بدمذہبوں کی ایک اور گھپلے بازی

Spread the love

بدمذہبوں کی ایک اور گھپلے بازی

از: محمد ابوذر امجدی گھوسوی

خادم دارالعلوم ضیائے اختر، سورت، گجرات

گزشتہ دو چار روز سے حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ والرضوان کی تفسیر نورالعرفان کے ایک صفحہ کا اسکرین شاٹ تحریف کر کے بدمذہبوں نے سوشل میڈیا پر وائرل کیا اور عوام اہل سنت کو دھوکا دینے کی ناپاک کوشش کی۔

علماے اہل سنت کی مصنفات حسنہ و کتب معتبرہ میں تحریف کر کے عوام اہل سنت کو گم راہ کرنا اور انہیں راہ حق و علماے حق سے دور کرنا بدمذہبوں کا وطیرہ رہا ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی تحریف کی تاریخ بہت وسیع ہے، درجنوں کتب و عبارات میں ایسی ایسی تحریف کی ہے کہ الامان و الحفیظ۔ ان کی تحریفات کو دیکھنا ہو تو فضل اللہ چشتی صاحب کی کتاب” تحریفات“ دیکھی جائے، ان کا دجل و فریب طشت از بام ہوجائے گا۔

سر دست ہم یہاں ایک نئی تحریف اور دھوکے بازی کی بخیہ دری کرتے ہیں۔تفسیر نور العرفان سورہ کہف آیت نمبر ۱۹ “فابعثوا احدکم بورقکم ھذہ الی المدینۃ فالینظر ایھا ازکی طعاما” کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ہمارے حضور نے ظہور نبوت سے پہلے برسوں ابوطالب کے یہاں کھانا کھایا، ہاں بخاری شریف میں ہے کہ حضور نے نبوت سے پہلے بھی بتوں کے نام کا ذبیحہ نہ کھایا۔مذکورہ عبارت میں صاف طور پر ہے کہ حضور نے بتوں کے نام کا ذبیحہ کبھی نہیں کھایا نہ اعلان نبوت سے

قبل نہ بعد۔ اب چوں کہ اس زمانے کے سنی مسلمان اعلی حضرت رضی المولی عنہ کی تعلیمات و تنبیہات کی وجہ سے بدمذہبوں کی ہزار کوششوں کے باوجود بھی ان کا ذبیحہ نہیں کھاتے اور اسے مردار مانتے ہیں ، مگر یہ بدعقیدے اپنا مردار و خبیث ، طیب سنی کو کھلانے کے لیے پھر بھی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

جب ان کا کوئی حربہ کارگر نہ ہوا تو بدمذہب و گمراہ گر طبقہ نے اپنا ذبح کیا ہوا مردار مسلمانوں کو کھلانے کے لیے مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ کی مذکورہ عبارت کا سہارا لینے کی کوشش کی اور شیطانی کاوش اور اپنی پرانی روش اختیار کی یعنی اس عبارت (حضور نے نبوت سے پہلے بھی بتوں کے نام کا ذبیحہ نہ کھایا) میں تحریف کی۔ اور اس میں سے لفظ نہ مٹا دیا اور یہ باور کرایا کہ معاذ اللہ حضور نے بتوں کے نام کا ذبیحہ کھایا اور پھر سوشل میڈیا پر اس کتاب کا عکس خوب وائرل کیا، یہاں تک کہ بہت سے علما سے بھی بحث کی کہ اور کہا کہ دیکھو یہاں حضور بتوں کے نام کا ذبح کیا ہوا کھا رہے ہیں اور آپ لوگ وہابی دیوبندی کا اللہ کے نام کا ذبح کیا ہوا جانور حرام کہتے ہیں اور نہیں کھاتے ہیں۔

اسے دیکھ کر سوشل میڈیا پر لوگوں کو تشویش ہوئی اور کچھ احباب نے فقیر راقم الحروف سے بھی اس حوالے سے سوال کیا اور وضاحت طلب کی۔ فقیر بدمذہبوں کی چالبازیوں سے واقف ہے اس لیے سب سے پہلے فقیر نے تفسیر نورالعرفان کا اصل نسخہ تلاش کرنا شروع کیا۔ جب اصل نسخے کو دیکھا تو ان کی مکاری سامنے آ گئی کیوں کہ اس میں تو صاف لکھا ہے (حضور نے نبوت سے پہلے بھی بتوں کے نام کا ذبیحہ نہ کھایا) لہذا فورا بات سمجھ آ گئی کہ ان شیاطین الانس نے سنی مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے اپنا پرانا جال پھر سے بچھایا ہے۔ مگر اللہ کے فضل سے وہ ہر بار کی طرح اس بار بھی ناکام ہی رہیں گے۔

اور پھر ان احمقوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ اس میں بخاری شریف کے حوالے سے بات کہی گئی ہے تو جو بھی بات اس پر کہی جائے وہ فقط مفتی احمد یار خان نعیمی تک ہی نہیں رہے گی بلکہ امام بخاری رضی اللہ عنہ تک جائے گی۔ بہر حال فقیر راقم الحروف اپنی کم علمی کا اعتراف کرتا ہے مگر پھر بھی یہ کہتا ہے کہ بخاری شریف میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ حضور نے بتوں کے نام کا ذبیحہ کھایا ہے۔

ہاں بخاری شریف میں ایک حدیث جو کہ کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ دو جگہ موجود ہے ایک جگہ “کتاب مناقب الانصار میں باب حدیث زید بن عمرو بن نفیل کے تحت”۔ اور ایک جگہ “باب ما ذبح النصب والاصنام” کے تحت۔

مگر اس میں ہرگز ایسی کوئی بات نہیں کہ حضور نے ایسا ذبیحہ کبھی کھایا ہو جو بتوں کے نام پر کیا گیا ہو بلکہ حضور نے نزول وحی و اعلان نبوت سے پہلے بھی بتوں کے نام کا ذبیحہ کھانے سے منع فرما دیا تھا۔ وہ حدیث پاک بھی ملاحظہ فرمائیں۔

باب حدیث زید بن عمرو بن نفیلأنَّ النَّبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لَقِيَ زَيْدَ بنَ عَمْرِو بنِ نُفَيْلٍ بأَسْفَلِ بَلْدَحٍ قَبْلَ أنْ يَنْزِلَ علَى النَّبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ الوَحْيُ، فَقُدِّمَتْ إلى النَّبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ سُفْرَةٌ، فأبَى أنْ يَأْكُلَ منها، ثُمَّ قَالَ زَيْدٌ: إنِّي لَسْتُ آكُلُ ممَّا تَذْبَحُونَ علَى أنْصَابِكُمْ، ولَا آكُلُ إلَّا ما ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ علیہ

(ملخصا، حدیث ۳۸۲۶)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زید بن عمرو بن نوفل سے بلدح کے نشیبی حصہ میں ملاقات ہوئی ۔ یہ آپ پر وحی نازل ہونے سے پہلے کا زمانہ ہے ۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب دسترخوان بڑھایا گیا آپ نے اس میں سے کھانے سے انکار کر دیا۔ پھر زید نے(قریش سے) کہا کہ تم جو جانور اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو میں انہیں نہیں کھاتا ، میں صرف اسی جانور کا گوشت کھاتا ہوں جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔

اب کتاب الذبائح والصید والی حدیث پاک بھی ملاحظہ فرمائیں:

باب ما ذبح علی النصب والاصنا محَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ المُخْتَارِ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ، يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ لَقِيَ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ بِأَسْفَلِ بَلْدَحٍ، وَذَاكَ قَبْلَ أَنْ يُنْزَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الوَحْيُ، فَقَدَّمَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُفْرَةً فِيهَا لَحْمٌ، فَأَبَى أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا، ثُمَّ قَالَ: « إِنِّي لاَ آكُلُ مِمَّا تَذْبَحُونَ عَلَى أَنْصَابِكُمْ، وَلاَ آكُلُ إِلَّا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ »

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زید بن عمرو بن نوفل سے مقام بلدح کے نشیبی حصہ میں ملاقات ہوئی ۔ یہ آپ پر وحی نازل ہونے سے پہلے کا زمانہ ہے ۔ آپ نے وہ دستر خوان جس میں گوشت تھا جسے ان لوگوں نے آپ کی ضیافت کے لیے پیش کیا تھا مگر ان پر ذبح کے وقت بتوں کا نام لیا گیا تھا ، آپ نے اسے زید بن عمرو کے سامنے کر دیا تو انہوں نے اس میں سے کھانے سے انکار کر دیا اور ( قریش سے) کہا کہ تم جو جانور اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو میں انہیں نہیں کھاتا ، میں صرف اسی جانور کا گوشت کھاتا ہوں جس پر ( ذبح کرتے وقت ) اللہ کا نام لیا گیا ہو۔

علامہ ابن حجر عسقلانی اس حدیث پاک کے تحت فتح الباری میں لکھتے ہیں۔ ترجمہ: ابن بطال نے کہا کہ وہ دستر خوان قریش کا تھا جسے ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے سے منع فرما دیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زید بن عمرو کے سامنے کر دیا تو انہوں نے بھی کھانے منع کر دیا اور زید نے قریش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم

وہ ذبیحہ نہیں کھاتے جسے تم نے بتوں کے نام پر کیا ہے۔اور کچھ آگے لکھتے ہیں کہخطابی نے کہا: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم (اعلان نبوت سے پہلے بھی) بتوں کے نام کا ذبیحہ نہیں کھاتے تھے۔( فتح الباری تحت حدیث ۳۸۲۶)لہذا ثابت ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی بتوں کے نام کا ذبیحہ نہ ہی کھایا نہ کہیں سے ثابت نہ کسی سنی عالم دین نے ایسا لکھا۔
بس یہ بدمذہبوں کی خباثت ہے کہ وہ معصوم و طیب و طاہر آقا کریم علیہ السلام کی جانب ایسی خبیث چیزیں منسوب کرتے ہیں۔

خیر یہ بات تو مسلم ہے کہ خبیث لوگ خباثت کو ہی پسند کرتے اور خباثت ہی کی بات کرتے ہیں انہیں ان کا خبیث و مردار مبارک، ہم طیبوں کو حلال و طیب و پاک مبارک۔
اللہ ہم سب کو ان خبیثوں کے شر سے محفوظ رکھے اور ہمارے ایمان و عقیدے کی حفاظت فرمائے۔آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *