اقرأ حسن کا اندیشہ غلط ہے

Spread the love

اقرأ حسن کا اندیشہ غلط ہے

تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی)

معروف ٹی وی چینل” آج تک“ کی خاتون اینکر نے محترمہ اقرأ حسن کا انٹرویو کیا اور ان سے اسد الدین اویسی صاحب اور ان کی مسلم پولیٹکس کے بارے میں سوال کیا ۔

اقرأ حسن نے جواب دیا کہ اویسی صاحب بیرسٹر ہیں بیسٹ پارلیمنٹرین ہیں ہم ان سے بہت کچھ سیکھتے ہیں مگر جہاں سے میں ان سے عدم اتفاق disagree کرتی ہوں وہ یہ ہے کہ اویسی صاحب جس طرز پر مسلم پولیٹکس لے کر چل رہے ہیں وہ لیگ کا راستہ ہے جو پارٹیشن کی جاتا ہے ، ہمیں اس طرف نہیں جانا ۔

قارئین کرام !

آزادی کے بعد ہمارے تمام مشہور قائدین اسی اندیشے کی وجہ سے حصّے داری کی سیاست سے دستبردار ہوئے یعنی ایک موہوم چیز کو حقیقت سمجھ کر قدم اٹھاتے رہے ، اسی رویے کو اردو زبان میں کہتے ہیں ”بادلوں کو دیکھ کر گھڑے پھوڑ دینا“ جوکہ احتیاط تو ہوسکتی ہے مگر نہ تو عقل مندی ہے اور نہ ہی مستقل حل ۔

میری نگاہ میں تو یہ ایک بے بنیاد وہم اور اندیشہ ہے جس کاکوئی علاج ممکن نہیں ۔
میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر مسلمان حصے داری کی سیاست کریں گے یا اپنی سیاسی پارٹی تشکیل دیں گے تو آخر ہم دوبارہ تقسیم Partition کی طرف کیوں جائیں گے ؟

بھارت میں موجود تمام مسلمانوں نے اور یہاں پر موجود مذہبی و سیاسی قیادت نے کیا دو قومی نظرئیے two nation theory کو ٹھکرا نہیں دیا ؟

کیا علحدگی پسندی مسلم پولیٹکس کا لازمی حصہ ہے جو ہوکر ہی رہے گی ؟

کیا ہمارے دانش وران کی طرف سے ایسا کوئی روڈ میپ نہیں بنایا جاسکتا جو مسلم پولیٹکس کو لیگ کے راستے پر جانے سے روکے اور بے پناہ مسائل میں الجھی مسلم کمیونٹی پر توجہ مرکوز کرے ؟

اگر کوشش کی جائے اور دور اندیشی پر مبنی پالیسی بنائی جائے تو یقیناً ایسا روڈ میپ بنایا جاسکتا ہے ۔ دوسری بات ، کیا اسی بھارت میں سکھوں کی سیاسی پارٹیاں موجود نہیں ہیں ؟

جب کہ سکھوں میں خالصتان کی آواز نہ صرف اٹھتی رہتی ہے بلکہ باقاعدہ طور بیرونِ ملک ان کے دفاتر ہیں ۔ اسی طرح بی جے پی آر ایس ایس کے لیڈران کھلم کھلا بھارت کو ہندو راشٹ بنانے کی باتیں کرتے ہیں ، کیا یہ لیگ کا راستہ نہیں ہے ؟

تیسری بات یہ ہے کہ محترمہ اقرأ حسن کو مسلم لیگ کے راستے پر چلنے کا اندیشہ تو لاحق ہورہاہے مگر آزادی کے بعد 75/ سالہ سیاسی پارٹیوں کا ”متعصب رویہ “ اور ”جھوٹا سیکولرزم“ جو ایک زندہ حقیقت ہے نظر نہیں آرہا ہے ، جب کہ یہ ہی متعصب رویہ اور جھوٹا سیکولرزم ہم کو مسلم سیاسی پارٹی تشکیل دینے پر مجبور کرتا ہے ۔

محترم قارئین کرام!

سچائی یہ ہے کہ بھارت کو اگر صحیح معنوں میں سیکولر بھارت بنانا ہے تو اپنی سیاسی پارٹی تشکیل دینی ہی ہوگی ۔

تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی)

مقصود منزل پیراگپور سہارن پور

واٹسپ نمبر 8860931450

One thought on “اقرأ حسن کا اندیشہ غلط ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *