کیا سیکولر جماعتوں کا رویہ مسلمانوں کو مایوس کررہا ہے

Spread the love

تحریر: سرفرازاحمد قاسمی کیا سیکولر جماعتوں کا رویہ مسلمانوں کو مایوس کررہا ہے ؟

جماعتوں کا رویہ مسلمانوں کو مایوس کررہا ہے

نظر میں مسلم ووٹ بے وقعت ہوچکا ہے تو جب انہیں مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں تو یہ مسلم مسائل پر توجہ کیوں دیں؟ کیوں اپنا وقت ضائع کریں؟۔

ایک زمانے میں لالو یادو سیکولرزم کی وردی پہن کر نمودار ہوئے اور مسلمانوں کی صفوں میں اپنی موجودگی درج کرائی،مسلمانوں نے دل کھول کر انھیں اپنا ووٹ دیا اور بیس سال تک یہ اقتدار کامزہ لیتے رہے

پیچھے مڑکر انھوں نے کبھی مسلمانوں کو نہیں دیکھا اور نہ ہی ان کے مسائل پر کوئی معمولی توجہ دی جووعدہ انھوں نے مسلمانوں سے کیاتھا اسکو بھی بھلا بیٹھے

۔1989 کے بھاگلپور کا فساد جو آزاد ہندوستان کا سب سے بڑا فساد تھا اسکے متاثرین کو انصاف دلانے کا وعدہ کیا لیکن یہ وعدہ ہی رہا،اب تک وہاں کے مظلوموں کو انصاف نہ مل سکا،ملائم سنگھ بھی سیکولر کی بیساکھی کے سہارے مسلم ووٹ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگیے

اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیاکہ انھیں لوگ”ملا ملائم سنگھ یادو” بھی کہنے لگے،انھوں نے مسلم سماج کے لیے کیا کیا ؟ ۔

اپنے بیٹے اکھلیش یادو کو اقتدار حوالے کیا تو بدلے میں اکھلیش نے مسلمانوں کو مظفرنگر کا بھیانک اور رونگٹے کھڑے کردینے والا فساد تحفے میں دیا،مایاوتی بھی کبھی مسلم ووٹ پر عیش کرچکی ہیں

لیکن انھوں نے مسلمانوں کےلئے کیاکیا؟دہلی میں کیجریوال کو پورے اعتماد کے ساتھ مسلمانوں نے ووٹ دیا لیکن کیجریوال اب اپنی طاقت خود کو سافٹ ہندو ثابت کرنے میں صرف کررہے ہیں

دہلی کو کئی دنوں تک جلنے کےلئے چھوڑ دیاگیا اور یہ چیف منسٹر ہوکر تماشہ دیکھتے رہے،مسلمان لٹتے رہے،کٹتے رہے،ان کی عزت وعصمت پامال ہوتی رہی،گھر،دکان سب دہلی کے مسلمانوں کا تباہ کردیاگیا اور کیجریوال خاموشی سے یہ سب نظارہ کرتے رہے

بنگال میں ممتا بنرجی نے مسلمانوں سے بھیک مانگی اور مسلمانوں نے اقتدار پر کئی بار فائز کردیا لیکن بنگالی مسلمانوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی،معاشی وتعلیمی حالت تو انکی وہاں انتہائی افسوس ناک ہے

۔2014 میں تلنگانہ ریاست وجود میں آئی اور پھر نئے کھلاڑی کے طور پر کے سی آر مسلمانوں کے درمیان جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے،8سال گذر جانے کے بعد بھی انھیں مسلمانوں سے کئے وعدے یاد نہیں ہیں،اور اب یہ بھی اپنے کو خالص ہندو ثابت کرنے کی دوڑ میں مصروف ہے،بابری مسجد کے کلیدی ملزم نرسمھاراؤ کا یہ خودساختہ چیلہ ان کی برسی پر کروڑوں روپے پانی کی طرح بہادیا آخر یہ کس کو خوش کرنےکےلئے؟نظام سرکار کی قدیم عمارتیں یہ چن چن کر منہدم کرنے میں مگن ہے آخر یہ سب کس لئے؟ کیا ریاست کے مسلمان صرف افطار پارٹی اور دوسوروپے کی ساڑی کےلئے زندہ ہیں؟ ان سے کئے گئے وعدوں کا کیاہوگا؟ نتیش کمار سے بھی مسلمانوں کی بہت سی امیدیں وابستہ تھیں لیکن انھوں نے بھی انکی امیدوں پر پانی پھیردیا،وہ اپنا اقتدار بچانے کےلئے پلٹی مارنے لگے یہاں تک کہ اب وہ بھی مودی کی گودمیں جاکر بیٹھ گئے
اوران کی فاشسٹ حکومت کے ساتھ ہیں،کیا ان باتوں سے آپ کو نہیں لگتا کہ ان سارے سیکولر پارٹیوں اور سیاسی لیڈروں کا رویہ مسلمانوں کو مایوس کررہا ہے؟مسلم نمائندگی اور مسلم چہرے کے نام پر جن کو ان لوگوں نے ٹکٹ دیا اور وہ کامیاب ہوتے رہے انھوں نے اپنی قوم کی ترجمانی کرنے سے زیادہ پارٹی کی وفاداری نبھائی ،اور اپنی پارٹی کاقرض اتارتے رہے یاپھر مسلم مسائل پر سرد مہری اختیار کی،وہ یہ بھی بھول گئے کہ میں جس کمیونٹی سے آیا ہوں،جس حلقے سے مجھے بھیجاگیا ہے وہاں کے بھی کچھ تقاضے ہیں،کچھ مسائل ہیں لیکن وہ ان ساری چیزوں کو بھلاکر پارٹی کی وفاداری نبھاتے رہے،اقتدار کے مزے لیتے رہے،پارٹی انھیں ہر موقعے پر استعمال کرتی رہی،اور یہ استعمال ہوتے رہے،اگر ایمانداری کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو آج سیکولر پارٹیوں سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی مسلم لیڈر ایسا نہیں ہے جو یہ کہ سکے کہ میں نے اپنی کمیونٹی کےلئے کوئی قابل ذکر کام کیاہے،اور ترقی کی رفتار میں مسلمانوں کی شراکت کو یقینی بنایا ہے، لالو یادو اورا نکی پارٹی نے ڈاکٹر شہاب الدین مرحوم کے ساتھ کیا رویہ اپنایا یہ آپ کو معلوم ہے،سماجوادی پارٹی نے اعظم خان اور مایاوتی نے نسیم الدین صدیقی،کانگریس نے غلام نبی آزاد،سلمان خورشید اور دیگر مسلم نام کے لیڈروں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا یہ بھی آپ جانتے ہیں،یہ سب اس ملک میں مسلمانوں کو اچھوت بنانے کےلئے کیا جاتا رہا،پھر اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ علاقے جہاں مسلم آبادی کی بڑی تعداد آباد ہے اور وہاں آزادی کے بعد مسلمانوں نے مسلم قیادت کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا،مسلم پارٹی اور مسلم قیادت کو ٹھکرا دیا تھا آج وہاں ایک نئی لہر پیدا ہوگئی ہے،وہاں کے مسلمان خود کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں اور اسی وجہ سے حیدرآباد کی مسلم پارٹی کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں،گذشتہ بہار کے الیکشن میں سیمانچل کے علاقے میں اویسی کی پارٹی نے 5سیٹ پر کامیابی حاصل کی تھی،یہ وہی سیمانچل ہے جو ملک کا انتہائی پسماندہ علاقہ ہے اور یہاں کے مسلمانوں نے آزادی کے بعد مسلم قیادت کو ٹھکرادیا تھا،آج ان علاقوں کے علاوہ ملک کے مختلف ریاستوں میں نوجوانوں اور نئی نسل کی ایک بڑی تعداد اویسی اورانکی پارٹی کی حمایت کررہی ہے،اور جذباتی طور پر ان سے امیدیں وابستہ کررہی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اویسی اور انکی پارٹی مسلمانوں کی خیر خواہ اور ہمدرد ہے یا پھر صرف انکے نعرے ہی جذباتی ہیں؟ یہ سمجھنے کی بات ہے،اسد اویسی جنکی عمر تقریباً 52 سال ہے،حیدرآباد میں لوک سبھا کی ایک اور اسمبلی کی 7 سیٹیں انکی پارٹی کے پاس ہے،ایک طویل عرصے سے اس پارٹی کی سیاسی اجارہ داری قائم ہے،حیدرآباد لوک سبھا سیٹ پر 35 سال سے اسکا قبضہ ہے،مجلس اتحاد المسلمین کا قیام 1928 میں ہوا تھا،1948 میں انضمام حیدرآباد کے بعد اس پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی تھی،پھر 1958 میں اسد اویسی کے دادا مولانا عبدالواحد اویسی مرحوم نے نئے دستور کے ساتھ پارٹی کا احیاء کیاتھا،2013 تک یہ پارٹی روایتی طور پر حیدرآباد تک محدود رہی اور تلنگانہ،رائلسیما،مہاراشٹر اور کرناٹک کے بعض علاقوں میں مجالس مقامی کی نمائندگی کرتی رہی

 

 

 

۔ 2014 میں اسد اویسی نے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے پارٹی کی توسیع کی کوشش کی،24 امیدوار میدان میں اتارے جن میں دو سیٹوں پر کام یابی حاصل کی

۔2015 میں مجلس نے بہار اسمبلی الیکشن میں سیمانچل علاقے سے 6 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے تھے،جو قابل لحاظ مسلم آبادی والا علاقہ ہے،لیکن تمام یعنی 6 سیٹوں پر شکست ہوئی تھی

صرف ایک امیدوار کی ضمانت بچ سکی تھی،پھر 5سال بعد یعنی 2020 میں بہار الیکشن کے وقت 20 سیٹوں پر مقابلہ کرتے ہوئے 5 سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی،جھارکھنڈ میں مجلس نے 16 سیٹوں پر مقابلہ کیاتھا لیکن کسی پر کامیابی نہیں ملی

۔2021 کا سال اس پارٹی کےلئے اچھا نہیں رہا کیونکہ پارٹی نے توسیعی منصوبہ کے تحت مغربی بنگال اور تامل ناڈو میں بھی مقابلہ کیاتھا لیکن کامیابی نہیں ملی

بنگال میں انڈین سیکولر فرنٹ سے مفاہمت میں ناکامی کے بعد مجلس نے 7 سیٹوں پر مقابلہ کیاتھا جبکہ تامل ناڈو میں دینا کرن کی زیر قیادت اے ایم ایم کے پارٹی سے مفاہمت کے ذریعے تین سیٹوں پر مقابلہ کیاتھا لیکن دونوں ریاستوں میں کوئی کام یابی نہیں ملی تھی

اب اتر پردیش میں یہ پارٹی کامیابی کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے،2017 کے یوپی الیکشن میں اس پارٹی نے 38 سیٹوں پر مقابلہ کیاتھا،لیکن ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی،اترپردیش میں مسلم آبادی 19 فیصد ہے

اور 403 اسمبلی سیٹیں ہیں،2022 میں منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اسد اویسی نے 100 سیٹوں پر مقابلے کا اعلان کردیا ہے،ان پر ووٹ کاٹنے جیسے دیگر الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں

لیکن انھوں نے ان الزامات کی کبھی کوئی پرواہ نہیں کی،لیکن یہ الزامات جو زیادہ تر سیکولر کہلانے والی پارٹیوں کی جانب سے لگائے جاتے رہے آج تک اسے کوئی پارٹی ثابت نہ کرسکی

ان کا واضح پیغام یہ ہے کہ ملک کے مسلمان اپنی قیادت خود طے کریں، مسلمانوں کو انکا حق ملنا چاہئے،اقتدار میں انکی حصے داری ہونی چاہئے،تاکہ زندگی کے ہر شعبے میں انکے ساتھ جو امتیاز برتا گیا اور انھیں نظر انداز کیا گیا

اس کی پابجائی ہوسکے،مجلس پر سیکولر ووٹ تقسیم کرنے اور بی جے پی کی بی ٹیم ہونے کا الزام غیر بی جے پی پارٹیوں کی جانب سے لگایا جاتا رہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آج کے بھارت میں جہاں سیکولرزم نے دم توڑ دیا ہے وہاں سیکولر کون ہے؟ ۔

اور کیا سیکولرزم کا مقصد صرف مسلم ووٹ حاصل کرنا ہے یااسکے علاوہ کچھ اور ہے؟۔

میں ذاتی طور پر اویسی اور اس کی پارٹی کی جذباتی سیاست سے اتفاق نہیں رکھتا اور نہ ان کی سیاست کو ملک کے مسلمانوں کے لیے مفید سمجھتا ہوں، لیکن آخر اس کا حل کیا ہے اور مسلمانوں کے لیے راستہ کیا ہے؟

اس پر تو غور ہونا چاہئے،مسلمان کدھر جائیں؟ اور کیا کریں؟۔

ہمارے مسائل کا حل کیا ہے؟

سوال یہ بھی ہے کہ آخر اویسی کو اس کام کے لیے کس نے مجبور کیا جو وہ پورے ملک میں گھوم گھوم کر مسلم مسائل کو پیش کرتے ہیں

پارلیمنٹ سے لے کر عوامی جلسوں تک ان کی تقریریں مدلل ہوتی ہیں،اور وہ پوری طاقت کے ساتھ مسلمانوں سے متعلق مسائل اٹھاتے ہیں اور اس پر بحث کرتے ہیں،جو کام سیکولر کہلانے والی پارٹی،حکومت اور ان کے نمائندوں کو کرنا چاہیے اس سے وہ چشم پوشی کیوں کرتے ہیں؟۔

یہ کام اویسی کیوں کررہے ہیں؟

کیا سیکولر پارٹیوں کو یہ سمجھنے اور مسلمانوں کے تئیں ان کے رویے میں تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے؟

آخر مسلم نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ اویسی کی جذباتی باتوں اور نعروں میں کیوں بہہ رہا ہے؟ ۔

اس پر غور کون کرے گا اور اس کے سدباب کے لیے لائحہ عمل طے کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟۔

بھارت کے مسلمان ہندوستانی ہیں اور ہندوستانی ہونا ہمارا پیدائشی حق ہے،پاکستان، مسلم لیگ سے وابستہ لوگوں کا مطالبہ تھا ظاہر ہے یہ سارے مسلمانوں کا مطالبہ نہیں تھا

لیکن بہر حال انکا مطالبہ پورا کردیا گیا اور پاکستان انہیں مل گیا،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تقسیم وطن کےلئے ہندو شدت پسند عناصر نے جسطرح اسوقت ماحول تیار کیا تھا

آج بھی وہ لوگ یہی سب کررہے ہیں انکی حرکتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہے،ہندتوا کے علم بردار اور نفرت کے پجاری ایک عجیب بحرانی کیفیت میں مبتلا ہیں

اور وہ وقفے وقفے سے ملک کی عظیم شخصیات کے خلاف ہرزہ سرائی اور مسلم مخالف نفرت کی مہم چلارہے ہیں،کیا ان چیزوں سے ملک محفوظ اور متحد رہ سکے گا؟۔

اور کیا ملک کو متحد رکھنے کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کی ہے؟

پھر یہاں کی حکومتیں اور سیکولرزم کا چولہ پہنے سیاسی لیڈران ، دانش وران اور امن و محبت کے داعی لوگوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟

اور کب وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے؟ یہ کون بتائے اورسمجھائے گا؟

آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟

آپ بھی سوچئے میں بھی سوچوں۔

تحریر: سرفرازاحمد قاسمی

حیدرآباد برائے رابطہ: 8099695186

(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com

3 thoughts on “کیا سیکولر جماعتوں کا رویہ مسلمانوں کو مایوس کررہا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *