چبالے دین کی خاطر کلیجہ ہندۂ دنیا
چبالے دین کی خاطر کلیجہ ہندۂ دنیا
مشتاق نوری
اہل سنت بریلوی جماعت کا ماننا ہے کہ نعت، رسولﷺ کے ساتھ اور منقبت خاصان خدا کے ساتھ غلامانہ عقیدت و قلبی احترام کے اظہار کا مقدس ذریعہ ہے۔واقعی نعت اگر عقیدت و احترام کے ساتھ حد شرع و مزاج دین کو ملحوظ رکھ کر با ادب پڑھی جاۓ تو کلام اللہ کی تلاوت اور حدیث نبوی کی قرات کے بعد اسی نعت گوئی کا مبارک درجہ بنتا ہے پھر کاملین و واصلین بارگاہ کی منقبت کا۔
یہ صنف سخن جس قدر مقدس ہے جتنے ادب و احترام کی متقاضی ہے مذہبی سماج کے جلسہ مافیا مولویوں نے جہلا کے ساتھ مل کر اس کا اتنا ہی مذاق بنایا ہے۔
میری دانست کے مطابق برسر منبر نعت کے ساتھ کھلواڑ کی یہ بے رحم وبا پاکستان سے امپورٹ ہوئی ہے۔تعجب تو یہ بھی ہے کہ بعض محافل میں سنجیدہ و اہل علم علما و صوفیا کا طبقہ براجمان ہوتا ہے مگر کوئی ان بے ہنگم و ہڑبونگ رویے کی نہ نوٹس لیتا ہے نہ منع کرنے کی عالمانہ فراست دکھاتا ہے۔
قرآن کے استماع کے لیے رب نے انصات و سکوت کی شرط رکھی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ کوئی قرآن پڑھے اور درمیان میں سامعین آوازیں بھی بلند کریں۔فقہ کا مسئلہ تو یہاں تک کہتا ہے قارئ قرآن جب درمیان تلاوت سانس لینے کے لیے رکے تو اس وقت بھی سبحان اللہ ماشااللہ نہ کہا جاۓ کیوں کہ وہ وقفۂ تنفس بھی تلاوت میں شامل ہے۔
آغاز اسلام میں جب پیغمبر اسلام قرآن پڑھ کر سناتے تو مشرکین اس خیال سے درمیان میں شور مچانے لگتے کہ کہیں اس کا اثر ہمارے دل پر نہ ہو جاۓ۔اس رویے پر بریک لگانے کے لیے رب نے واذا قرئ القران فاستمعوا لہ کے ساتھ “وانصتوا” کا بھی اضافہ فرمایا۔جب کہ استماع بغور سننے کو ہی کہتے ہیں مگر درمیانی شور و غل پر قدغن کے لیے انصات فرمایا یعنی بغور سنو اور خاموش رہو۔
کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جب سماع قرآن میں استماع و انصات کی وجوبی قید ہے تو اہل عشق و وفا کو نعت میں بھی اس روایت کی پیروی کرنی چاہیے؟ہمارا تو ماننا ہے کہ سارا قرآن ہی نعت ہے۔پھر یہاں کس نص سے سارا اصول طاق پہ رکھ دیا جاتا ہے؟
آج کل منبر کو گویوں کی سیر گاہ مانا جاتا ہے۔جہاں یہ جاہل من چاپے طریقے سے سامعین سے کھیلتے ہیں۔انجواے کرتے ہیں۔ا
نٹرٹنمنٹ کراتے ہیں۔عجب ہے کہ دین و شرع سے نابلد لونڈے نعت و منقبت سنانے کے نام پر سامعین کے جذبات و احساسات کو کیش کرنے کے لیے ہر طرح کے بے ادبانہ و پھوہڑ پینترے ازماتے ہیں۔محفل کا ماحول بالکل تھیئٹر جیسا بنا دیتے ہیں۔ہ
مارے سنی سامعین بھی ایسے عیاش مزاج کے ہیں کہ بس خدا کی پناہ! جس طرح سپیرے کی بین بجتے ہی ناگن کے بدن پر درد شروع ہوجاتا ہے وہ ناچنے لگتی ہے ٹھیک اسی طرح یہ گویے نعتیہ شعر کا راگ کچھ ایسا الاپتے ہیں سارے سامعین(جن کی اکثریت نماز روزے سے کوسوں دور ہے)تھرکنے مچلنے لگتے ہیں۔ہر مصرعے ہر شعر پڑھتے ہوۓ گویا بار بار یہ کہتا بھی ہے کہ اچھل کے کہ دو سبحان اللہ۔ذرا مچل کر کہ دو یا رسول اللہ۔ ذرا لہک کر بولو سبحان اللہ وغیرہ۔
آمدم برسر مطلب
ابھی سوشل میڈیا پر اسد اقبال کی ایک چھوٹی کلپ دیکھی جس میں ایک شعر پڑھا ہے
چبا لے دین کی خاطر کلیجہ ہندۂ دنیا ہم اپنے دل میں جوش حمزہ لے کے بیٹھے ہیں
پہلے ہم یہ بتا دیں کہ اس طرح کی نظم گوئی کو شعری دنیا میں صنعت تلمیح کہا جاتا ہے۔تلمیح کا مطلب ہے وہ مصرع یا شعر جس میں کسی خاص واقعہ یا بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہو یا جس میں واقعے کو منظوم پیراۓ میں پیش کیا گیا ہو۔یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ کتب تاریخ و روایات میں ان کا نام صرف ہند ہے۔ہندہ نہیں۔پاک و ہند کے خطبا شعرا نے ہندہ بنادیا ہے۔ویسے ہمارے دارالافتاؤں میں فتاوی کے باب طلاق میں ملک ہند کی اس بے چاری ہندہ پر شدید ظلم کیا جاتا ہے۔جہاں دیکھئے زید و بکر کے نشانے پر یہی رہتی ہے۔ہر بار اسی کی طلاق ہوتی ہے۔(بطور تفریح طبع)
عروض کی صنائع کو برتنے کے لیے نعت گو شاعر کو نو سیکھئے پن نہیں بلکہ قادر الکلامی کے ساتھ ساتھ احکام شریعت کا علم ہونا،عقائد کا شعور رکھنا بہت ناگزیر ہے۔
برا ہو دین فروشی کر کے دنیا کمانی والی فکر کا کہ جب سے نعت کے اسٹیج کو کمرشیل بنایا گیا ہے نعت پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد، شریعت کا علم تو کجا اردو پڑھنے کا علم بھی نہیں رکھتی، ادھر آ دھمکی ہے۔پ
ھر اس جلسہ جلوس کو اتنا پروموشن ملا کہ جاہل گنوار ان پڑھ فاسق و فاجر قسم کے لونڈے جن کی شب و روز فلمی گانے سننے میں گزرتے تھے انہیں یہ کمائی کی شارٹ کٹ لائن بھا گئی۔اور اپنے علمی ننگے پن کے باوجود اس دنگل میں کود پڑے۔کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ دو سو تین سو روپے میں من چاہی نعت و منقبت لکھ کر دینے والے کراۓ کے شعرا تیار بیٹھے ہیں۔
یہ بات جگ ظاہر ہے کہ حضرت حمزہ نے جب غزوۂ بدر میں عتبہ بن ربیعہ کو قتل کیا تو انتقام اور بدلے کی آگ میں جھلس رہی بیٹی نے غزوۂ احد میں حضرت حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا۔ان کی نعش کو مثلہ کیا تھا۔
خدا کی توفیق ہوئی فتح مکہ کے دن ہی حضرت ہند ایمان لے آئیں۔ایمان لانے کا مطلب کہ وہ صحابیہ بن گئیں۔وہ اب کوئی عام گنہگار عورت نہیں بلکہ وہ صحابیت کے اعلی درجے پر فائز ہو کر اسلام کی بے گناہ مقدس خاتون بن گئیں۔
دین کا یہ عام سا قانون ہے کہ اگر کوئی کافر اپنی پچھلی زندگی میں ہزاروں سنگین قتل کئے ہوں مگر احساس جرم ہوتے ہی اگر وہ ایمان لے آۓ تو مذہب اپنی کریمانہ پالیسی اپناتے ہوۓ اسے ناصرف معاف کرتا ہے بلکہ سابقہ گناہوں سے بری مانتا ہے۔
اب ایسے میں ایک صحابیہ کا کیس اور بھی رحم و کرم کا متقاضی بن جاتا ہے۔شرع کا کہنا ہے کہ وہ صحابیہ ہے صحابیہ کی پچھلی زندگی کریدنا موقف اہل سنت کے خلاف عمل ہے۔ایمان لانے کے بعد ان کے تمام تر گناہ خطا معاف۔وہ اب ایسی ہو گئں جیسے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔
یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایسے مضامین کے لیے “ہندۂ دنیا” جیسی ترکیب کی وضع کے پیچھے کیا مقصد ہے؟ کیا یہ اہل سنت کی ایجاد ہے؟ کیا ایسی توہین آمیز ترکیب کوئی سنی عالم یا ادیب کا وضع کردہ ہے؟
میں نے اپنے محدود مطالعہ کے باوجود اب تک اپنے مسلک کی کسی بھی لٹریچر میں نہیں پڑھا۔آپ کو بتا دیں کہ حضرت ہند اموی حلقے سے ہیں۔حضرت معاویہ کی ماں ہیں۔حضرت ابو سفیان کی زوجہ ہیں۔اب یہ بتانا کوئی ضروری نہیں کہ اہل رفض نے ایسی ترکیب گڑھی جسے غیر شعوری طور پر اہل سنت کے خطبا شعرا نے قبول کر لیا۔
شاعری کے لیے ضروری ہے کہ احکام شرع کی پاسداری ملحوظ رہے۔مذکورہ شعر میں ایسا مضمون باندھنا اولا دو سبب سے حضرت ہند جیسی صحابیہ کی توہین و تنکیر لازم آتی ہے۔مصرعے پر غور کریں
چبالے دین کی خاطر کلیجہ ہندۂ دنیا (ا)
ہندۂ دنیا سے کون ظالم جماعت مراد ہے؟ ہنود و یہود؟ قادیانی؟مخالف مسلک والے؟ یا پھر مشرکین؟ پا پھر کوئی قاتل معشوقہ؟ ان میں سے کسی کے لیے بھی ہندۂ دنیا کا تشبیہ و استعارہ لانا خلاف شرع جرأت ہے۔ (ب)
اسلام لانے کے بعد خدا رخی زندگی کے لیے وقف ہو جانے والی صحابیہ کے نام کو اپنے مفروضہ یا مزعومہ قاتل مثلہ گر کو “ہندۂ دنیا” سے مخاطب کرنا، ناصرف بدتمیزی ہے بلکہ شعوری یا غیر شعوری طور پر شاعر نے توہین و تنقیص صحابیت جیسے جرم کی جسارت کی ہے۔
حد تو تب ہو جاتی ہے جب ایسے اخلاقیات و اسلامیات سے گرے ہوۓ اشعار پڑھے جاتے ہیں اور منبر پہ بیٹھے نام نہاد مفتیان اچھل کود کر داد شجاعت پیش کرتے ہیں۔ا
سی مذکورہ شعر میں مولوی حماد مراد آبادی صاحب(جن کا مجھے نام لکھنا بھی گوارا نہ تھا)جو مروجہ مشہور خطیب ہیں اچھل کر شاعر کو گلے لگا رہے ہیں۔اب اس سے ان کے علمی مبلغ کا اندازہ لگانا بعید نہیں۔جو ایک کھلے شعر کی سمجھ سے بھی گئے گزرے نکلے اسے مفتی بولنا حرام اس کے فہم دین پر جنازہ پڑھ لینا چاہیے۔اسٹیج والوں کو بھی بیٹھے بٹھاۓ
اتنا ایڈوانٹیج مل جاتا ہے ہم جیسے کو کوئی مولانا کہنے کو تیار نہیں۔ابھی نیپال کے ایک خطیب نے شیر نیپال کو عالم غیب کہ دیا۔حیرت کہ یہ کوئی جوش خطابت میں نہیں کہا گیا تھا بلکہ جہالت میں کہا گیا تھا۔مگر اسٹیج سے منسلک حلقہ ایسے سطحی علم رکھنے والوں کو علامہ، مفتی، ازہری، خلیفۂ فلاں اور نہ جانے کیا کیا لکھتا بولتا ہے۔
اسٹیجوں پر ہو رہی دھما چوکری سے نعت کا تقدس ختم ہو کر رہ گیا ہے۔سماع و استماع نعت میں شرعی اعتدال کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔مجمع کو فیور کرنے کے لیے افراط و تفریط بھرے جملے اچھالے جاتے ہیں۔ا
ہل علم و متین علما اگر اسی طرح خاموش تماشائی بنے رہیں گے تو بہت دور جانے کی ضرورت کیا ہے ذرا انتظار کیجیے یہ گویا سماج دین سے غافل بھولے بھالے سامعین سے پورا بھانگرا ہی کروا لیں گے۔
مشتاق نوری
One thought on “چبالے دین کی خاطر کلیجہ ہندۂ دنیا”