امام اعظم ابوحنیفہ کا علم حدیث میں مقام و مرتبہ

Spread the love

امام اعظم ابوحنیفہ کا علم حدیث میں مقام و مرتبہ یومِ وصال:2 شعبان المعظم

حافظ افتخار احمد قادری

حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله عنہ کا نام نعمان والد کا نام ثابت کنیت ابوحنیفہ اور القاب امام اعظم سراج الامہ ہیں۔

حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله عنہ نے مرکز علم شہر کوفہ میں آنکھیں کھولیں۔ اس شہر کی علمی فضا کو معلم امت حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ اور مدینۃ العلم حضرت علی کرم الله وجہہ الکریم اور دیگر صحابہ و تابعین کی سرپرستی کا شرف حاصل تھا۔

آپ نے آئمہ حدیث و فقہ سے خوب خوب استفادہ حاصل کیا۔آپ خود بیان فرماتے ہیں: میں حضرت عمر،حضرت علی،حضرت عبدالله بن مسعود حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما اور ان کے اصحاب و تلامذہ کی فقہ حاصل کر چکا ہوں۔(حیات امام اعظم ابوحنیفہ:۶۷).

علامہ ابن خلدون رقمطراز میں: “امام اعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان سے صرف ۱۷/ احادیث مروی ہیں یا اس کے قریب قریب یہ بعض حاسدوں کی خام خیالی ہے کہ جس امام سے روایت کم مروی ہوں وہ حدیث نہیں قلیل النضاعت ہوتا ہے حالاں کہ ایسا لغو تخیل کیا آئمہ کے بارے میں سخت گستاخی و بے عقلی نہیں ہے۔؟ (سیرت امام اعظم ابوحنیفہ:۲۳۶)

حقیقت یہ ہے کہ حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله عنہ نے چار ہزار مشائخ آئمہ تابعین سے حدیث اخذ کی ہیں۔آپ وہ پہلے امام تھے جنہوں نے ادلہ شرعیہ سے مخصوص اصول و ضوابط کے تحت استنباط و اجتہاد کا کام کیا اور خلاصہ یہ کہ یہ کام بغیر فن حدیث کی مہارت ہو نہیں سکتا۔

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله عنہ کی حدیث فانی کا اعتراف کے بارے میں یحییٰ بن معین فرماتے ہیں “امام اعظم ابوحنیفہ حدیث میں شقہ تھے ان میں اصول جرح و تعدیل کی رُو سے کوئی عیب نہیں تھا۔” ان اقوال کی روشنی میں حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله عنہ پر قلت حدیث کا طعن بے بنیاد ہوکر رہ جاتا ہے۔

حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله عنہ جب دنیا سے کنارہ کش ہوکر عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئے تو ایک رات خواب دیکھا۔ پریشان ہوکر اُٹھے تو امام بن سیرین سے تعبیر معلوم کی۔

انہوں نے کہا کہ بہت مبارک خواب ہے اور آپ کو سنت نبوی کے پرکھنے میں وہ مرتبہ عطا کیا جائے گا کہ احادیث صحیحہ کو موضوع حدیث سے جدا کرنے کی شناخت ہو جائے گی۔

اس کے بعد حضور اقدس ﷺ کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا اے ابوحنیفہ! الله پاک نے تیری تخلیق میری سنت کے اظہار کے لئے فرمائی ہے۔لہٰذا! دنیا سے کنارہ کش مت ہو۔ (تذکرہ الاولیاء:۱۲۲)

یہ خواب حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله عنہ کی علم حدیث میں بلند مرتبہ کا ٹھوس ثبوت ہے۔ علم حدیث میں حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله عنہ کا سب سے اہم کارنامہ قبول روایت اور وہ معیار و اصول ہیں جنہیں آپ نے وضع کیا جن سے بعد کے علمائے حدیث نے فائیدہ اٹھایا۔ (سیرت امام اعظم:۲۴۰)

حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله عنہ صاحب حدیث کے ظاہری الفاظ اور ان کی روایات پر زور نہیں دیتے تھے بلکہ وہ احادیث کے مفہوم اور سائل فقیہہ کی تخریج و انسباط پر زور دیتے تھے۔

امام ابویوسف رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: “میرے نزدیک حدیث کی تفسیر اور حدیث میں فقہی نکتوں کے مقامات کا جاننے والا امام اعظم سے بڑھ کر کوئی نہیں۔مزید فرماتے ہیں:مجھ سے زیادہ امام صاحب کے متبع سفیان ثوری ہیں۔سفیان ثوری نے ایک دن ابن مبارک سے حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله عنہ کی تعریف بیان کی فرمایا کہ وہ ایسے علم پر سوار ہوتے ہیں جو برچھی کی انی سے زیادہ تیز ہے۔

خدا کی قسم وہ غایت درجہ علم کو لینے والے محارم سے بہت رکھنے والے،اپنے شہر والوں کی بہت اتباع کرنے والے ہیں۔صحیح حدیث کے سوا دوسری قسم کی حدیث لینا مبتول حلال نہ جانتے۔(سیرت امام اعظم:۲۴۳)

ان تمام اقوال سے حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله عنہ کا حدیث میں مقام معلوم ہوتا ہے۔آپ علم حدیث کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے۔ آپ کے حلقہ درس میں کثیر تعداد میں علم حدیث سیکھنے والے موجود ہوتے۔

علامہ ابن حجر عسقلانی نے ذکر کیا ہے کہ حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله عنہ سے حدیث کا سماع کرنے والے مشہور حضرات میں حماد بن لغمان اور ابراہیم بن طہمان،حمزہ بن حبیب،قاضی ابو یوسف،اسد بن عمرو ابو نعیم،ابو عاصم شامل تھے۔

وکیع بن جراح کو حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله عنہ کی سب حدیثیں یاد تھیں۔ امام مکی بن ابراہیم آپ کے شاگرد تھے اور امام بخاری کے استاد تھے۔ حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله عنہ کوفہ جیسے عظیم شہر میں جو فقہ و حدیث کا بڑا مرکز تھا پرورش پائی۔ آپ کا حدیث میں مقام بہت بلند تھا۔

بڑے بڑے اساتذہ سے آپ نے علم حدیث حاصل کیا۔ ان کے علاؤہ جلیل القدر تابعین سے بھی استفادہ حاصل کیا۔بعض اہل علم نے آپ کے مشائخ کی تعداد چار ہزار بتائی ہے ان میں اکثریت محدثین کی ہے۔آپ کے تلامذہ کی بڑی تعداد محدثین کی ہے۔

حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله عنہ پر طعن کرنے والے کہتے ہیں کہ آپ حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس و رائے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اس مقام میں کوئی آپ کے برابر نہیں۔

سفیان فرماتے ہیں:میں نے حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله عنہ سے فرماتے سنا کہ میں قرآن پاک سے حکم کرتا ہوں تو جو اس میں نہیں پاتا اس کا حکم رسول الله ﷺ کی حدیث سے لیتا ہوں اور جو قرآن اور حدیث میں نہیں پاتا اس میں صحابہ کرام کے اقوال سے حکم کرتا ہوں اور جس صحابی کے قول سے چاہتا ہوں سند پکڑتا ہوں اور جس کا قول چاہتا ہوں نہیں لیتا ہوں اور صحابہ کرام کے قول سے باہر نہیں جاتا لیکن جب حکم ابراہیم اور شعبی اور ابن سیرین اور حسن اور عطا اور سعید بن مسیب وغیرہ تک پہنچتا ہے تو ان لوگوں نے اجتہاد کیا میں بھی اجتہاد کرتا ہوں جیسے انہوں نے اجتہاد کیا۔ (سیرت امام اعظم:۲۵۰)

آپ کی شخصیت علمی دینی اور روحانی شخصیت ہے۔سفیان فرماتے ہیں: “علم میں لوگ حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله عنہ سے حسد کرتے ہیں

۔” امام اعظم میں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں جو ایک بلند پایہ عالم دین میں ہونی چاہئیں۔علم حدیث میں کوئی آپ کا ثانی نہیں،مال و دولت کی فراوانی کے باوجود بڑی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ علم کا خزانہ تھے جو مسائل بہت بڑے عالم پر مشکل ہوتے تھے آپ پر آسان ہوتے تھے۔ (سیرت امام اعظم:۲۴۳)

Leave a reply

  • Default Comments (0)
  • Facebook Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *