شام پر جنگ جوؤں کا قبضہ، اب آگے کیا
شام پر جنگ جوؤں کا قبضہ، اب آگے کیا ؟
تحریر محمد زاہد علی مرکزی
چیئرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
جنگ کی ابتدا سے جو ہم کہہ رہے تھے وہی ہوا اور شام بشار الاسد کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے، بعض خبروں کے مطابق بشار الاسد ملک چھوڑتے ہوے یہ دنیائے ہی چھوڑ گئے
میڈیا رپورٹس کے مطابق بشار الاسد کا جہاز روس کی طرف جاتے ہوئے کریش ہو گیا ہے ابھی کامل تصدیق نہیں ہوئی، لیکن اسد شام چھوڑ گئے ہیں یہ واضح ہے ۔ایک عراقی اہلکار اور ایک علاقائی سفارت کار کے مطابق ایران نے شام سے اپنے کچھ فوجی کمانڈر واپس بلانا شروع کر دیے ہیں۔
دوسری طرف مسلح دھڑوں نے شمال سے دارالحکومت دمشق کی طرف اپنی تیز رفتار پیش قدمی جاری رکھی ہے۔ جمعرات کو حمات شہر پر مسلح دھڑوں کے حملے کے بعد ایران نے جمعے کو پاسداران انقلاب کے سینیئر کمانڈروں کو نکالنا شروع کر دیا تھا۔خطے میں یہ ایران کی کھلی ہار ہے، ایران اسرائیل کو لے کر اس قدر مصروف ہوا کہ اس نے شام کے متعلق زیادہ غور نہیں کیا۔
بھارت سری لنکا میں امریکا کو نہیں آنے دیتا کیوں کہ پھر امریکا انڈیا کی جاسوسی اچھے طریقے سے کر سکے گا، اسی طرح روس یوکرین میں امریکا کی آمد برداشت نہیں کر سکا اور پوری طاقت سے یوکرین کے خلاف کھڑا ہے، اگر روس ایسا نہ کرے تو امریکا روس کی دہلیز پر کھڑا ہوگا
جب چاہے گا جیسے چاہے گا حملہ کرے گا، کسی دوسرے ملک سے مدد مانگنے کی ضرورت نہ پڑے گی، کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ افغانستان پر امریکی حملے کے لیے امریکا کو پاکستان کو ساتھ لینا پڑا تھا اور اس کے بدلے پاکستان نے بہت کچھ حاصل کیا تھا، یہاں یہ صورت ہی ختم ہوگئی ۔
یہاں ایران نے پورا ملک ہی امریکا کے سپرد کردیا ہے، سیاسی طور پر ایران کو ہر قیمت پر شام کو بچانا چاہیے تھا، اب ایران زمینی اور فضائی دونوں طرح کے حملے کے لیے تیار رہے، ایران کو اگر خطے میں مضبوط ہونا تھا تو اس کے لیے شام ضروری تھا، شام پر قبضہ سے یہ بات سمجھ لیجیے کہ ایران کی سرحد امریکا اور اسرائیل دونوں سے مل گئی ہے،کیوں کہ امریکا اور اسرائیل دونوں اب اپنے ٹھکانے اور کنٹرول شام میں بنائیں گے یعنی لبنان اور ایران کو چو طرفہ گھیر لیا گیا ہے ۔
ایران کو صرف جوہری ہتھیار بچا سکتے ہیںفی الحال ایران الگ تھلگ پڑ گیا ہے لبنان اور شام جا چکے ہیں یعنی ایران کے دونوں بازو کٹے چکے ہیں، یمن بہت دور ہے اس کا ایران کے لیے ہونا نہ ہونا دونوں برابر ہے
اب امریکا یا اسرائیل ایران کو جب چاہیں گے گھیر لیں گے۔ اگر ایران کو بچنا ہے تو پابندیوں کے خدشے کے باوجود اسے جوہری ہتھیاروں کی ٹیسٹنگ کرنا ہی پڑے گی کیوں کہ یہی وہ ہتھیار ہیں جنھوں نے ہمارے پڑوسی اور اتر کوریا کو بچا رکھا ہے ورنہ ان پر نہ جانے کب کا قبضہ ہو چکا ہوتا ۔
اب گریٹر اسرائیل کا خواب پورا ہونے کو ہے اور سب سے پہلے اس کا نشانہ مصر ہوگا، مصر کی امریکا اور اسرائیل سے ساری وفاداری کا بدلہ دنیا چند سالوں میں مصر پر اسرائیلی قبضے کے طور پر دیکھے گی، یہ بہت بڑا دھچکا ہے عالم اسلام کو اس سے پورے مشرق وسطیٰ کی صورت بدلنے والی ہے ۔
کون ہے جولانی اب بات کرتے ہیں مسلح جنگ جوؤں کے سربراہ جولانی کی جنھوں نے ایک ہفتہ قبل منظر عام پر آکر شامی حکومت کو اکھاڑ پھینکا ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ابو جولانی 1975 اور 1979 کے درمیان پیدا ہوئے جبکہ انٹرپول کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش 1975 ہے۔
امریکی ٹی وی نیٹ ورک پی بی ایس کو دیے جانے والے ایک انٹرویو کے مطابق ان کا اصلی نام احمد حسین ہے اور ان کو ابوجولانی گولان کی پہاڑیوں کی وجہ سے کہا جاتا ہے جہاں سے ان کے خاندان کا تاریخی تعلق ہے۔ اسی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ 1982 میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد پیٹرولیئم انجینیئر کے طور پر کام کرتے تھے۔
1989 میں ان کے اہل خانہ شام واپس لوٹے اور اس کے بعد ان کی پرورش دمشق کے قریب ہوئی۔ چند خبروں کے مطابق انھوں نے دمشق میں طب کی تعلیم حاصل کی لیکن تیسرے سال کے دوران عراق میں القاعدہ میں اس وقت شمولیت اختیار کر لی جب امریکہ نے 2003 میں حملہ کیا۔
اس تنظیم نے مقامی سطح کے مسائل کو ترجیح دی اور 2021 میں الجولانی نے امریکی ادارے پی بی ایس کو انٹرویو میں کہا کہ انھوں نے القاعدہ کے عالمی جہاد کے نظریے کو ترک کر دیا ہے اور اب ان کا مقصد شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ اور ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا ہے۔ اس انٹرویو میں الجولانی نے کہا کہ ’جب ہم القاعدہ میں تھے
تب بھی یورپی یا امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کے خلاف تھے۔ ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا۔‘ انھوں نے کہا کہ ہیئت تحریر الشام کو دہشت گرد گروہ کا درجہ دینا ’غیر منصفانہ‘ اور ’سیاسی‘ فیصلہ تھا۔ —- جو لانی امریکا امپورٹڈ ہیں اتنی جان کاری کے بعد آپ کو یہ آدمی سمجھ آگیا ہوگا کہ کس قسم کا ہے
اس کا کہنا ہے کہ ہم القاعدہ میں رہتے ہوے بھی امریکی اور یورپی اہداف کو نشانہ بنانے کے خلاف تھے، جو بندہ 2011 سے مختلف تنظیموں کا سربراہ یا رکن رہا ہو اور امریکا نے اس پر 10 ملین ڈالر کا انعام بھی رکھا ہو، پھر وہ ہوا میں بندوق لہراتا کھلی جیپ میں گھوم رہا ہو اور امریکی ڈرون اور جہاز اس کے قریب ایرانی جنگ جوؤں اور شامی فوج کو نشانہ بنا رہے ہوں پھر امریکا کا مطلوب بچ بھی جائے کتنی احمقانہ بات ہے، اب امریکا کہہ رہا ہے کہ ہمیں شام سے مطلب نہیں وہ ان کا آپسی معاملہ کیا یہ مضحکہ خیز بات نہیں؟
دنیا بے وقوف ہے جو تمہاری چال نہ سمجھے گی؟ حقیقت یہی ہے کہ امریکا، ترکی، اسرائیل، متحدہ عرب امارات وغیرہ نے ایران کی خطے میں بڑھتی طاقت کو دیکھتے ہوئے مل کر یہ حملہ ترتیب دیا ہے اور اس کو مکمل ترکی نے کیا ہے، بہت سے لوگ اسے سنی اور شیعہ سمجھ کر خوش ہو رہے ہیں لیکن چند ماہ میں اس کی حقیقت دنیا دیکھے گی ۔اب جب تک یہ قبضہ دھاری گروہ امریکا کی مرضی کرے گا بچا رہے گا جس دن داعش کی طرح کچھ منہ کھولا تو اسی دن ختم کر دیا جائے گا
کوئی بڑی بات نہیں کہ قبضہ مکمل ہونے کے بعد امریکا اپنی اسی انعام اور دہشت گرد والی بات کو بنیاد بنا کر قتل کر دے اور کوئی دوسرا آدمی گدی پر بٹھا دے، ویسے اب تک امریکی بھروسا اس جولانی نے نہیں توڑا ہے اسی کا پھل اسے شام کی حکومت کے طور پر ملنا ہے لیکن ہر آدمی اپنا فائدہ دیکھتا ہے اگر امریکا اسرائیل نے کوئی اور منصوبہ یا آدمی تیار کر رکھا ہے تو جولانی کی زندگی زیادہ لمبی نہیں رہے گی