ایک خوب صورت سفر
ایک خوب صورت سفر
تقریبا آٹھ دن قبل ہمارے محب حاجی یوسف صاحب سے ملاقات ہوئی تو دوران گفتگو کہنے لگے کہ حضرت جمعرات کے دن کلیر شریف چلیں گے اگر وقت ہو تو تیار ہر جائیے میں نے کہا ضرور چلیں گے ٬ جمعرات کا دن آیا تو کلیر شریف کی حاضری کے لیے ہمارا چھ رکنی وفد بعد نماز فجر بذریعہ کار جائے اقامت سے منزل کی طرف چل پڑا سفر تقریبا چار پانچ گھنٹے کا تھا لہذا دوران سفر کئی ایک واقعات پر گفتگو ہوتی رہی بہت سی باتیں جو وقت نہ ہونے کے سبب ہم ایک دوسرے سے نہیں کر پاتے ہیں ایسی معیت میں ان مسائل پر بھی سیر حاصل گفتگو ہو جاتی ہے اور ہم لوگ بھی اسی اصول پر گامزن تھے تقریبا تین گھنٹے سفر کرنے کے بعد ایک ہوٹل پر گاڑی رکی اندر جا کر معلوم ہوا کہ یہ ہوٹل سکھوں کا ہے اور سکھ اپنے کاروبار و امیری کے لیے مشہور ہیں وہاں ناشتہ کرکے آگے کی منزل کی طرف بڑھے ____ دوران سفر میری ایک عادت ہے اور کبھی کبھی یہ عادت مجھے الجھن کا شکار بنا دیتی ہے بات یہ ہے کہ دوران سفر دیواروں٬ مکانوں پر لکھے ہوئی چیزوں کو پڑھتا رہتا ہوں اور کوشش یہی رہتی ہے کہ گاڑی گزرنے سے پہلے پہلے بات پڑھ لی جائے لیکن اگر گاڑی رفتار کے سبب گزر جائے تو پھر ذہن پر بوجھ رہ جاتا ہے کہ وہاں کیا لکھا تھا آدھی بات رہ گئی اسی طرح جس بستی یا شہر سے گزر ہوتا ہے تو دوکان و مکان پر لکھی ہوئی عبارتوں سے یہ پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ مسلمان کی دوکان کونسی ہے اور غیر مسلم کی کونسی ساتھ ہی بستیوں میں گہرائی سے دیکھتا ہوا جاتا ہوں کہ مسجد کے مینار نظر آ رہے ہیں یا نہیں جہاں ایسی علامات موجود ہوں جن سے وہاں مسلمانوں کے ہونے کا احساس ہوتا ہے تو دل کو مسرت ہوتی اور اگر کوئی علامت و شناخت نظر نہ آئے تو اداسی بھی ہوتی ___ ہمارا یہ چھ رکنی وفد جب نجیب آباد سے گزرا تو فورا پردہ ذہن پر جے این یو کا وہ طالب علم ابھر آیا جس کی عدم موجودگی کے بارے میں آج تک کچھ علم نہیں ہو سکا آخر وہ کہاں ہے کہاں نہیں اس کی ماں کی حالت اب کیا ہوگی اور جواں سال بیٹے کی جدائی میں والدہ کے شب و روز کیسے گزر رہے ہوں گے میں محمد نجیب کی بات کر رہا ہوں جو کئی سال قبل جے این یو یونیورسٹی سے لاپتہ ہوا تھا اور اس کے بعد سے آج تک کوئی اس کے بارے میں کوئی معقول خبر دستیاب نہیں ہو سکی انہیں خیالات کے ساتھ سفر جاری رہا گاڑی برق رفتاری سے منزل کی طرف پیش قدمی کرتی رہی اور اسی درمیان اتر پردیش کی سرحد ختم ہوئی اترا کھنڈ کی سرحد شروع ہوئی جس راستے سے ہم جا رہے تھے اسے دیکھ کر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ پہاڑوں کو کاٹ کر بنایا گیا ہے کافی دیر سفر کرنے کے بعد اترا کھنڈ کی آبادیوں کے پاس سے گزر ہوا جہاں قدم قدم پر ہندوانہ رسم و رواج نظر آئے ہندو تہذیب و آثار کے گہرے نقوش دیکھے بڑے بڑے مندر مورتیاں ٬بت دیکھ کر اس بات کا احساس ہوا کہ ہندوستان میں ہندو احیا پرستی کا عمل بہت شدت کے ساتھ جاری ہے تقریبا دو گھنٹے مزید سفر کے بعد ہمارا قافلہ رشی کیش پہنچا جہاں حاجی جی کو کچھ ضروری کام تھے ان سے فراغت کے بعد ہم پھر اپنی اصل منزل کلیر شریف کی طرف عازم سفر ہوئے کلیر شریف رشی کیش تقریبا ساٹھ کلو میٹر ہے جو ایک گھنٹے کی مسافت بنتی ہے _____تقریبا ایک گھنٹہ سفر کرنے کے بعد ہمارا قافلہ کلیر شریف پہنچا وہاں پہنچ کر فورا ضروریات اصلیہ سے فراغ پا کر نماز ظہر ادا کی ورنہ وقت ہاتھ سے نکل جاتا اور بغیر نماز پڑھے شہنشاہ اترا کھنڈ کی بارگاہ میں حاضری کی ہمت بھی نہیں ہو رہی تھی اس لیے پہلے نماز ادا کی یہ وہی مسجد ہے جس میں آج سے تقریبا آٹھ سال پہلے میں نے نماز ادا کی تھی مجھے یہ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا کہ سات آٹھ سال قبل جیسی اس کی حالت تھی آج بھی وہ ویسی ہی ہے اس کی تعمیر کا کام ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے اس حساب سے ایسا لگتا ہے کہ اس مجد کی تعمیر و تکیمل میں پانچ دس سال اور لگیں گے جبکہ ان خانقاہوں کے سجادگان اگر چاہیں تو ایسی ایسی دس مسجدیں ایک سانس میں بنوا سکتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی اتنی سست روی سے کام ہو رہا ہے یہ انتہائی افسوسناک ہے بہر حال اس غم و غصے کو دل میں دبا کر اور ان آرام پرست سجادگان کو دل میں ہی اپنے جلال کا شکار بنا کر نماز ظہر ادا کی نماز کے بعد کچھ دیر مسجد میں حضرت شہنشاہ اترا کھنڈ کی سوانح پڑھی تاکہ کچھ تعلیمات ذہن میں تازہ ہو جائیں اس کے بعد ہم بارگاہ صابر پاک میں دست بستہ حاضر ہونے کے لیے درگاہ کی طرف چل پڑے ____ جیسے ہی احاطے میں پہنچے غم وغصے کے ملے جلے اثرات نے ذہن و دل پر قبضہ جما لیا وہاں عورتوں ٬ نوجوان حسین و جمیل لڑکیوں ٬ کی کثرت اچھے بھلے آدمی کو بھی اصل مقصد سے ہٹا کر دوسری طرف گامزن کر سکتی ہیں میں تو پھر بھی سراپا خطا کار تھا ہر طرف سے چیخ و پکار کی آوازیں بکھرے بال ٬ گندے کپڑے پچھاڑے کھاتیں عورتوں ٬ لڑکیوں نے پوری درگاہ کے احاطے کو پراگندہ کیا ہوا تھا ٬ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز کا شدت سے احساس ہوا اور ویہ کہ ہماری مرکزی درگاہوں پر آج بھی صفائی ستھرائی کا وہ اہتمام نہیں ہے جو ہونا چاہیے ٬ جگہ جگہ کھانا پڑا ہے ٬ نالیاں گندی ہیں ٬ فرش گندہ ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ قوم مسلم صفائی کے معاملے میں اجتماعی و انفرادی طور پر آج بھی حساس نہیں ہے بہر حال ان سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے ہم اصل مرقد شریف پر حاضر ہوئے لیکن وہاں بھی چھوٹے سے دروازے سے مرد و عورت دونوں ساتھ ساتھ جا رہے تھے لہذا گردن کو جھکا کر اور آنکھوں کو بند کرکے اندر جانا مناسب سمجھا ورنہ یہ حاضری خراب ہی ہوجاتی جیسے ہی اندر حاضر ہوئے فورا امام اہل سنت کا فرمان یاد آیا کہ تربت اقدس کو چھونے ٬ چومنے سے بچا جائے اور الگ ہٹ کر ہاتھ باندھ کر ادب سے فاتحہ پڑھی جایے سو اسی پر عمل کیا ایک دو منٹ ہی ہوئے تھے احاطہ نور میں ٹھہرے ہوئے فورا ایک گرجدار آواز آئی کہ مولانا صاحب چلیے رکیے مت کھڑے مت ہوئیے باہر جا کر فاتحہ پڑھیے یہ سن کر بغیر بحث کیے بجھے دل سے ہم لوگ مرقد شریف سے باہر آگئے اور باہر آ کر تسلی کے ساتھ دعائیں کیں سبھی احباب کے سلام پہنچائے اور سبھی کو عاوں میں یاد رکھا دوران دعا ایک خیال جو اس وقت میرے ذہن میں آیا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضرت صابر پاک کی نظر جلال کی وجہ سے ہوا____ معاملہ یہ ہوا کہ جب ہم بارگاہ صابر میں حاضر تھے تو انتہائی شرمندہ ڈرے ہوئے اپنے تمام اعمال بد نگاہوں کے سامنے اور صابر پاک کی ساری بے عیب زندگی کے بارے میں سوچتے ہوئے اپنی غلطیوں کا اعتراف کر رہے تھے عین اسی لمحے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اللہ کے ایک نیک بندے کی بارگاہ میں حاضر ہے تو اس قدر خوف و شرمندگی سے لرز رہا ہے کاش تو یہی خوف پانچ وقت اپنے رب کے سامنے حاضر ہوتے وقت اپنے دل میں موجود پاتا تو تجھ سے حضرت صابر پاک بھی خوش ہوتے اور پروردگار کی عنایتوں کا تو پوچھنا ہی کیا اور پھر بزرگوں کے بہت سے واقعات ذہن میں گھومنے لگے کہ وہ جب اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے تو کس قدر خوف شرمندہ ہوتے تھے اور کس طرح اپنی عاجزی کا اعتراف کرتے تھے اس پوری واردات پر میں نے حضرت صابر پاک کا شکریہ ادا کیا کہ اس خیال نے آج مجھے اندر تک جھنجھوڑا کاش اب پانچ وقت اور اس کے علاوہ جب بھی اپنے مالک کی بارگاہ میں حاضر ہوؤں تو میری حالت بھی میرے اسلاف جیسی ہو جائے _____ یہاں اپنے لیے اہل خانہ و دوست و احباب و ملک و ملت کی سلامتی و عافیت کی دعا مانگنے کے بعد ہم احاطہ سے بالکل باہر آگئے لیکن اس بات کا احساس اپنے سراپا عصیاں ہونے کے بعد بھی رہا کہ کاش ان معزز بارگاہوں میں ان حسین پریوں کی آمدورفت نہ ہوتی ٬ میک اپ سے لدی ہوئی ان مصنوعی حسیناوں کا یہاں گزر نہ ہوتا بنت حوا اگر ان بارگاہوں کا ماحول پراگندہ نہیں کرتی تو یہاں ایک ہی حاضری میں انسان صاف ستھرا ہو کر جاتا کاش ایسا ہو جائے ____ اب وقت آگیا واپسی کا واپسی پر جب ہم احاطہ نور کے خاص دروازے سے باہر آئے تو راستے کے دونوں طرف پیشہ ور بھکاریوں کی قطاریں دیکھ کر خون میں ابال آگیا یہ بھکاری انتہائی گندے ٬ بدبو پھیلانے والے اور ان میں سے اکثر نشے کے عادی ہوتے ہیں اور یہ بھکاریوں کی فوج بھی قسمت سے مسلمانوں کے حصے میں بڑی تعداد میں آئی ہے آپ کو شہروں بستیوں چوک چوراہوں ٬ اسٹیشنوں بس اڈوں پر ہر جگہ مسلم پیشہ ور بھکاری اکثریت میں ملیں گے جو اجتماعی طور ہم سب مسلمانوں کے لیے باعث شرم و عار ہے ____ بوقت واپسی ہمارے ہمراہیوں نے اہل خانہ و بچوں کے لیے کچھ شیرینی اور دیگر اشیا خریدیں لیکن میں اس چیز سے بالکل بری رہا بہر حال وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور رات نو دس بجے تک ہمیں اپنی اقامت گاہ پہنچنا تھا ہم جلد ہی تمام کاموں سے فارغ ہو کر اپنی کار پر پہنچے اور واپسی کے لیے عازم سفر ہوئے ____ یوں تو ہمارا گزر ہریدوار سے ہوا تھا اور ہریدوار ہندوؤں کے لیے کتنا لائق احترام یہ بتانے کی حاجت نہیں جب ہم دوپہر میں یہاں سے گزرے تھے تب بھی اور جب واپسی کر رہے تھے تب بھی میں نے بغور دیکھا کہ وہاں ایک دو ندیاں بہت صاف اور شفاف پانی کی موجود ہیں اور غالبا یہ وہی ندیاں ہیں جہاں یہ لوگ نہاتے ہیں ______ بہر حال صبح چھ بجے شروع ہوا یہ سفر رات تقریبا ساڑھے دس بجے اختتام کو پہنچا اور ہم ایک بہترین و پرسکون حاضری سے لطف اندوز ہو سکے دوران واپسی بہرائچ شریف میں مسلمانوں کو گولی مارنے جیسے روح فرساں واقعے کی خبر ملی اور پھر فورا ہندووادی دہشت گردی کی پوری تصویر پردہ ذہن پر ابھر آئی ایک طرف اترا کھنڈ میں جگہ جگہ ہندوانہ تہذیب و آثار دیکھ کرویسے ہی بہت سے خیالات نے پریشان کر رکھا تھا اس خبر نے مزید جلے پر نمک کا کام کیا ____ اللہ پاک ہماری اس حاضری کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے __ آمین ثم آمین مجیب الرحمن رہبر ___