بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی حکومت کا مطلق العنان رویہ

Spread the love

بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی حکومت کا مطلق العنان رویہ

آج بھی انسانیت کا درد رکھنے والے انسانوں کی آنکھیں اس وقت نمدیدہ ہوجاتی ہیں جب سال 2002 گجرات فسادات کے تذکرے کیے جاتے ہیں اور جب ایک ایک واقعہ کے اوراق کو کھول کھول کر بیان کیاجاتا ہے تو انسانیت بھی شرم سے چورجاتی ہے

یہ فسادات اور واقعات کی تلخ یادیں جنھیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا بلکہ ظلم کی سب سے انتہائی بد ترین مثالیں ان ہی فسادات میں ملیں گی اگر چہ کہ ان تذکروں کو ماضی کی تاریخ میں مورخین نے رقم کردیا ہے جس کی سچائی تاقیامت تک ہندوستانی شہریوں کے سامنے وقفہ وقفہ سے آکر رہے گی اور آبھی رہی ہے بھلے ہی دنیا کے منصف ظالموں کو آزادبھی کردیں گے تو ایسے ظالم اس دن ضرور اٹھائے جائیں گے جس دن نہ کسی کی وکالت چلے گی نہ گواہی نہ فیصلے بلکہ اس حقیقی خدا ہی وکالت بھی کرے گا گواہی بھی دے گا

اور ہر ایک کے ساتھ انصاف بھی کرے گا اور بدلہ بھی دے گا جب کبھی بھی گجرات کا نام لیا جاتا ہے تو ایک انسانی ہمدرد دل میں فسادات کے خیالات کا ورد آئے بغیر نہیں رہتا یا پھر بلقیس بانو کا واقعہ آنکھوں کے سامنے منڈلاتے رہتا ہے جسکی درد بھری داستان جو ایک انسانی دل میں درد کی سسکیاں بھرے بغیر نہیں چھوڑتی ایسے سنگین فسادات کسی عام آدمی کے منصوبہ بند خیالات کا حصہ ہرگز بھی نہیں ہوسکتے بلکہ یہ ایک بڑےمنصوبہ بند سازش کا حصہ تھا تب ہی دنیا بھر میں گجرات فسادات کو غیر انسانی وانتہائی شرمسار کردینے والے واقعہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے

لیکن ایسے مجرمین کو بھی رہا کردیا جاتا ہے مگر کیا پتہ کہ حقیقت اور سچائی کی پیدائش وہاں وہاں سے ہوتی ہے جہاں سے ایک انسان تصور بھی نہیں کر سکتا اور جب جب سچائی جھوٹ کا پردہ فاش کرتے ہوئے دندناتی ہوئی آتی ہے تو ایسے ظالموں کے پیروں تلے زمین کھسکنے لگتی ہے ۔ حالیہ کچھ دنوں سے ملک میں کہرام مچا ہوا ہے لندن کانشریاتی ادارہ بی بی سی برٹش براڈ کاسٹنگ کی جانب سے ایک دستاویزی فلم انڈیا:دی مودی کوئسچین؟ کے نام سے تیار کی گئی جومنظر عام پر آچکی ہے

جس کو لیکر ہمارے ملک میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے اس فلم کو بطور دو سیریز میں تقسیم کیا گیا جسکی پہلی سیریز 17 جنوری کو ریلیز کردی گئی اور دوسری سیریز 24 جنوری کو ریلیز کردی گئی بی بی سی کے مطابق پہلی سیریز جسمیں مودی جی کی ابتدائی سیاسی زندگی کو پیش کیا گیا

جس میں خصوصی طور پر گجرات فسادات پر اٹھنے والے سوالات اور اسکے منظر نامہ کو پیش کیا گیا کیونکہ اس وقت گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی تھے جن کو ان فسادات میں اہم کردار ادا کرنے والا پیش کیا گیا بی بی سی کی یہ رپورٹ گجرات فسادات کے وقت کی برٹش حکومت کی تحقیقاتی کمیٹی کی ہے۔

جس کو پہلی بار ڈاکیو مینٹری کی شکل دے کر منظر عام پر لایا گیا جسمیں یہ انکشاف کیا گیا کہ گجرات فسادات منظم سازش کا حصہ تھے جسکا راست مقصد اکثریتی علاقہ کو اقلیتوں سے پاک بنانا تھا اس سیریز کو مسلمانوں کی نسل کشی کا نام دیا گیا اس دستاویزی فلم میں برطانیہ کے وزیر خارجہ جیک اسٹرا جو سال 2001 تا سال 2006 کی معیاد پر برطانیہ کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں انھوں نے اس فلم میں انکشاف کیا کہ ہندوستان ایک عظیم ملک کے علاوہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے

لیکن جس طرح سے گجرات فسادات رونما ہوئے ہیں اس ضمن میں ہم نے ایک تحقیقاتی کمیٹی کو روانہ کیا تھا جسطرح سے ہماری کمیٹی نے رپورٹ پیش کی وہ رپورٹ دیگر زرائع سے آنے والی اطلاعات کے بالکل مختلیف تھی کیونکہ گجرات میں جانبدار طریقے سے مسلم خواتین پر ظلم کی انتہا کی گئی عصمت ریزی کے واقعات گھروں دکانوں کو نذر آتش کرنا ,حتی کہ قتل عام کیا گیا جس میں دو ہزار انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہے

جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اس رپورٹ نے گجرات فسادات کا زمہ دار اس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی کو ٹھرایا جو قانون کے رکھوالوں کو فساد میں مداخلت نہ کرنے اور فسادیوں کو کھلی چھوٹ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے۔

بلکہ انھوں نےقانون کو اپنا کام روکنے کے لیے سیاسی مداخلت سے کام لیتے ہوئے ایک مثال بھی قائم کی بی بی سی کی رپورٹ کے حوالے اور اس وقت کے ایماندار آئی پی ایس عہدیدار سنجیو بھٹ کی زبانی کا موازانہ کیا جائے تو رپورٹ میں کوئی فرق نظر نہیں آتا کیونکہ سنجیو بھٹ نے بھی گجرات فسادات سے متعلق یہی شہادت دی تھی کہ وزیر اعلی نریندر مودی نے پولیس کے اعلی عہدیداروں کے ساتھ اجلاس طلب کرتے ہوئے(جس میں سنجیو بھٹ خود بھی موجود تھے) ۔

مسلمانوں کاصفایہ کرنے اور فسادات میں مداخلت نہ کرنے کی سخت ہدایت دی تھی سنجیو بھٹ کی یہ گواہی نے انھیں ابھی تک زندان کی در و دیوار میں قید وبند کر رکھا ہے واضح ہو کہ 27 فروری 2002 کو گودھراقصبہ کے قریب سابر متی ٹرین کی ایک بوگی کو ہجوم کی طرف سے نذر آتش کرنے کے بعد پورے گجرات میں فسادات رونما ہوئے تھے ۔ بی بی سی کی دوسری سیریز میں مودی جی کے دور اقتدار یعنی وزیر اعظم کے عہدہ پر فائزسے لیکر اب تک کی حکمرانی کا احاطہ کیا گیا

جس میں ہندوستان کی دوسری بڑی آبادی کے خلاف جو ظلم وذیادتی ہورہی ہے جسمیں ہجومی تشدد کے واقعات دفعہ 370 کی منسوخی شہریت ترمیمی قانون دہلی فسادات کے علاوہ دیگر معاملات میں مسلمانوں سے امتیازی برتاؤ کا احاطہ کیاگیا

بی بی سی کا ماننا ہیکہ عالمی سطح پر ہندوستان کی حکمران جماعت کا حکمرانی کے روز اول سے یہ دعوی رہا کہ وہ مسلم مخالف پالیسی نہیں اپناتی جب کہ دنیا بھر کے کئی تحقیقاتی ادارے بارہا یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ ہندوستان میں حکمران جماعت کی جانب سےمسلم مخالف پالیسیوں کو اپنایا جارہا ہے دنیا نے جینو سائیڈ واچ کی رپورٹ کو بھی دیکھا کہ جسمیں یہ بتایا گیا کہ کسطرح ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کشی کے اقدامات کیئے جارہے ہیں اب رہا سوال کیا بی بی سی کی رپورٹ اور اسکی دستاویزی فلم کیا حقیقت سے منحرف ہے؟

بالکل بھی نہیں بلکہ جو زمینی حقیقت ہے بی بی سی نے اسی مناظر کی بھر پور عکاسی کی ہے لیکن ہندوستانی وزیر خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے اس ڈکیو مینٹری فلم کو پروپیگنڈہ قرار دیا انھوں نےملک کو بدنام کرنے کا الزام لگایا بلکہ انھوں نے کہا کہ اس فلم میں تعصبیت سے کام لیا گیا ہے

بات یہیں نہیں رکتی بلکہ سابقہ ججس فوجی عہدیداران و سفیران ہند بھی مودی جی کی تائید میں میدان میں اتر آئے ہیں اور بی بی سی کو مکتوب بھی روانہ کیا ہے خیر یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہیں ہے کیونکہ جو فلم مودی جی کے خلاف ہو

اس فلم کوبھلا ہندوستان میں کیسے دیکھایا جاسکتا ہے بلکہ ہمارے یہاں تو جھوٹ پر مبنی فلم دی کشمیر فائلس کو بتایا جاتا ہے حق گوئی اور سچائی کا ہمارے ملک میں دور دور تک کوئی وجود نہیں ہے ابھی اس فلم کو دکھائے جانے پرملک کی الگ الگ یونیورسٹیوں میں تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے ایک طرف جے این یو کی طلباء یونین نے ایک پوسٹر جاری کرتے ہوئے منگل کی رات اس فلم کو دکھانے کا اعلان کیا تھا لیکن جے این یو انتظامیہ نے امن میں خلل کے امکانات بتاکر اس پروگرام کو منسوخ کرنے پر زور دیا اور انتباہ بھی دیا کہ اگر باوجود اسکے فلم دکھائی گئی تو سخت کاروائی کی جاسکتی ہے

اطلاع کے مطابق جے این یو کے کئی طلباء کو حراست میں لے لیا گیا پیر کے روزحیدرآباد کی سنٹرل یونیورسٹی میں طلباء کے ایک گروپ نے اس فلم کو دیکھنے کا اہتمام کیا تھا جسکے بعد بی جے پی کی اساتذہ تنظیم اے بی وی پی کی شکایت پر ان طلبا کے گروپ کے خلاف کاروائی کی گئی اور دوروز قبل مخالف گروہ کی جانب سے جواب میں دی کشمیر فائلس کو دکھایا جارہا ہے

بلکہ ابھی جامعہ ملیہ اسلامیہ, دہلی یونیورسٹی,امبیڈکر یونیورسٹی میں بھی اس فلم کی اسکریننگ کو روکنے کیلئے پولیس کا استعمال کیا گیا

لیکن طلبا ڈکیومینٹری کو دیکھنے کے لیے بضد ہیں پھر بھی پولیس نے اسے ناکام بنادیا اور اطلاع کے مطابق 24 طلباء کو حراست میں بھی لیا گیا دفعہ 144 بھی نافذ کردیا گیا سوال یہ ہیکہ آخراس فلم کے دیکھنے کو لے کر اتنا تنازعہ کھڑا کیوں کیا جارہا ہے؟۔

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جسمیں ہر کسی کو حق حاصل ہیکہ وہ جمہوریت کے دائرے میں اپنی بات رکھے اس ملک کی سب سے بڑی پارٹی اور مضبوط حکمرانی کادعوی کرنے والی آج صرف ایک فلم سے کیوں گھبرا رہی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اس فلم پر پابندی عائد کرنے کے بجائے جمہوری انداز میں اپنا موقف واضح کرتی

لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کیوں کہ کہا جاتا ہیکہ جب چور کے چوری کے شواہد ملتے ہیں تو وہ پس و پیش کا مظاہرہ کرتا ہے بی بی سی کا کہنا کہ اس نے اس فلم کو ریلیز کرنے سے پہلے حکومت ہندکا موقف طلب کیا تھا لیکن حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا جبکہ اب فلم ریلیز کرنے کے بعد اس پر پابندی عائد کی جارہی ہے لیکن ایک بات ضرور ہیکہ بی بی سی کو جو دستاویزی فلم پہلے منظر عام پر لانا چاہیئے تھا

اس نے اکیس سال بعد اسکو منظر عام پر لایا خیر دیر آید درست آید مگر بی بی سی نے ہندوستان کی گودی میڈیا کو سبق ضرور سکھایا ہےکہ میڈیا کا کردار کسطرح سے غیر جانبدار ہونا چاہیئے حالانکہ لندن کی پارلیمنٹ میں رشی سونک سے پاکستانی نژاد برطانیہ کے رکن پارلیمنٹ نے سوال کیا تھا کہ کیا آپ بی بی سی کی اس فلم سے اتفاق رکھتے ہیں؟

رشی سونک نے سانپ بھی مرے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مترادف جواب دیا کہا کہ میئں اس رپورٹ سے اتفاق نہیں رکھتا جبکہ انھوں نے اس فلم پر کوئی منفی تبصرہ بھی نہیں کیا جس سے ہم بھر پور اندازہ لگاسکتے کہ رشی سونک کیا کہنا چاہتے ہیں اگر کوئی رپورٹ جھوٹ پر تیار ہوتی یا من گھڑت ہوتی تو رشی سونک کھل کر تبصرہ کرتے بلکہ اس سے آگے بڑھکر کاروائی بھی کرسکتے تھے لیکن انھوں نے بھی جانبداری کا مظاہرہ پیش کیا شائد کہ وہ اپنے تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنا نہیں چاہتے تھے

تب ہی انھوں نے اپنے ہاتھ دونوں سمت کی جانب رکھ دیا ۔ گجرات فسادات کے اکیس سال مکمل ہونے جارہے ہیں لیکن آج بھی تیکھے سوالات مودی جی کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے ہیں بلکہ خوفناک سایہ کی طرح پیچھے پیچھے دوڑے چلے آرہے ہیں ایک طرف ملک کی عدالت عالیہ کلین چٹ دیتی ہے دوسری طرف بلقیس بانو کے گیارہ مجرمین کو معافی کے سہارےرہائی دی جاتی ہے اور پھول مالا پہنا کر استقبال کیا جاتا ہے

اور اسی اثناء میں گجرات اسمبلی انتخابات میں بی جے پی بلقیس بانو کے مجرم کواپنا نمائندہ بناتی ہے اور وہ جیت بھی درج کروالیتے ہیں کیا یہ نا انصافی بلقیس بانو کے پچھلے زخموں کو کریدنے کے مترادف نہیں ہے؟

جب گجرات میں بی جے پی کے انتخابی جلسے ہورہے تھے اس دوران امیت شاہ نے خود زبان سے اقرار کیا تھا کہ ہم نے ماضی میں ایسا سبق سکھایا کہ اب گجرات میں امن قائم ہے ہر کوئی جانتا ہیکہ امیت شاہ کے بیان کا پس منظر کیا تھا آج جبکہ بی بی سی سچائی کو آشکار کرنے کے لیے ڈکیومنٹری فلم بناتی ہے تو ملک میں ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے

محض اسی لیے کہ مودی جی کی شبیہ کو متاثر ہونے سے بچایاجاسکے کیا یہ جمہوریت کابھدا مذاق بنانے کے مترادف نہیں ہے؟بلکہ یہ تو جمہوریت سے کھلواڑ ہے کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہیکہ اس وقت کے موجودہ بی جے پی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھی کہا تھا کہ گجرات فسادات سے ہم پر ایک بدنما داغ لگ چکا ہے؟

کیا یہ سچ نہیں ہیکہ امریکہ نے مودی جی کو ویزا دینے سے انکار کیا تھا؟

ایک طرف بی بی سی کی ڈیکومینٹری کو لیکر ہنگامہ ہے تو دوسری طرف تین روز قبل گجرات فسادات میں 17 مسلمانوں کے قتل کے 22 مجرمین کو بھی رہا کردیا جاتا ہے ایک جمہوری ملک میں ناانصافی کی حدیں بے حسی کی انتہا پار کرچکی ہیں بلکہ حکومت کی جانب سے مطلق العنان فیصلے صادر کیے جارہے ہیں بہر حال جس بی بی سی کی ڈکیومینٹری فلم کو ہندوستان میں نہیں دکھایا جارہا ہے یوٹیوب چینلوں یاٹوئٹر پر اس فلم کو دکھانے پر پابندی عائد کی جارہی ہے

لیکن دنیا بھر میں اس سچائی کو دکھانے سے کوئی روک نہیں سکتا بلکہ بی بی سی نے صحافت کا حق ادا کرتے ہوئے دنیا کے سامنے گجرات فسادات کی سچائی سے باخبر کیا بلکہ یہ یاد دہانی بھی کروائی کہ شعبہ صحافت میں وہ طاقت ہے جو سچائی کےپردے کو ہر حال میں فاش کرسکتی ہے

اگر چہ کہ دیانتداری کا مظاہرہ کیا جائے اور یہ بات بھی عیاں ہوچکی ہیکہ جھوٹ کی مدت مختصر ہو کہ طویل وہ ایک دن ضرور فاش ہوکر رہے گی بی بی سی کی یہ حق گورپورٹ اور دستاویزی فلم ہندوستانی جمہوریت کے چوتھے ستون کی گودی میڈیا کیلئے کسی طمانچہ سے کم نہیں ۔

سید سرفراز احمد ,بھینسہ

3 thoughts on “بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی حکومت کا مطلق العنان رویہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *