اردو کا دشمن کون

Spread the love

اردو کا دشمن کون ؟

اردو زبان ہمارے استعمال سے نکل چکی ہے، گفتگو کے درمیان ہندی و انگریزی کے الفاظ کا استعمال ہم فخریہ طور پر کرتے ہیں اور لکھنے میں دیوناگری و رومن کا استعمال ہی اردو زبان کے زوال کی وجہ بن گئی ہے۔  ہمیں اپنے گھروں میں اردو اخبار و رسالے منگانا زیب نہیں دیتا، نہ ہی ہم اس کی خریداری کے لیے کسی دوکان پر جاتے ہیں۔ ہماری غلطیوں کا بہت برا اثر نئی نسل پر مرتب ہو رہا ہے، وہ صرف اردو زبان سے ہی دور نہیں ہو رہے ہیں بلکہ اردو کے ذریعہ انہیں جو دینی و مذہبی تعلیمات حاصل ہوتے تھے اس سے بھی وہ بالکل نا آشنا ہیں : محمد رفیع

وہ عطر دان سا لہجہ مرے بزرگوں کارچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو ہندوستان ہی نہیں مشرق وسطیٰ کی شیریں زبان اردو کی حالت غیر ہوگئی ہے۔ یوں تو ہر قدم پر اردو کے تحفظ، اس کی ترویج و اشاعت کی بات خوب زور و شور سے ہو رہی ہے، میں خود کی طرح ہر اس فرد کو خادم اردو تسلیم کرتا ہوں جو اس زبان کی تھوڑی بھی فکر کرتا ہو۔

جس طرح جنگ میں انگلی کٹانے والا بھی شہید کی فہرست میں شمار ہوتا ہے اسی طرح صرف اردو کی بات کرنے والا بھی خادم اردو کہلاتا ہے چاہے اس کا عمل جیسا بھی ہو۔ رہی بات ان کی جو اردو کی ہی کھاتے ہیں یعنی اردو زبان ہی ان کا معاش زندگی ہے تو بھلا ہم اسے کیسے نہیں خادم اردو کی فہرست میں شمار کریں۔

سیاسی و سماجی رہنما بھی خادم اردو ہونے کا دم بھرتے ہیں اور اردو کے اخبارات و رسائل تو اردو کی ترویج و اشاعت میں بہت ہی اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ ویسے بھی اخبار کے پبلشرز (کچھ کو چھوڑ کر) غربت کی زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں لیکن اردو کی محبت ہے کہ وہ ماننے کو تیار نہیں، اردو کو اپنا بوریا بستر بنا رکھا ہے اور اسی کا حصہ اپنی کفن کے لیے مختص کر لیا ہے جب کہ وہیں پر بہت سارے اخبارات و رسائل سرکار کی اور اردو آبادی کے بے رخی کا شکار ہو کر بند ہو گئیں۔

اردو اخبارات میں کام کرنے والے مدیر ہوں خواہ چھوٹے چھوٹے ملازم سب کی حالت ایک جیسی ہے، بالکل مسجد کے امام کی طرح بدتر۔ یہی سارے افراد ہیں جو خادم اردو کہلانے کے حقدار ہیں لیکن اردو کے وجود کو اصل خطرہ بھی انہیں سے ہے۔

اول تو یہ کہ اردو زبان ہمارے استعمال سے نکل چکی ہے، گفتگو کے درمیان ہندی و انگریزی کے الفاظ کا استعمال ہم فخریہ طور پر کرتے ہیں اور لکھنے میں دیوناگری و رومن کا استعمال ہی اردو زبان کے زوال کی وجہ بن گئی ہے۔

ہاں کہیں کہیں یہ ہماری مجبوری ہو سکتی ہے کہ اردو کے بجائے ہم دوسری زبانوں کا استعمال کریں لیکن ہمارا فرض؟

ہمیں اپنے گھروں میں اردو اخبار و رسالے منگانا زیب نہیں دیتا اور نہ ہی اس کی خریداری کے لئے ہم کسی دوکان پر جانے کی ہمت جٹا پاتے ہیں۔ ہماری غلطیوں کا بہت برا اثر نئی نسل پر مرتب ہو رہا ہے، وہ صرف اردو زبان سے ہی دور نہیں ہو رہے ہیں بلکہ اردو کے ذریعہ انہیں جو دینی و مذہبی تعلیمات حاصل ہوتے تھے اس سے بھی وہ بالکل نا آشنا ہیں۔ اسکول، خصوصاً سرکاری اسکولوں کی ایسی حالت ہے کہ ناسازگار ماحول کی وجہ سے نہ تو بچے اردو پڑھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ اردو پڑھانا چاہتے ہیں۔

اس سے قبل بھی ہم نے محکمۂ تعلیم سے لے کر وزیر اعلی بہار تک کو لکھا تھا کہ بڑی تعداد میں اردو اساتذہ بحال ہیں لیکن اردو زبان یا پھر اردو میڈیم سے بچوں کو کیسے تعلیم دیں اس کی آج تک انہیں ٹریننگ نہیں ملی۔ ناسازگار ماحول میں بعض اوقات ہمارے اساتذہ ہمت نہیں جٹا پاتے اور جو ہمت کرتے ہیں انہیں ہیڈ ماسٹر کی سخت مخالفت کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے، ان کی حاضری کاٹ دی جاتی ہے، سہولت سے چھٹیاں جو ان کا حق ہے نہیں ملتی ہیں اور نہ جانے کتنے طریقے سے ذلیل کیا جاتا ہے۔

لیکن جہاں ماحول ہے یعنی اردو اسکول مسلم آبادی میں ہے اس کی کہانی الگ ہی ہے۔ غیر اردو آبادی والے اسکولوں سے تھوڑا ہی مختلف ہے وہ بھی صرف چھٹی کے معاملے میں، جس پر افسران کی نظر بد ہے۔

قریب 80 فیصدی اردو اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر غیر اردو داں مسلم ہیں۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ ہم لوگوں نے محکمۂ تعلیم سے ہمیشہ یہ مانگ کی ہے کہ اردو اسکولوں میں اردو اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر اسی شخص کو بحال کیا جائے یا اسی کی پوسٹنگ کی جائے جو اردو کے جانکار ہوں۔ اس کے پیچھے کا ہمارا مقصد واضح ہے، اسی طرح ہم اردو اسکولوں کا وجود باقی رکھ پائیں گے۔

لیکن غیر اردو داں مسلم ہیڈ ماسٹر تو اسکول کے ریکارڈ کو دھیرے دھیرے ہندی کر رہے ہیں، جو نرم ہیں وہ کم از کم نوٹس تو ہندی ہی میں کرتے ہیں، بہت جگہ اسکول کی روٹین میں اردو شامل نہیں ہے۔ اردو میڈیم سے بچے نہ پڑھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ان کے گارجین پڑھانا چاہتے ہیں اس لیے اساتذہ بھی اردو میڈیم سے نہیں پڑھاتے ہیں، بعض جگہ یہ مجبوری ہے کہ اردو پرائمری اسکول ہے تو وہاں اردو کے مڈل اسکول نہیں ہیں، سیکنڈری و ہائیر سکینڈری اسکول نہیں ہیں، اس سے بھی اردو میڈیم سے تعلیمی سفر کو جاری رکھنے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

اس لیے یقینی طور پر سبھی پنچایتوں میں ایسے ادارے لازمی طور پر ہونے چاہیے جہاں پرائمری سے+2 تک کی تعلیم بچے اردو میڈیم سے حاصل کر سکیں۔ اردو اسکولوں میں زیادہ تر مکس بک سیٹ یعنی ایک زبان کی شکل میں اردو باقی سبھی مضمون ہندی کی لی جاتی ہیں اور ہندی اسکولوں کو اردو سیٹ یعنی سبھی مضمون اردو میڈیم میں دئے جاتے ہیں، امتحان کے وقت سوالات بھی اسی طریقے سے دیئے جاتے ہیں، یعنی اردو اسکولوں کو مکس اور ہندی اسکولوں کو اردو سیٹ، حالانکہ ایسا بڑے پیمانے پر نہیں ہے لیکن یہ بیماری ہے۔

نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کہیں بچے کتاب کا مطالعہ کئے بغیر امتحان دیتے ہیں تو کہیں کتاب کا مطالعہ رہنے کے باوجود سوال نامہ نہیں ملنے کی وجہ سے اردو زبان و اردو میڈیم سے امتحان نہیں دے پاتے ہیں۔ لیکن ایک سچائی یہ بھی ہے کہ بڑی تعداد میں اردو اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر خالص اردو کی جگہ مکس کتاب و مکس سوالات کا ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ ابھی سشماہی اگزامینیش میں اردو اسکولوں نے سوالات کے لئے جو ڈیمانڈ کئے ہیں وہ تعجب خیز ہے۔

ایک اسکول جس کے اطراف میں صرف مسلمانوں کے گھر ہیں وہاں قومی زبان ہندی اور اردو میڈیم سے ایک بھی سوال نامہ نہیں مانگا گیا تھا اور درجہ اول سے ہشتم تک کے کل 283 طلباء و طالبات کے لئے مکس یعنی ایک پرچہ اردو زبان اردو میں باقی سبھی مضمون ہندی میڈیم کے ڈیمانڈ کئے تھے۔

وہیں دوسرے نامور اردو مڈل اسکول جہاں آج تک ایک بھی ہندو استاد بحال نہ ہوا وہاں کل 511 طلباء و طالبات کے لئے ہندی کے سوالات 113، اردو کے صرف 30 اور مکس 368 سیٹ ڈیمانڈ کئے تھے۔

یہ تو نمونہ ہے حالاں کہ قومی اساتذہ تنظیم بہار کے ریاستی مجلس عاملہ کے رکن وقار عالم کی پہل پر کچھ ترمیم وہاں کے ہیڈ ماسٹر نے کر لیا اب کل 283 بچوں والے اسکول میں 148 اردو اور 135 مکس کا ڈیمانڈ کیا گیا، جب کہ 511 طلبا و طالبات والے اسکول میں 113 ہندی کی جگہ 103، 30 اردو کی جگہ 65 اور 368 مکس کی جگہ 343 مکس سوال نامہ کا ڈیمانڈ بھیجا گیا۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ آخر اردو اسکولوں میں مکس کا ڈیمانڈ کیوں؟

جب کہ اردو اسکولوں کا میڈیم آف تعلیم اردو ہے یعنی سبھی مضمون اردو میڈیم سے پڑھائے جاتے ہیں، اسی بنیاد پر ہم لوگ اردو اسکولوں میں صرف اردو کے اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر بحال کرنے کی مانگ کرتے ہیں۔ نہیں ملنے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں اور حکومت کے خلاف بھلا برا بولتے ہیں۔

اگر ہم مکس کتاب اور سوال نامہ کا ڈیمانڈ کریں گے یا اس کا اٹھاؤ کریں گے تو ممکن ہے کہ ہم اپنی وراثت نہیں بچا پائیں گے، ہمارے بزرگوں نے جو کام کیا اسی کی بنیاد پر ہمیں سرکاری محکموں میں نوکری ملی، اگر ہم اس وراثت کو نہیں بچائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے ہاتھوں ہم آنے والے نسلوں کی مستقبل کو تاریک کر رہے ہیں۔

چند اسکولوں کی یہ حالت ہے تو پورے ریاست کی کیا صورتِ حال ہوگی، اس کا اندازہ آپ خوب کر سکتے ہیں۔ ہاں کچھ ایسے اسکول بھی ہیں جو پوری ایمان داری سے کام کرتے ہیں، جیسے ضلع مظفر پور کے کڈھنی بلاک کے ہی اردو مڈل اسکول مور نصف کو ہی لیں، مور نصف میں کل داخلہ 513 میں 139 ہندی اور 374 اردو سیٹ سوال نامہ کا ڈیمانڈ کیا ہے، ہندی ہندو بچوں کے لیے ہے کوئی مسئلہ نہیں ہے، اچھی بات ہے کہ ایک بھی مکس کا ڈیمانڈ نہیں کیا گیا ہے۔

لیکن پوری ریاست میں ایسے اسکولوں کی تعداد انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ گڑبڑی کرنے والے اسکولوں کے ہیڈ ماسٹرز سے جب وقار عالم نے مکس سوال نامہ کے ڈیمانڈ کی اصل وجہ جاننا چاہا تو انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ٹیچر ہندی میڈیم کی مانگ کرتے ہیں۔

سوال اٹھتا ہے کہ اردو استاد کی شکل میں بحال اساتذہ آخر ایسا کیوں کرتے ہیں تو اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ ایک تو وہ میٹرک و انٹرمیڈیٹ میں 50 نمبر کا اردو پڑھ کر آئے ہیں اور انہیں اردو میڈیم سے پڑھانے کی محکمۂ تعلیم نے ٹریننگ نہیں دی ہے تو بھلا اردو زبان چھوڑ کر باقی مضمون جیسے سائنس اور حساب وغیرہ اردو میڈیم میں کیسے پڑھائیں گے۔

اس کے علاوہ کئی اور مسائل ہیں جن سے ہمیں دو چار ہونا پڑتا ہے انہیں میں سے ایک ہے، گزشتہ دنوں شرپسندوں نے اردو اسکول کو بھی عام اسکولوں کی طرح جمعہ کے دن کھولنے اور اتوار کو ہفتہ کی چھٹی کرنے کو لے کر تحریک چھیڑ دی تھی، لیکن اردو تنظیموں و سیاسی و سماجی رہنماؤں کی پہل سے یہ شر ٹل گیا‌۔ اس درمیان یہ معلوم ہوا کہ مظفر پور ضلع کے کڈھنی بلاک تعلیمی افسر منٹو کماری نے یوں ہی بغیر کسی تحریری حکم نامہ کے بلاک کے دو اپگریڈیڈ ہائی اسکول مور نصف اردو اور یو ایچ ایس چین پور باجد کو یہ حکم دیا کہ اگست 2024 سے ہندی اسکولوں کی طرح جمعہ کے دن کھلا رہے گا اور اتوار کے دن بند رہے گا۔

مور نصف کے ٹیچر، قومی اساتذہ تنظیم بہار کی ریاستی مجلس عاملہ کے رکن محمد امان اللہ کے وقت رہتے حرکت میں آنے، سبک دوش ٹیچر جناب شاہ عالم اور میری پہل سے دونوں اسکولوں کی شناخت کو بچانے میں کامیابی ملی اور بلاک تعلیمی افسر کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اس سلسلے میں مورنصف اپگریڈیڈ ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر محمد ھاشم نے بتایا کہ گزشتہ ایک مہینہ سے مجھے اس بات کے لیے ٹارچر کیا جا رہا تھا اور کوئی سبیل نہ دیکھ کر میں نوٹس لکھنے کو مجبور ہوا ۔

لیکن بروقت ہوئی پہل نے مسئلہ حل کر دیا۔ اردو کی لڑائی آپ کہاں کہاں لڑیں گے یہ باتیں بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ کے سیکریٹری و ڈپٹی ڈائریکٹر سیکنڈری ایجوکیشن بہار جناب عبدالسلام انصاری نے اس وقت کہی جب میں نے انہیں بتایا کہ یو ایچ ایس بتھناہا مہرتھا اردو کے یو ڈائس میں میڈیم آف انسٹرکشن یعنی تعلیم کا میڈیم ہندی درج ہے۔

آپ کو جان کر تعجب ہوگا کہ اسکول اردو ہے اور یو ڈائس میں ہندی ہو گیا۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں کے ایسا معاملہ صرف مہرتھا اردو میں ہی نہیں ہے بلکہ آپ تلاش کریں گے تو بہت سارے ایسے اسکول مل جائیں گے۔

یو ایچ ایس چین پور باجد میں بھی ایسا ہی ہے۔ کچھ اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر کی سستی کی وجہ سے ایسا ہوا ہے تو کچھ ہیڈ ماسٹر نے جا ن بوجھ کر ایسا کیا ہے، جہاں ہندو ہیڈ ماسٹر ہیں وہاں کی بات سمجھ میں آتی ہے لیکن جہاں مسلم ہیڈ ماسٹر ہیں وہاں کیسے گڑبڑی ہوگئی؟

یا تو انہوں نے جان بوجھ کر کیا یا پھر آفس کارندوں میں سے کسی نے کر دیا ہو، یہ ایسا ہی ہے کہ ہندی اسکولوں کے مسلم بچے اردو مضمون لیتے ہیں۔

لیکن امتحان کے وقت داخلہ کارڈ میں سنسکرت ہو کر آتا ہے۔ اردو اسکولوں کے تعلیمی و انتظامی نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش ہمیشہ ہوتی رہی ہے قومی اساتذہ تنظیم بہار و دیگر تنظیموں کی مستعدی کی وجہ سے ابھی تک اردو اسکول اپنی سابقہ ضابطہ پر قائم ہے ورنہ کب کا کھیل ختم ہو جاتا۔ برابر ہمیں یہ شکایت ملتی رہتی ہے کہ اردو اسکول میں غیر اردو داں کی بحالی ہو گئی ہے، کبھی کبھار اس میں ترمیم بھی ہو جاتا تھا لیکن اب جب سے پاٹھک جی آئے تب سے ایک سسٹم بن گیا کہ محکمۂ میں کوئی کچھ سننے والا نہیں، جو کہا جاتا ہے کرو ورنہ نتیجہ بھگتنے کو تیار رہو۔

TRE-1 اور TRE-2 نے پورے نظام کو ہی بدل ڈالا کہ ہندی اسکولوں میں اردو اساتذہ اور اردو میں ہندی اساتذہ کی بحالی ہو گئی خصوصی طور پر سیکنڈری و ہائیر سکینڈری میں تو کوئی قید نہ رہا، دونوں بحالی بےضابطگی کا شکار رہا اور میڈیم کے مطابق بحالی نہیں ہوئی جس سے پورا نظام ہی بگڑ گیا۔ اس سے نہ صرف مسلم اساتذہ کو بلکہ غیر مسلم اساتذہ کو بھی پریشانیوں کا سامنا ہے وہ قدرتی طور پر حاصل آزادی اور صلاحیت کا ٹھیک ٹھیک استعمال نہیں کر پا رہے ہیں۔

ایک طرف ہم لوگ زیادہ سے زیادہ اردو، فارسی و عربی زبان کے اساتذہ کی بحالی کو یقینی بنانے کے لئے جدو جہد کرتے رہتے ہیں لیکن تربیت یافتہ امیدواروں کی کمی کا ہمیں خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ اب دیکھیں پورے بہار کے ٹریننگ کالجوں میں 10 فیصدی اردو یعنی مسلم امیدواروں کا داخلہ لینا ہے لیکن افسوس کے اس 10 فیصدی کی کمی ہو جانے سے ہمارے قریب 800 امیدوار داخلہ لینے سے محروم رہ گئے۔

سرکاری محکمہ کی یہ حالت ہے کہ وہ نام و نمود کے لیے، سرکاری فنڈز کے خرچ کے مقصد سے صرف اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے مقصد کے مخالف ایسے کاموں کو انجام دینے میں مشغول ہیں جس سے عام عوام کا کچھ لینا دینا ہی نہیں۔ اردو ڈائریکٹوریٹ بہار روز روز کچھ نہ کچھ ادبی پروگرام کا انعقاد کرتی رہتی ہے جس سے سرگرمیاں تو دکھتی ہیں، عام لوگوں کو اردو زبان سکھانے کے لیے کورسز آفر کرتے ہیں لیکن ڈائریکٹوریٹ نے خود کو یہیں تک محدود کر لیا ہے۔

ضلع اردو زبان سیل کلکٹریٹ میں ایڈمنسٹریشن کی معاون کے شکل میں کام کرتی ہے لیکن جس کام کو انجام دیا جانا چاہئے اس سے ناآشنا ہیں اور توصیفی سند، مومنٹو بانٹ کر و سیمینار کرا کے وہ سمجھتے ہیں کہ بری الزمہ ہیں۔ جب کہ شہر میں چوک چوراہوں، سرکاری دفاتر میں لگنے والے نام کی تختی و سائن بورڈ میں اردو زبان کو بھی شامل کیا جائے

تمام سرکاری کاموں، اشتہارات، تشہیری ہورڈنگ و دعوت نامہ وغیرہ میں اردو کو جگہ دلانے کا ذمہ لینا۔ اس کی فکر کرنا اور اسے یقینی بنانا ان کا اہم ترین کام ہونا چاہیے، اتنا ہی نہیں تعلیمی اداروں میں بچوں کو اردو کی تعلیم حاصل ہو پاتی ہے یا نہیں اور کیا کیا دشواریاں ہیں اس کی فکر بھی ہونا لازمی ہے۔

اسکول کے اساتذہ کی تربیت پر بھی زور دینا لازمی ہے۔ دوسری جانب اردو تنظیموں، اردو اساتذہ تنظیموں اور اردو کے بہی خواہوں سے رجوع، ان سے مشورہ بھی ضروری ہے۔ یہ دیکھا جا رہا ہے کہ فروغ اردو سیمینار کا جب اہتمام ہوتا ہے تو اس میں سرکاری طور پر اردو اساتذہ کی شرکت کو یقینی بنایا جاتا ہے لیکن ان کے مسائل اور پریشانیوں کو سننے والا کوئی نہیں ہوتا ہے شاید اسی لیے ان کی بات کرنے والوں کو بھی درکنار کر دیا جاتا ہے۔

اردو اخبارات و رسائل فروغ اردواور اردو کی ترویج و اشاعت میں بڑا اہم رول ادا کر رہی ہیں لیکن بعض اوقات ایسا دیکھا جاتا ہے کہ اردو، عربی و فارسی کے خادم کو نظر انداز کیا جاتا ہے، اسے اخبار میں جگہ نہیں دی جاتی ہے کہ کہیں وہ مقبولیت نہ حاصل کر لیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل نیوز و مضمون بھی اس ذہنیت کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔

حالاں کہ اردو کے خادم کو ملتا کچھ بھی نہیں وہ اپنی جان اور اپنا مال صرف کر کے دوست سے زیادہ دشمن پالتا ہے، ہاں کسی کا فون کال یا اخبار کی زینت بننے سے اس میں توانائی پیدا ہوتی ہے اور حوصلہ بلند ہو جاتا ہے جس کے بوتے وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے، اردو کے سچے جانشیں اخبارات و رسائل کو چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کی خوب خوب حوصلہ افزائی کریں۔

وہ حکومت وقت کی بے وفائی کی سزا خادم اردو کو ہرگز نہ دیں۔ ایک کہاوت بہت مشہور ہے کہ لوگ بھرے کو ہی بھرتے ہیں۔ ویسے ہی زیادہ سرکولیشن والے کو ہی وہ زیادہ اشتہار دیتے ہیں جبکہ ہونا یہ چاہیےتھا کہ جس طرح حکومت کمزور طبقہ کی خصوصی مدد کرتی ہے ویسے ہی کمزور اخبار یعنی کم سرکولیشن والے اخبارات کی وہ خصوصی مدد کرتی۔

دوسری جانب مسلم سیاسی و سماجی رہنما مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہیں، انہیں بھی اردو زبان کی خدمت کا جذبہ ہے۔ بعض اوقات وہ اردو کے مسائل پر بہت ہی سنجیدگی کا ثبوت پیش کرتے ہیں لیکن صحیح وقت پر اٹھائے گئے قدم ہی نفع بخش ہوتے ہیں۔ ان رہ نماؤں کی اردو کی خدمت بھی سیاسی بنیاد پر مبنی ہوتی ہے۔ انہیں نہیں معلوم کہ بنیادی مسائل کیا ہیں۔ ہر گاؤں، قصبہ و محلوں میں تعلیم گاہیں یعنی اسکول و مدارس قائم ہیں لیکن کیا کچھ وہاں ہو رہا ہے اس سے ہمارے رہ نما بے خبر ہیں۔

سرکاری اسکولوں سے مسلم بچوں کے تعداد کی صحیح رپورٹ نہیں جاتی ہے، ہندی اسکولوں میں اردو زبان کے جو اساتذہ ہیں انہیں پڑھانے نہیں دیا جاتا ہے، اسکولوں کی عمارت و دیگر سرکاری عمارتوں پر اردو کا استعمال نہیں ہے، اس کی فکر سیاسی و سماجی رہنماؤں کو ہی کرنا ہے لیکن جو اس سے بے خبر ہیں وہ کیا خدمت انجام دیں گے۔

سابق وزیر جناب اسرائیل منصوری نے مظفر پور کلکٹریٹ کے مین گیٹ پر ہندی کے ساتھ اردو کا استعمال کرنے یعنی اردو میں کلکٹریٹ کا نام تحریر کرنے کا اسمبلی میں سوال اٹھایا، بعد میں وزیر بنے، ضلع مجسٹریٹ مظفر پور کے ساتھ بارہا وہ میٹنگ میں بیٹھتے رہے لیکن آج تک کلکٹریٹ کے مین گیٹ پر اردو تحریر چسپاں نہیں ہو سکی، یہ سابق وزیر موصوف اور اردو سیل مظفر پور کی بڑی ناکامی ہے۔

محمد رفیع

7091937560

rafimfp@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *