میں منتر پڑھوں گا تو بل میں ہاتھ دے

Spread the love

میں منتر پڑھوں گا تو بل میں ہاتھ دے

تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی )

میڈیا کے مطابق مہاراشٹر کے شہر ناسک کے تعلقہ سنار میں گنگا گری مہاراج نے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اس کے خلاف آل انڈیا مجلس اتحاد السملمین کے راہنما امتیاز جلیل صاحب نے ایف آئی آر درج کرائی اور دیگر ضروری قدم اٹھائے ۔

مہاراشٹر کے مختلف شہروں میں بھی ایف آئی آر درج کرائی گئی ، یہ ایک ضروری اور قانونی کارروائی تھی جو کہ کی گئی بحیثیت ایک ذمے دار شہری کے اور بحیثیت ایک مسلمان کے یہ ہی ہماری ذمے داری تھی ۔

غیر منقسم ہندوستان کے لاہور میں خاکم بدہن ”رنگیلا رسول“ نامی کتاب لکھنے والے بدبخت گستاخ راجپال کو موت کے گھاٹ اتارنے والے غازی علم دین‌ ( متوفی 31/ دسمبر 1929) سے لے کر تمام گستاخوں کے خلاف عملی قدم اٹھانے والے ” غازی و شہید “ عام مسلمان تھے۔

چناں چہ غازی علم دین بڑھی تھا ، ان مسلمانوں کو بھڑکانے والے اور ماورائے عدالت قتل پر اکسانے والے بڑے بڑے علماے کرام تھے ۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ”مفروضہ عظیم کارنامے“ کو انجام دینے میں ایک بھی عالم دین کبھی شریک نہیں ہوا اور کسی بھی فرقے کے عالم دین نے گستاخ رسول کو بذات خود قتل کرکے پھانسی پر لٹک کر یا جیل میں محروس ہوکر ”غازی و شہادت“ کے درجے کو حاصل نہیں کیا ۔

علماےکرام نے تو بس عوام کو بھڑکا دیا اور ان کو اشتعال دلاکر ظالم حکومت اور پولس سے ٹکرادیا اور پھر عدلیہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔

اسی روش کو کہتے ہیں ”میں منتر پڑھوں گا تو سانپ کے بل میں ہاتھ ڈال“ ۔

توہینِ رسالت کے تازہ معاملے ( گنگا گری مہاراج کی شان رسالت میں گستاخی ) میں بھی ہمارے نوجوان عقل سے کورے جذباتی ملاؤں اور ناعاقبت اندیش قلمکاروں کے بہکاوے میں آگئے اور سڑکوں پر اتر پڑے اور پھر ظلم وزیادتی کا وہ سلسلہ چل پڑا جس میں ہمارے نوجوان تو پھنس گئے مگر طرار ملا نتائج سے بے پرواہ قلمکار بچ گئے ۔

یہ لوگ ابھی بھی عرب ممالک اور ترکی میں مقیم مسلمانوں سے صدائے احتجاج کی اپیل کر رہے ہیں جوکہ مکمل طور پر اپنے ہی دامن کو آگ لگانا ہے وہ لوگ از خود کریں تو کریں مگر ان سے احتجاج کی اپیل کرنا بحیثیت ایک بھارتی مسلمان کے ہمارے لیے کسی بھی طرح صحیح نہیں ۔

خیال رہے کہ مسلمانوں کی کسی بھی معتبر اور نمائندہ تنظیم یا عالم دین یا اہم سیاسی راہنما نے احتجاج کی کال نہیں دی تھی ، بلکہ 22/ جون 2022 کو ادے پور میں گستاخ رسول کنہیا لال کو قتل کیا گیا تھا جس کی ہماری قیادت نے بیک آواز بھرپور مذمت کی تھی اور قاتلوں کے خلاف سخت کاروائی کی مانگ کی تھی ۔

اس سب کے باوجود یہ سب دوبارہ پھر ہوا اور نتیجتاً مدھیہ پردیش کے چھترپور میں حاجی شہزاد کے عالی شان بنگلے اور گاڑیوں پر بلڈوزر چلا دیا گیا ۔

احتجاجیوں کو گرفتار کر کے ان کو سڑک پر دوڑایا گیا اور انتہائی غلط نعرے لگوائے گئے اور کٹر ہندتوا کے عزائم کی تکمیل کا سامان فراہم کیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ اس تمام ظلم و تعدی کا ذمے دار کون ہے ؟

نوجوانوں پر پولیس کے مظالم کا ذمے دار کون ہے ؟

اب کون ان کے کیس لڑے گا ؟

کون ان کے مکان بچائے گا ؟

ان کے بیوی بچوں کا کیا ہوگا ؟

ادے پور قتل معاملے میں جب حکومت نے قاتلوں کے خلاف شکنجہ کسا تو مسلک بریلوی کے محترم علماے  کرام نے کہا ”سر دھڑ سے جدا کا نعرہ جرم اور قتل کی دھمکی دینا بھی ناجائز ہے “ ۔ مسلمانوں اچھی طرح سمجھ لو! بھارت کے اقتدار پر براجمان حکومت مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے اس حکومت کو اقتدار ہی مسلمانوں سے شدید نفرت کی بنیاد پر نصیب ہوا ہے تو جہاں جہاں اس حکومت کو انتقام اور بدلہ لینے کا موقع ملے گا وہاں وہاں فوراً لے گی ۔

رہی بات کانگریس یا اپوزیشن کی تو وہ بھی اصولوں سے زیادہ اکثریت پرست اور مفاد پرست ہیں اور ان کی منافقت اور دوغلی پالیسی آج سے نہیں روز اول سے ہے ۔

لہذا ”اقدام بقدرِ استطاعت “ کے اصول پر کام کرو ، اسی طرح سپریم کورٹ آف انڈیا سے بھی کوئی اُمید مت رکھیے ، بابری مسجد پر فیصلے نے ثابت کردیا کہ یہ سپریم کورٹ غیر جانبدار نہیں ہے بلکہ ہندتوا عزائم کی تکمیل کا ایک طاقت ور حصّہ ہے ۔

تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی )

مقصود منزل پیراگپور سہارن پور واٹسپ نمبر 8860931450

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *