خود اعتمادی شخصی ارتقا کا پہلا زینہ
خود اعتمادی شخصی ارتقا کا پہلا زینہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ہم بہت سارے فیصلے کرنے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہوتے ہیں، اس کا حل شریعت میں مشورہ ہے، مشورہ کے لیے افراد کا انتخاب بھی ایک اہم کام ہے، آپ تجارت میں کاشت کار سے مشورے لے رہے ہیں
ڈاکٹری معاملات میں انجینئر سے مشورہ لے رہے ہیں، تعلیمی معاملات میں مشورہ کے لیے جاہل کے پاس جا رہے ہیں تو کام قابو میں نہیں آئے گا، بلکہ بگڑنے کے امکانات زیادہ ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ مشیر کار کا صحیح انتخاب کیا جائے
ایک مشیر ہمارے اندر بھی بیٹھا ہوا ہے ، یہ ہمارا دل ہے، اپنے دل سے استفسار کرنا چاہیے، اسی کو حدیث میں استفت قلبک سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی اپنے دل سے پوچھو، دل کے یہ فیصلے ہی ہمارے اندر خود اعتمادی (Self confidence)پیدا کرتے ہیں اور ہم احساس کم تری کے دلدل سے نکل پاتے ہیں، خود اعتمادی سے ہمارے اندر قوت فیصلہ اور کچھ کر گذرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
خود اعتمادی کا بڑا فائدہ ہماری ذات کو پہونچتا ہے، ہم عزت نفس کے ساتھ جینا سیکھ جاتے ہیں، ہمارا ضمیر مردہ ہونے سے بچ جاتا ہے اورہم ہر کام کے کرتے وقت ضمیرکی آواز کی طرف قدم بڑھانے لگتے ہیں، ضمیر کی آواز کو مضبوط اور اس کی رہنمائی کو یقینی بنانے کے لیے کچھ دیر مراقبہ کرنا بہت مفید ہے
اس سے ہمارے فکر وخیال میں ارتکاز پیدا ہوتا ہے، ہمارا دل اور دماغ ہمارے من سے جڑجاتا ہے، دن میں پندرہ ، بیس منٹ بھی اگر آپ اس کام کے لیے نکال سکیں تو ضمیر کی آواز تک پہونچنا اور خود اعتمادی کے ساتھ کام کو نمٹا نا آسان ہی نہیں، آسان تر ہوجائے گا
جو خیالات ذہن میں آئیں، اسے نوٹ کر لیں اور پھر کسی خالی وقت میں اس کے مثبت اور منفی پہلووءں کا تجزیہ کریں، ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ مراقبہ کے وقت جو سگنل آپ کو ملتا ہے وہ دیر پا نہیں ہوتا، ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ صرف تینتیس(35) سکنڈ کے بعد ان اشاروں کا کاغذ پر منتقل کرنا کبھی کبھی دشوار ہوجاتا ہے، روزانہ اس کا م کے لیے دس منٹ نکالیں، آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بسا اوقات جب آپ کسی کام کے کر گذرنے کا عزم مصمم کر لیتے ہیں تو وہ کام ہوجاتا ہے، اقبال کے لفظوں میں سمندر پاٹنا اور کوہ سے دریا بہانا بھی ممکن ہوسکتا ہے، یہ خود اعتمادی کا ہی نتیجہ ہے، اس کے بر عکس کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ دریا پر بنے لکڑی کے پتلے پُل کو عبور کرتے وقت گھبرا جاتے ہیں، ریلنگ پر چلنا ہو تو کپکپی بدن پر طاری ہوجاتی ہے اور آپ نیچے گر جاتے ہیں، ایسا خود اعتمادی کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے، آپ پورے اعتماد کے ساتھ طے کر لیں کہ میں اسے عبور کر سکتا ہوں، تو اللہ کی مدد سے آپ اسے عبور کرلیں گے۔
خود اعتمادی کی کمی ہمیں بہت سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور ہمارا بہت سارا وقت یہ سوچنے پر گذر جاتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے۔ اس کی وجہ سے بار بار ہم اپنے طریقۂ کار اور منصوبوں میں تبدیلی لاتے ہیں، جس سے کام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، ہمیں ناکامی کا ڈر ستانے لگتا ہے ، اس غیر ضروری سوچ کی وجہ سے خود اعتمادی کمزور پڑ جاتی ہے اور ہم آگے بڑھنے سے محروم رہ جاتے ہیں
اس نفسیاتی مرض کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے دل ودماغ کے سب دروازے کھلے رکھیں، جو نئے منصوبے کسی کی طرف سے یا آپ کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، اس کے مثبت ، منفی پہلوو ءں کا جائزہ لے کر مثبت راہ پر آگے بڑھیں، آپ محسوس کریں گے کہ پوری خود اعتمادی کے ساتھ آپ نے جو فیصلہ لیا ہے اس کی وجہ سے کام یابی آپ کا مقدر بن گئی ہے ۔
یقینا پیشہ وارانہ معاملات میں ہر جزو پر دھیان رکھنا ضروری ہے ، دور اندیشی سے کام کے بارے میں فیصلہ لینا بھی ضروری ہے ، لیکن اس فیصلہ میں اتنی تا خیر ہونا کہ کام وقت پر مکمل نہ ہوسکے آپ کی احساس کمتری اور اپنی ذات پر بے اعتمادی کا اشاریہ ہے، اس لیے تمام پہلو ءوں پر دھیان رکھیں ، کام آگے بڑھتا جائے گا
اسی لیے مفکرین کی رائے ہے کہ ایسی زندگی گذاریں جس میں ڈر سے زیادہ کچھ کر گذرنے کی جستجو اور حوصلہ پایا جائے، خود کو بہتر بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں اور ایسے تجربات سے بھی بچیں جس نے آپ کو پہلے کسی مرحلہ میں ناکامی سے ہم کنار کیا ہو۔
خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے معاملات میں دوسروں پر انحصار کرنا کم سے کم کریں، چھوٹے چھوٹے کام خود سے کرنے کی عادت ڈالیے، جو لوگ دوسروں پر منحصر ہوتے ہیں اور بیساکھی کے سہارے چلتے ہیں وہ کبھی بھی کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے، خود اعتمادی کا مطلب کبر نہیں ہے اور یہ تواضع کی ضد بھی نہیں ہے، کبھی یہ مت سوچیے کہ مجھے معزز بننے کے لیے اپنا قد دوسروں سے بڑا کرنا ہوگا
چاہے یہ بڑپن کسی کو روند کر ہی کیوں نہ حاصل ہو، قد کے بڑا کر لینے سے آدمی بڑا نہیں ہوجاتا، جھکنے سے بھی اونچائی ملتی ہے، من تواضع للہ رفعہ اللہ کا یہی مطلب ہے اور اونچی سڑک پر کمر جھکا کر چلنا
بھی یہی بتاتا ہے، جو جھکنا نہیں جانتے انہیں وقت کا جھکڑ دیر سویر جھکا ہی دیتا ہے، اس لیے تواضع کو خود اعتمادی کے منافی نہیں سمجھیے، کبھی تو جھکنے سے ہی ایمونیٹی بڑھتی ہے، من کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے اس کی صلاحیت بھی مراقبے اور گیان دھیان سے ہی پیدا ہوتی ہے۔
خود اعتمادی اور خود پسندی بھی دو الگ الگ چیز ہے، خود پسندی انسان کو کبر کی طرف لے جاتا ہے، اس کی نظر میں اپنے علاوہ دوسرا کوئی جمتا اور جچتا ہی نہیں ہے، ایسا شخص اپنے علاوہ دوسرے کو حقیر سمجھنے لگتا ہے، اس کے بر عکس خود اعتمادی میں دوسروں کے لیے حقارت کا مادہ نہیں پایا جاتا
وہ صرف اپنے کام اور منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہونچا نے کی دُھن میں رہتا ہے، دوسرے کیا کر رہے ہیں یا اس کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں،وہ اس میں پڑنا نہیں چاہتا ، اس کا ہر قدم پُر اعتماد انداز میں منزل کی طرف بڑھتا ہے اور بالآخر وہ اپنے ہدف کو پالیتا ہے۔
خود اعتمادی کو کمزور کرنے کے لیے بہت سارے عوامل آپ کے ارد گرد بکھرے ہوتے ہیں، ان سے محتاط رہنا چاہیے، خصوصا ایسے لوگوں سے جو بار بار آپ کو یہ کہیں کہ یہ کام آپ کے بس کا نہیں ہے، ایسے لوگوں سے خود کو دور رکھیے اور بار بار اس بات کو دہرائیے کہ ہم اللہ کے فضل سے سب کچھ کر سکتے ہیں، ہمارا دل، دماغ، ہاتھ پاوءں سب سلامت ہے تو پھر ہم اپنے منصوبوں کو نتیجے تک کیوں نہیں پہونچا سکتے۔
خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے بچوں پر ابتداہی سے محنت کرنے کی ضرورت ہے ، بچہ سیڑھی پر چڑھتے ہوئے بار بار گر رہا ہے ، ایسے میں ماں، باپ، بھائی اس کو گودمیں اٹھا لیتے ہیں، یا بچہ پاوءں پاوءں چلنے کی عمر میں ہے ، اٹھتا ہے، تلملاتا ہے، گرتا ہے، پھر اٹھ کر کھڑے ہونے کی کوشش کرتا ہے، ایسے میں آپ کی محبت کا تقاضہ ہے کہ اسے کوشش کرنے دیں، چند بار گرنے کے بعد جب وہ چلنے لگے گا یا سیڑھی پر خود سے چڑھ جائے گا تو اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوگی
یہ خود اعتمادی اس کی عمر کے ساتھ پروان چڑھتی رہے گی اور بڑا ہو کر وہ اس خود اعتمادی سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہوگا، گارجین حضرات کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ خود اعتمادی بچے اور بڑے سب کے لیے ایک ایسا محرک ہے جو مختلف موقعوں پر حالات کا مقابلہ ، مسائل ومشکلات کا سامنا کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے قوت فراہم کرتا ہے، اس صلاحیت کو پیدا کرنے میں والدین اور خاندان کے لوگ بنیادی کردار ادا کرتے ہیں
ان مضامین کو بھی پڑھیں
امارت شرعیہ کی عصری تعلیمی پالیسی
امارت شرعیہ کی دینی تعلیمی پالیسی
بدمزاجی انسانی رشتوں کے لیے زہر قاتل
مولانا آزاد نیشنل اسکالر شپ کا خاتمہ
اگر والدین کا رویہ خود اعتمادی والا نہیں ہے تو بچہ اس راہ پر آگے نہیں بڑھ سکتا ہے، اس لیے خود اعتمادی کا جوہر اپنے اندر پیدا کیجئے تاکہ یہ بچوں میں منتقل ہو سکے، خود اعتمادی ہے یا نہیں اس کا پتہ انسان کے اعمال وکردار سے چلتا ہے ، اگر کوئی آدمی اپنی صلاحیت پر بھروسہ نہیں کرتا، دوسروں سے مرعوب رہتا ہے، نئے تجربات سے گریز کرتا ہے
اس کے اوپر جھنجھلاہٹ طاری ہوتی ہے، وضع قطع بدلتے رہتاہے ، سماجی سر گرمیوں سے دل چسپی نہیں ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ احساس کمتری کا شکار ہے، جب کہ وضع قطع کی یکسانیت، مثبت تنقید کے قبول کرنے کا مزاج اپنی صلاحیتوں پر اعتماد، خود اعتمادی کی واضح علامتیں ہیں۔
ان صفات کو پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کا تعلق ان لوگوں سے ہو جو خود اعتمادی کے ساتھ کام کیا کرتے ہیں، حوصلہ افزائی کے معاملہ میں بخیل نہیں ہےں ، اور اچھے کاموں کو کھلے دل سے سراہتے ہیں، ایسے لوگ جو ہمارے مشوروں میں کیڑے نکالتے ہیں، اچھے کاموں کی پذیرائی بھی نہیں کرتے اور ہر وقت اپنا قد اونچا کرنے کے لیے دوسروں کو نیچا دکھانے کی مہم چلاتے رہتے ہیں، وہ آپ کی خود اعتمادی کو کمزور کرکے احساس کمتری میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں
ایسے لوگ آپ کے دوست نہیں دشمن ہیں، جو آپ کی شخصی ارتقاءدیکھنا نہیں چاہتے، حالاں کہ خود اعتمادی شخصی ارتقا کا پہلا زینہ ہے، اس لیے ایسے لوگوں سے د وری بنائے رکھیے تاکہ آپ کی خود اعتمادی بحال رہے۔