر بھارت کے زیادہ تر صوبوں میں بھاجپا کی حکومتیں قائم ہیں اس لیے کانوڑ یوں کے لیے نیشنل ہائی وے کو ایک طرف سے مکمل بند کردیا جاتا ہے۔ہَری دُوار جانے والے راستوں کا سارا ٹریفک دیگر راستوں پر نکالا جاتا ہے تاکہ کانوڑیوں کو کسی طرح کی دقت نہ ہو۔

حکومت کی کانوڑ نوازی کا یہ رُخ بھی بڑا اہم ہے کہ کانوڑ روٹ کے تمام ضلعی افسران کو حکم دیا گیا ہے وہ کانوڑیوں پر پھولوں کی بارش کریں اس لیے ایس پی اور ڈی ایم سطح کے افسران کانوڑیوں کی گُل پوشی اور ان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔خود یوپی اور اتراکھنڈ کے وزرائے اعلی نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے کانوڑیوں پر گُل پاشی کا کارنامہ سرانجام دیا۔

کہتے ہیں افسر شاہی حکومتی مزاج کے تحت اپنا ایجنڈا طے کرتی ہے اس لیے موجودہ حکومتوں کے رویے دیکھتے ہوئے افسر شاہی بھی کانوڑ نواز دکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی اس لیے مارے جوش کے 15 جولائی کو یوپی کے Basic education department نے حکومتی اساتذہ کے نام ایک ہدایت نامہ جاری کیا اور انہیں اسکول جانے کی بجائے کانوڑیوں کی خدمت کرنے کا حکم دیا۔ایک تو معاملہ اسکول کا تھا، دوسرے کانوڑیوں کی خدمت کا، جسے سماجی طور پر خود کو بڑا سمجھنے والا ایک طبقہ بالکل بھی پسند نہیں کرتا اس لیے اس ہدایت نامے پر اعتراضات شروع ہوگئے۔

بالآخر ہنگامے کے بعد یہ حکم نامہ واپس لیا گیا لیکن اس حکم نامے کے اجرا سے یہ بات اچھی طرح ظاہر ہوگئی کہ حکومت جس کام کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلے تو افسرشاہی حکومتی خوش نودی کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ساون کے جھلستے/برستے مہینے میں اس کے نظارے یوپی، ہریانہ اور اتراکھنڈ میں خوب دکھائی دے رہے ہیں۔

مسلمانوں کی مشرک نوازی

ایک زمانے تک عام مسلمان بھی عقیدہ توحید پر اس قدر راسخ تھے کہ شرک کے سائے تک سے پرہیز کرتے تھے لیکن چند مفاد پرست سیاست دانوں اور فلمی اداکاروں کی شرک پرستی سے متاثر ہوکر مسلمانوں کے کچھ طبقات بھی مشرک نوازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔حالیہ کانوڑ یاترا کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں نے کانوڑ کیمپوں کا اہتمام کیا اور بُت پرستی کے لیے نکلے کانوڑیوں کا مثالی استقبال بھی کیا۔اگر اس تماشے میں بے دین سیاست دان ہی ہوتے تو اتنا افسوس نہ ہوتا مگر یہ امر انتہائی تکلیف دہ ہے کہ مشرک نوازی کے اس کھیل میں جمیعۃ علماے ہند جیسی مذہبی جماعت پیش پیش ہے۔

🔹جمیعۃ سے وابستہ علما اور داڑھی ٹوپی والے مسلمان نہایت خوش اخلاقی کے ساتھ کانوڑیوں کو کھانا/پانی پیش کرتے نظر آرہے ہیں۔

🔸مشرک نوازی کا یہ عالم ہے کہ کچھ لوگ نہایت اپنائیت کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے کانوڑیوں کے پاؤں تک دھو رہے ہیں۔

🔸کئی جگہوں سے خود کو مسلمان کہلانے والوں کے بھی کانوڑ یاترا پر نکلنے کی خبر ہے۔

🔹ایک مسلم لڑکی نے اس موقع پر ہَر ہَر شَنبھو نامی بھجن گاکر شرک پرستی کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔

🔹موج پور دلّی میں ایک بڑی مسجد کے ٹھیک سامنے کانوڑیوں پر گُل پاشی کی گئی۔مشرک نوازی کی یہ تقریب مقامی کونسلر کی قیادت اور درجنوں نمازیوں کی شرکت میں منعقد ہوئی۔

آہ! کیسا وقت آگیا ہے کہ مسجد میں توحید کا مظاہرہ کرنے والا نمازی، شرک کرنے نکلے کانوڑیے کے پاؤں دھو رہا ہے۔کیا اس سے زیادہ ذلت اور عبرت کا بھی کوئی منظر ہوسکتا ہے؟

جس مسجد کے سامنے یہ ایمان سوز کرتوت انجام دی گئی یہ وہی علاقہ ہے جہاں دو سال قبل ہوئے مسلم کُش فساد میں 40 سے زائد مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا۔کروڑوں کی جائدادیں نذر آتش کردی گئی تھیں۔اسی فساد کے نام پر سیکڑوں مسلم نوجوان ابھی تک جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں مگر مقامی کونسلر کی قیادت میں اُن بے غیرت لوگوں نے اپنی بے ضمیری کا ثبوت دیتے ہوئے جس بے دینی کا مظاہرہ کیا ہے اسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔

خوب یاد رکھیں !

رواداری اپنے عقیدے سے دست برادر ہونے کا نام نہیں ہے۔اگر کوئی غیر مسلم شخص ضرورت مند یا پریشاں حال ہے تو اس کی پریشانی کو حل کیا جائے، انسانی بنیادوں پر اس کی ضرورت پوری کی جائے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ رواداری کے نام پر عقیدہ توحید کو پامال کریں۔

جن کانوڑیوں کی دیکھ بھال اور میزبانی پر حکومتیں دل و جان سے لگی ہوئی ہیں اُنہیں آپ کی میزبانی کی ضرورت ہے نہ خواہش۔لیکن مسلمان ہیں کہ زبردستی ان کی خدمت کے لیے مرے جارہے ہیں۔اس یک-طرفہ بھائی چارگی کو کیا کہا جائے؟۔

ممکن ہے مشرک نوازی کرنے والے افراد اپنے عمل کو باہمی رواداری اور اخلاق ومروت کا نام دیں مگر اہل ہنود کی نگاہ میں یہ صرف چاپلوسی اور ان کے شدت پسند لیڈروں کا خوف ہے جو ٹوپی والوں سے چوٹی والوں کی خدمت کرا رہا ہے اس لیے براہ کرم اپنے عمل سے اسلام اور مسلمانوں کی رسوائی کا سبب نہ بنیں۔عزت غلامی اور چاپلوسی میں نہیں غیرت وخود داری سے ملتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *