مشترکہ دشمنوں سے دوستی

Spread the love

مشترکہ دشمنوں سے دوستی  از قلم :  ودود ساجد (روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)

کیرالہ کا ایک عیسائی سیاست داں آج کل شرپسندوں کا منظور نظر بنا ہوا ہے۔۔ پی سی جارج کی شر انگیزیوں پر حیرت اس لیے ہے کہ اس ملک کے عیسائیوں کا مسلمانوں سے کبھی کوئی تصادم نہیں ہوا۔ان کے درمیان کبھی کوئی مذہبی اختلاف بھی منظر عام پر نہیں آیا۔

مسلمانوں کے بعض نمایاں اور قابل ذکر مقامات اور اداروں میں ’کرسمس ڈے‘ کے موقع پرعیسائی پادری جس عزت واحترام کے ساتھ مدعو ہوتے ہیں اس کے پیش نظر یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمان ان سے نفرت کرتے ہیں۔

تقسیم وطن کے وقت بھی ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا جس کی رو سے کہا جاسکے کہ یہ دونوں فرقے کبھی ایک دوسرے کے مقابل آئے تھے۔۔

یہ درست ہے کہ پی سی جارج اس ملک کے یا صرف کیرالہ کے ہی تمام عیسائیوں کے نمائندہ نہیں ہیں۔لیکن مسلمانوں کے خلاف ان کی شر انگیزیوں کی کسی بھی عیسائی مذہبی رہ نما‘ فادر‘ بشپ یا پادری نے ابھی تک مذمت بھی نہیں کی ہے۔۔

 

پچھلے دنوں پی سی جارج نے کیرالہ میں مسلمانوں کی ملکیت والے چائے خانوں‘ ریستورانوں اور ہوٹلوں پر الزام عاید کیا تھا کہ وہ چائے اور کھانے میں نامردی پیدا کرنے والی دوا ملاکر ’ہندئوں‘ کو پلاتے اور کھلاتے ہیں۔انہوں نے عام ہندئوں سے اپیل کی تھی کہ وہ مسلمانوں کے چائے خانوں‘ ریستورانوں اور ہوٹلوں میں نہ جائیں۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ ایک بہت بڑی سازش ہے تاکہ ہندئوں کو افزائش نسل کے لئے نااہل بناکر مسلمانوں کی آبادی بڑھائی جاسکے۔

پی سی جارج کسی جوشیلے نوجوان کا نام نہیں ہے کہ یہ کہہ کر اس کی ہرزہ سرائی کو نظر انداز کردیا جائے کہ وہ سیاست میں اپنے قدم جمانے کے لیے ایسا کر رہا ہے۔وہ چھ بار کیرالہ اسمبلی کا الیکشن جیت چکے ہیں۔آخری بار وہ 2016 میں اسمبلی پہنچے تھے۔لیکن 2021 میں وہ ہار گئے تھے۔

عیسائیوں کے غلبہ والی سیاسی جماعت ’کیرالہ کانگریس (منی)‘ کے ممبر کی حیثیت سے وہ ریاست میں کانگریس کے اتحادی رہے ہیں لیکن اب وہ شرپسندوں کے عشق میں گرفتار ہیں۔۔

پچھلے دنوں پی سی جارج نے ایک (مندر کے) پروگرام میں مسلمانوں پر بے بنیاد الزامات عاید کئے تھے۔اس سلسلہ میں ان کے خلاف ایف آئی آر ہوئی‘ پولیس نے انہیں گرفتار کیا‘ مجسٹریٹ نے انہیں اس شرط پر ضمانت دیدی کہ وہ اب ایسا بیان نہیں دیں گے‘ لیکن انہوں نے شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پھر مسلمانوں پر الزامات عاید کئے’ مجسٹریٹ نے ان کی ضمانت منسوخ کرکے انہیں 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا۔۔ آر ایس ایس اور دوسری تنظیموں نے ان کی گرفتاری کے خلاف مظاہرے کئے‘ 27 مئی کو کیرالہ ہائی کورٹ نے پی سی جارج کو ضمانت دیدی۔کئی بڑے عیسائی پیشوائوں نے ان کی منافرت آمیز تقریروں کو ’ہیٹ اسپیچ‘ نہ مان کر ’سبقت لسانی‘ قرار دیا۔

انگریزی صحافی ’شاجو فلپ‘ سمیت بہت سے صحافیوں کی مختلف رپورٹس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کیرالہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کا مشترکہ سیاسی نظریہ رہا ہے اور دونوں طبقات مجموعی طور پر کانگریس یا یوڈی ایف کے حامی رہے ہیں۔یوڈی ایف میں مسلم لیگ بھی شامل رہی ہے۔ اسی صف بندی کے سبب وہاں کبھی بی جے پی کو کامیابی نہیں ملی۔وہاں کے عیسائی‘ مسلم اور ہندو ووٹرز کبھی بائیں بازو کے محاذ کو جتاتے رہے اور کبھی یوڈی ایف کو۔لیکن کچھ عرصہ سے وہاں کے عیسائی طبقات کا رویہ بدلا ہوا ہے۔۔

ستمبر 2021 میں پہلی بار کیرالہ کے مسلمانوں پر عیسائیوں نے ’لوجہاد‘ چھیڑنے کا الزام عاید کیا۔پلائی کے بشپ‘ مار جوزف نے عیسائیوں کے اعلی درجہ کے علماء کی آٹھ روزہ کانفرنس کے موقع پر کہا تھا کہ مسلمانوں کے بعض طبقات نے ہماری لڑکیوں پر’لو اور نارکوٹکس جہاد‘ کا جال ڈال دیا ہے‘ کیرالہ کی سرزمین ’دہشت گردوں کا گڑھ‘ بن گئی ہے اور وہ ہندو اور عیسائی لڑکیوں کو دوستی کے جال میں پھنساکر ان کے مذہب تبدیل کرا رہے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ مذکورہ دونوں قسم کے سیاسی اور مذہبی قائدین کے بیانات سے عیسائیوں کے دوسرے مذہبی پیشوائوں نے خود کو کبھی علاحدہ نہیں کیا بلکہ کانگریس اور بایاں محاذ سے کنارہ کرتے ہوئے آر ایس ایس کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے پروگراموں میں شرکت کرنے لگے۔ یہاں تک کہ پی سی جارج نے تو خالص ہندو مذہبی پروگراموں میں شریک ہوکر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا۔

اسی ضمن میں پی سی جارج نے کیرالہ کے ایک مخیر مسلم تاجر یوسف علی تک کو نشانہ بنا ڈالا۔انہوں نے سوال کیا کہ یوسف علی مسلم علاقوں میں ’شاپنگ مال‘ کھولنے کی بجائے ہندو علاقوں میں کیوں کھولتے ہیں؟ پھر خود ہی جواب بھی دیا کہ وہ اس لئے کہ یوسف علی صرف ہندئوں سے پیسے اینٹھنا چاہتے ہیں۔۔

دوسری طرف یوسف علی کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی ’خیرات‘ کا بڑا حصہ غیر مسلموں پر ہی صرف کرتے ہیں۔مثال کے طور پر کیرالہ کے ’بیکس کرشنن‘ کا واقعہ دیکھئے جوموت کے منہ سے واپس آگیا اور یوسف علی نے ایک کروڑ روپیے دے کر اس کیلئے نئی’زندگی‘ خریدلی۔

اس واقعہ پر میں نے جون 2021 میں لکھا تھا۔کیرالہ کا باشندہ بیکس کرشنن ابوظہبی میں ڈرائیور تھا۔2012 میں اس کی کار سے کچل کر ایک 6 سالہ سوڈانی بچے کی موت ہوگئی تھی۔ وہ گرفتار ہوا اور تحقیقات کرنے والی پولیس‘ سی سی ٹی وی کیمروں اورعینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کرکے اس نتیجہ پر پہنچی کہ کرشنن بڑی لاپروائی سے کار چلا رہا تھا۔ 2013 میں متحدہ عرب امارات کی سپریم کورٹ نے اسے موت کی سزا سنادی۔کرشنن کے اہل خانہ اور اس کے وکیلوں نے بہت کوشش کی لیکن اس کی سزائے موت کو کالعدم نہیں کراسکے۔

کرشنن کے اہل خانہ جب ہر طرف سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے متحدہ عرب امارات میں مقیم کیرالہ کے 65 سالہ بزنس مین اور ’لوءلوء‘ گروپ کے چیرمین یوسف علی سے رابطہ کیا۔ یوسف علی نے جب اس سلسلہ میں کوشش شروع کی تو اس وقت تک مہلوک سوڈانی بچے کے اہل خانہ متحدہ عرب امارات چھوڑ کر واپس سوڈان چلے گئے تھے۔اب یہ کام بہت مشکل ہوگیا تھا۔ کرشنن کی سزائے موت اسی صورت میں ختم ہوسکتی تھی جب ہلاک شدہ بچے کے اہل خانہ ’قصاص‘لے کر یا فی سبیل الله اسے معاف کردیں اور سپریم کورٹ میں آکر اپنے بیانات بھی قلم بند کرائیں۔

اولاً تو سوڈانی فریق کو ہی تیار کرنا بہت مشکل تھا۔اوپر سے انہیں صرف عدالت میں بیان دینے کیلئے واپس متحدہ عرب امارات لانا اس سے بھی زیادہ مشکل تھا۔یوسف علی کی ٹیم نے سوڈان پہنچ کر پہلے تو متاثرہ بچے کے اہل خانہ کو تلاش کیا۔پھر ان سے گفتگو شروع کی۔ایک دو نہیں گفتگو کے درجنوں دور ہوئے۔جب کئی برسوں کی گفتگو کے بعد مرنے والے کے اہل خانہ تیار ہوئے تو اس کی ماں بپھر گئی اور اس نے ’قاتل‘ ڈرائیور کو معاف کرنے سے انکار کردیا۔یہ مرحلہ بڑا مشکل تھا۔اس کی ماں کا کہنا تھا کہ میں اپنے بچے کے “قاتل” کو تختہ دار پر دیکھنا چاہتی ہوں۔

یوسف علی کی ٹیم نے اس کام کیلئے سوڈان کی موقر شخصیات اور معاشرہ پر اثر رکھنے والے افراد کو اعتماد میں لیا۔انہوں نے ماں کو مذہبی اور انسانی پہلوؤں کا حوالہ دے کر سمجھایا۔ آخر کار “مقتول” لڑکے کی ماں بھی مان گئی۔ 2013 سے 2019 تک کا عرصہ اسی کوشش میں گزر گیا۔

اب جب کہ مقتول کے اہل خانہ مان گئے تو یہ مشکل سامنے آگئی کہ وہ متحدہ عرب امارات آنے کو تیار نہیں تھے۔یوسف علی کی ٹیم نے تمام سفری اخراجات کے علاوہ انہیں ایک رقم کے عوض متحدہ عرب امارات آنے کو تیار کرلیا۔اب کورونا کی وبا سامنے آگئی۔سوڈانی فریق سفر کرنے کو تیار ہوا تو اب سفر پر پابندی لگ گئی۔

آخر کار جنوری 2021 میں انہیں ابو ظہبی لانے میں کامیابی مل گئی۔ایک بیان میں یوسف علی نے کہا کہ مقتول کے اہل خانہ کو قاتل کو معاف کرنے کیلئے تیار کرنا سب سے مشکل مرحلہ تھا۔بہرحال مقتول کے اہل خانہ نے عدالت میں آکر بیان دیدیا کہ انہوں نے قاتل کو معاف کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یوسف علی کے گروپ کو پانچ لاکھ درہم یا ایک کروڑ ہندوستانی روپے عدالت میں جمع کرانے پڑے۔ عدالت نے ’قصاص‘ کا یہ صلح نامہ منظور کرلیا اور گزشتہ 9 جون2021 کو کرشنن کیرالہ واپس پہنچ گیا۔

ابو ظہبی میں جب اسے جیل میں یہ خبر سنائی گئی اور اس سے پوچھا گیا کہ جیل سے نکل کر پہلا کام کیا کروگے؟

تو اس نے کہا کہ میں سب سے پہلے ’خود کو نئی زندگی‘ دینے والے کے پاؤں چھونے کیلئے اس کے گھر جاؤں گا۔کرشنن کی یہ خواہش پوری کی گئی۔یوسف علی نے کرشنن سے وعدہ کیا کہ وہ ابوظہبی سے باہر اسے کہیں نوکری بھی دیں گے۔9 جون کو جب 45 سالہ کرشنن‘ تھیرواننتا پورم ایر پورٹ پر پہنچا تو اسے میڈیا والوں نے گھیر لیا۔لیکن حیرت یہ ہے کہ 10 جون کو کسی چینل پر یہ خبر نہیں تھی۔میڈیا کو دلچسپی موت کے منہ سے واپس آنے والے ’قاتل‘کرشنن میں تھی‘ انسانیت کے محسن اس شخص میں نہیں تھی جس نے اسے موت کے منہ سے نکالنے کیلئے کروڑوں خرچ کردئے تھے۔

اس ملک میں ایسا نہیں ہے کہ عیسائی طبقات کے خلاف شرپسندوں نے کوئی مہم نہ چلائی ہو۔ان پر حملے ہوتے رہے ہیں۔آزادی کے بعد سے چرچوں میں منعقد ہونے والے پروگراموں پر شرپسندوں کی چڑھائی کے سینکڑوں و اقعات رونما ہوچکے ہیں۔ 2014 کے بعد تو کرناٹک‘ مدھیہ پردیش‘ چھتیس گڑھ‘ جھارکھنڈ‘ بہار‘ ہریانہ‘ پنجاب اور خود دہلی میں عیسائی مبلغین پر متعدد حملے ہوچکے ہیں۔کرناٹک میں 2003 میں آسٹریلیائی عیسائی مبلغ گراہم اسٹینس کو اس کے دو معصوم بچوں سمیت بجرنگ دل سے وابستہ شرپسندوں نے زندہ جلادیا تھا۔ 12 دسمبر 2021 کو کرناٹک کے کولار میں ایک چرچ پر شرپسندوں نے حملہ کرکے مذہبی کتابوں کو آگ لگادی۔عیسائیوں کے مذہبی پیشوا (پادری) نے بھاگ کر ایک تلوار بردار سے بمشکل اپنی جان بچائی تھی۔

دہلی میں ایک سے زائد چرچوں پر حملے ہوچکے ہیں۔آر ایس ایس اور اس کی دوسری ذیلی تنظیمیں عیسائیوں پر تبدیلی مذہب کے الزامات لگاتی رہی ہیں۔۔ متعدد لوگ گرفتار بھی ہوئے ہیں۔اس سلسلہ میں پچھلے دنوں عیسائیوں کی مختلف تنظیمیں احتجاج بھی کرچکی ہیں۔ایسے میں ہندوستان میں عیسائیوں کے سب سے بڑے طبقہ کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا ’بشپ‘ کا مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد الزامات عاید کرنا کم حیرت انگیز نہیں ہے۔

تیزی سے بدلتی ہوئی اس صورت حال کا علم ہماری ’قیادت‘ کو ضرور ہوگا۔یہ صورتحال معمولی نہیں ہے۔یہ صورتحال بہت غیر معمولی‘ دور رس منفی نتائج کی حامل اور ملک میں نئی سیاسی صف بندی کا اشاریہ ہے۔ہمارے برسوں کے’دوست‘ بھی ’مشترکہ دشمنوں‘ سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ادھر ایک کے بعد ایک مسجدوں پر مقدمے ہورہے ہیں۔مسجدوں کے نیچے ’کھدائی‘ کے مطالبے ہورہے ہیں۔مقامی عدالتیں بھی غیر معمولی عجلت دکھا رہی ہیں۔یہ وقت ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے کا نہیں ہے۔یہ وقت حکمت ومصلحت سے کام لے کر ٹھوس’منصوبہ سازی‘ کا ہے۔یہ وقت کچھ غیر معمولی فیصلے کرنے کا ہے۔۔ یہ وقت مصلحت بھری’دوستی‘ کرنے کا ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *