دی کشمیر فائلس اور نیاز خان کی حق گوئی

Spread the love

از قلم ـ: سید سرفراز احمد ، بھینسہ دی کشمیر فائلس اور نیاز خان کی حق گوئی

دی کشمیر فائلس اور نیاز خان کی حق گوئی

بے باک وہ ہوتے ہیں جو سچائی کا آئینہ دکھاتے ہیں جو جھوٹ کا پردہ فاش کرتے ہیں چاہے ان پر آفتوں کا سیلاب ہی کیوں نہ آپڑے لیکن یہ وہ مراحل ہوتے ہیں جسمیں حق گوئی کہنے والے کو دماغی ازیتیں اور نجی معاملات پر ضربیں لگائی جاتی ہیں

اور ہر طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے بالخصوص ایسے حق گو افراد جوسرکاری طور پر سرکار کے سایہ تلے اپنی خدمات انجام دیتے ہوں انھیں قانونی شکنجہ کاجال بچھاکر پھنسانے کی کوششیں کی جاتی ہے اور مختلیف سازشوں کے تحت انکی زبان پر تالہ بندی لگانے کاپورا زور لگادیا جاتا ہے تاکہ حکمرانوں کے خلاف کوئی آواز بلند نہ کرے

لیکن یہی حکمران یہ سب بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت میں شخصی آزادی اظہار خیال کی آزادی بھی شامل ہیں ہاں یہ سب انھیں انکے ماتحت اور انہی کے اشاروں پر زہر اگلنے والوں پر جمہوری،شخصی آزادی یاد آتی ہے اور بڑے متبرک انداز میں وہ پر امن ماحول کو زہر آلود کرنے والوں کی صفائی بھی دیتے رہتے ہیں اور ان کے دفاع کے لیے ایک ڈھیٹ دیوار بن کر ٹھر بھی جاتے ہیں

لیکن یہی جب کوئی عام آدمی بالخصوص کوئی مسلمان حق گوئی کی بات کرتا ہے تو ناحق قانون کا استعمال کرتے ہوئے اسے قانونی شکنجہ میں گھسیٹا جاتا ہے ـ11/مارچ کو ریلیز ہونے والی دی کشمیر فائلس فلم منظر عام پر آتے ہی اس فلم کی تائید اور مخالفت میں ہر کس و ناکس اپنا رد عمل دکھا رہا ہے کوئی اسکے گن گارہا ہے تو کوئی اس کو ٹھکرا رہا ہے

لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ فلم بھاجپا کا سیاسی ایجنڈہ ہے جو آدھا سچ اور آدھا جھوٹ بتاکر عوام سے ہم دردی حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ عوام کو یہ پتہ چلے کہ بھاجپا کشمیری پنڈتوں کیلئے فلم بنائی ہے

لیکن عوام کو یہ نہیں بھولنا ہوگا کہ یہ صرف فلم ہے بلکہ حقیقت اسکے برعکس ہے اور صرف فلم بتاکر عوام کے دلوں کو فتح نہیں کیا جاسکتا بلکہ اگر بھاجپا کو کشمیری پنڈتوں سے اتنی ہی ہم دردی اور محبت ہوتو وہ میدانی کام کریں ان کی معاشی حالت کو مستحکم کریں

لیکن کسی ایک ایسی فلم بنادینے سے کسی کی خط غربت تھوڑا ہی بہتر بن سکتی اور نہ فلم کے زریعہ کسی کے مسائل کو حل کیا جاسکتا یہ تو محض ایک سیاسی حربہ ہے جس سے رائے دہندوں کے ووٹ کو حاصل کیا جاسکتا ہے

اسی مسلئہ کے دوران مدھیہ پردیش کے آئی اے ایس عہدیدار نیاز خان جو سال 2015 کے بیاچ کے آئی اے ایس عہدیدار ہیں جو ابھی مدھیہ پردیش میں ایم پی پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی سکریٹری ہیں جو ریاست چھتیس گڑھ سے تعلق رکھتے ہیں

انہوں نے لگاتار ٹوئٹ کرتے ہوئے دی کشمیر فائلس فلم بنانے والوں کو زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بھارت کے کئی ایک ریاستوں میں مسلمانوں کے کیئے گئے قتل عام پر بھی فلم بنائیں

اور مزید آگے کہا کہ مسلمان اس ملک کے شہری ہیں کوئی کیڑے مکوڑے نہیں انہوں نے ایک اور ٹوئٹ کے زریعہ کہا کہ وہ مسلمانوں کے قتل عام پر ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کررہے ہیں تاکہ دی کشمیر فائلس جیسی فلم کسی کے زریعہ تیار کی جاسکے تاکہ بھارتی مسلمانوں کے درد اور تکلیف کو ملک کے شہریوں کے سامنے لایا جاسکے

مزید انہوں ایک اور ٹوئٹ کرتے ہوئے دی کشمیر فائلس کے ڈائریکٹر سے مخاطب ہوکر کہا کہ وہ اس فلم سے ہونے والی کمائی کو کشمیری پنڈتوں کے بچوں کی تعلیم اور کشمیر میں ان کے لیے گھروں کی تعمیر میں خرچ کریں

نیاز خان کے ٹوئٹ وائرل ہونے کے بعد فلم دی کشمیر فائلس کے ڈائریکٹر وویک اگنی ہوتری نے نیاز خان سے خیالات کے تبادلوں کے لیے ملاقات کا وقت بھی مانگا اگر ہم نیاز خان کے کیے گئے ٹوئٹس پر نظر ثانی کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آخر نیاز خان نے کیا غلط کہا؟

وہ تو جو ملک میں ہوا ہے یا ہورہا ہے وہی کہہ رہے ہیں جسمیں پوری سچائی ہے کیا گجرات کے فسادات میں مسلمانوں کا قتل عام نہیں کیا گیا؟کیا یوپی کے مظفر نگر میں مسلمانوں کی نسل کشی نہیں کی گئی؟

اسی طرح 2020میں دہلی فسادات میں کیا مسلمانوں کی جانوں کو املاک کو نقصان نہیں پہنچایا گیا ؟ان سب کے پیچھے کسکا ہاتھ تھا؟

افسوس کے جو فسادات میں ملوث تھے وہی آج صاحب اقتدار ہیں تانا شاہی کی مسند پر بیٹھے ہیں لیکن جب ایک مسلمان سچائی کی حق گوئی کی بات کررہا ہوتو اس پر اس پر قانونی شکنجہ کسنے کی باتیں کی جاتی ہے

کیوں کہ وہ مسلمان ہے حالاں کہ نیاز خان نے دھرم سنسد میں اگلے گیے زہریلے بیانوں کی طرح کسی کی نسل کشی کی بات نہیں کی اور نہ ہی کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچایا لیکن مدھیہ پر دیش حکومت نے انکے ٹوئٹس دیکھنے کے بعد انھیں وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا مدھیہ پردیش کے وزیر این مشرا نے کہا کہ یہ ایک سنگین مسلئہ ہے وہ سرکاری عہدے کی حدوں کو پار کررہے ہیں

لہذا ان سے جواب طلب کرتےہوئے کاروائی کرنے کی سفارش کی سوشیل میڈیا پر بھی صارفین کی جانب سےنیاز خان کو نشانہ بنایا جارہا ہے نیاز خان کی حق گوئی صرف اسی مسلئہ پر نہیں بلکہ سابق میں بھی انہوں نے لنچنگ کے بڑھتے واقعات پر بھی آواز کو بلند کیا تھا اور کہا تھا کہ میرا سر نام خان کہیں میری لنچنگ نہ کروادے نیاز خان کی حق گوئی و بے باکی کا انداز ہی نرالا ہے

لیکن آج انھیں کمزور کرنے کے لیے ڈرایا جارہا ہےلیکن ان سیاسی ٹھیکداروں پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی جو اپنے آپ کو عوام کا قائد کا بتلاتے ہیں جو ترنگے کی جگہ بھگوا پرچم لہرانے کی بات کرتے ہیں جو زعفرانی تعلیمات کو اسکولی نصاب میں شامل کرنے کی بات کرتے ہیں نہ اس آشش مشرا پر کوئی کاروائی ہوئی جو دہلی میں بھڑکاؤ بھاشن دیکر نوجوانوں کواکسایا اورمسلمانوں کو گولی مارنے کی بات کی

لیکن نہ مسلمان کبھی ایسا اکساتا ہے نہ کسی کے مذہب سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہے بس مسلمان اگر کرتا ہے تو حق گوئی کی بات کرتا ہے لیکن یہ بھی کسی کو ہضم نہیں ہو پارہی ہے حق گوئی مسلمانوں کاہمیشہ سے شیوہ رہا ہے وہ حق بات کہنے سے کبھی اپنے قدم پیچھے نہیں لیتا چاہے اسکے روبروکتنی ہی آہنی دیواریں کھڑی کردی جائیں ـجو فلم اب تک150کروڑ سے زیادہ آمدنی حاصل کرلی ہو بھلا اس فلم سے کشمیری پنڈتوں کے مسائل حل ہوں گے؟

اگر بھاجپا کو کشمیری پنڈتوں سے ہمدردی ہوتی تو وہ پچھلے سات سالوں میں ان کیلئے کچھ کرتی لیکن آج تک بھی بھاجپا نے کچھ نہیں کیا جو بھاجپا ہندوطبقہ کا درد نہیں بانٹ سکتی اس سے بھلا مسلمانوں سے کیا ہم دردی ہوسکتی

دی کشمیر فائلس فلم کی ڈائریکٹر سمیت پوری ٹیم نے یوگی اور مودی سے ملاقات بھی کی مودی نے خود اس فلم کی تائید کی اور عوام کو دیکھنے کا مشورہ بھی دیا جس سے صاف عیاں ہورہا ہے کہ یہ فلم بھاجپا کا نیا سیاسی حربہ ہے

جو ملک میں سوائے نفرت اور فرقہ پرستی کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتی جو صرف ملک کو باٹنے کا کام انجام دے رہے ہیں  اگر یہی کام کوئی ڈائیریکٹر گجرات فائلس کے نام سے فلم بنادیتا تووہ آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا اور اس پر دیش سے غداری کا مقدمہ چلایا جاتا

لیکن ان حالات میں بھی مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر حق گوئی کا مظاہرہ بے باکی کے ساتھ کریں جس طرح سے نیاز خان نے جس جرات کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل ستائش ہے کیونکہ حق اور سچ کی جیت دیر پا صحیح مگر ہوکر رہے گی

از قلم : سید سرفراز احمد، بھینسہ