سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن
تحریر: زاہد علی مرکزی کالپی شریف چئیرمین تحریک علماے بندیل کھنڈ سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن ایک بوٹی گوشت اور تھانے میں ایک کرسی پر گھومتی مسلم سیاست پر ایک تجزیاتی تحریر
سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن
جس نے کچھ احساں کیا اک بوجھ سر پر رکھ دیا
سر سے تنکا کیا اتارا، سر پہ چھپر رکھ دیا
جلال لکھنوی کا یہ شعر مسلمانوں کے سیاسی حالات پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے، آزاد بھارت میں اس شعر کی مصداق کوئی دوسری قوم ہو ہی نہیں سکتی
مسلمان اپنے لیڈر، دینی بھائی پر بھروسا تو نہیں کرتا لیکن اغیار پر اس قدر بھروسا رکھتا ہے کہ وقت کا بڑا سے بڑا عالم آجائے یا پھر قطب وقت اسے بھی” نا” ہی سننا پڑے گی
یہ قوم اس قدر ذہنی پسماندگی کا شکار ہے کہ اس کے قریب کا پڑوسی، اپنا بھائی، رشتے دار اسی کی محبوب سیاسی پارٹی کا ستایا ہوا ہوتا ہے
لیکن جب بات ووٹ کرکے اپنا حساب چکتا کرنے کی آتی ہے تو کہتا ہے “ووٹ کہیں اور ڈالنا چاہتے ہیں، بٹن سائیکل کا دب جاتا ہے” ویسے تو یہ حال پورے ملک کا ہے لیکن یوپی، بہار، بنگال میں اس کی واضح مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں
اتر پردیش ملک کی سیاسی راجدھانی کہی جا سکتی ہے کیوں کہ یہیں سے طے ہوتا ہے کہ” ابھی دلی درو ہے” یا نہیں، اتر پردیش ایسا صوبہ ہے جہاں کی سیاست ایک بوٹی گوشت اور پولیس اسٹیشن پر ایک کرسی پر ٹکی ہے
قوم مسلم اس قدر پسماندہ سوچ رکھتی ہے کہ اگر کسی غیر مسلم لیڈر نے یہ کہہ دیا کہ تم جو چاہو کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں،(حالاں کہ یہ صرف چناوی اسٹنٹ ہی ہوتا ہے) تو اس لیڈر کے لیے مسلم ووٹ آپ کلہاڑی سے بھی نہیں کاٹ سکتے
مسلم نوجوانوں کا جوش ان کی حمایت میں دیکھتے ہی بنتا ہے، مقابلے میں خواہ مسلم لیڈر ہو یا کوئی اور، آپ کی کوئی حیثیت نہیں، کیوں کہ یقین تو بھیا جی پر ہے
یہ قوم اگر کسی طرح سے صوبائی سطح کے کسی منتری سے ہی مل لے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان سے بڑا کوئی لیڈر ہی نہیں
ہمارے یہاں ایک پنڈت جی نے کبھی اسی قسم کے معاملے میں تھوڑی مدد کر دی تھی، قوم مسلم 7 یا 8 مرتبہ اس احسان کا بدلہ چکا چکی ہے لیکن ابھی بقول ہماری قوم کے اس کا احسان ادا نہیں ہوا
جب کہ کتنی مرتبہ یہ کھل گیا کہ تھانے میں اپنے قریبی سے صلح کے لیے جس کرسی پر بیٹھے تھے اس کے بدلے اتنا پیسہ لیا گیا کہ پورے تھانے کا فرنیچر آجائے، نیز آپ کے مقابلے آپ کے دشمن سے پیسہ بہت کم لیا گیا
اس مرتبہ تو صاحب نے صاف کہہ دیا کہ غیر مسلم آپ کو دیکھنا ہی نہیں چاہتے، لیکن ابھی بھی ہمارے لوگوں کی عقیدت میں کمی نہیں آئی
کچھ روز قبل ہمارے ایک بھانجے گھر پر آئے تو یادو جی کے قصیدے پڑھے جا رہے تھے، موبائیل میں بھی اسی قسم کے پچاسوں ویڈیوز تھے
جب نہ رہا گیا تو ہم نے یادو جی کے احسانات شمار کرانا شروع کیے، جواب تو نہیں تھا آخر میں یہ بولے کہ “کم از کم ان کے راج میں گوشت ملتا رہتا ہے اور تھانے میں کرسی مل جاتی ہے ان کے اس جملے پر ہمیں یہ شعر یاد آگیا
سچ ہے احسان کا بھی بوجھ بہت ہوتا ہے چار پھولوں سے دبی جاتی ہے تربت میری یہ ایک چھوٹی سی مثال اس لیے پیش کی ہے کہ اعلی سطح کی سیاست تو چھوڑیے ہمارے یہاں ادنی کا یہ حال ہے کہ غلامی تو پسند ہے لیکن اپنے لوگوں کی برتری نہیں
یوپی کی سیاسی پارٹیاں اور مسلماناتر پردیش میں 75 سیٹیں مسلم اکثریت والی ہیں جب کہ 150 سیٹوں پر مسلم ووٹ سیدھا اثر انداز ہوتا ہے، تیس سے چالیس نشستوں پر مسلم اپنے دم پر کسی کو بھی کام یابی سے ہم کنار کر سکتے ہیں، لیکن ان ساری سیٹوں سے کچھ کو چھوڑ کر ہمیشہ غیر مسلم ہی جیتتے ہیں
جب کہ مسلم ان کے علاقوں سے کبھی کام یاب نہیں ہوتے اور نہ ہی ٹکٹ دیا جاتا ہے، کتنی ہوشیار قومیں ہیں کہ اپنے حلقوں سے بھی خود جیتتے ہیں اور مسلم اکثریتی حلقوں میں بھی اپنے ہی آدمی کو لاتے ہیں اور ہم احمقوں کی طرح ان کے پیچھے گھوم رہے ہوتے ہیں
اگر کوئی اپنا بھائی آزاد یا مسلم پارٹی سے قسمت آزمانے کی سوچتا ہے تو ہماری ہی قوم گلا دبادیتی ہے اور پھر جب ظلم ہوتا ہے تو روتی ہے
لیکن الیکشن کے وقت وہی عقیدت پھر زور مارتی ہے اور نتیجہ مصنوعی مسیحا فاتح ہوکر دوبارہ ظلم کی نئ داستان لکھتا ہے
اتر پردیش کی سیاست میں اگر ہم نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو بھی ووٹ دیں لیکن اپنی قیادت کو بھی 20 سے 30 نشستوں پر کام یاب کریں تو ہم سیکولر ازم بھی بچا لیں گے اور اپنی قیادت کھڑی کر کے اپنے حقوق بھی پالیں گے
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!!! بنکر بھائیوں کا بجلی بل ایسے ادا ہوتا ہے پورے اتر پردیش میں تین چار ہزار مدارس اور اتنی ہی اردو ٹیچرس کی نوکریوں کے علاوہ کسی سیاسی جماعت کا کوئی کام نہیں ہے، جب کہ فسادات کی لسٹ بہت لمبی ہے، ایک طرف ہمارا خون بہہ رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف فلمی رقاصاؤں کے ٹھمکوں پر نوٹوں کی بارش ہو رہی ہوتی ہے
ہماری قوم نے جنھیں وزیر اعلی کی کرسی تھمائی ان کا بڑا احسان یہ بھی ہے کہ کسی زمانے میں ہمارے بنکر بھائیوں کا بجلی بل کم کر دیا تھا، آج تک قوم مسلم سمجھتی کہ ابھی حق ادا نہیں ہوا جب کہ ہم نے جسے کرسی پر بٹھایا اس نے اپنی قوم کو زمین کی پستیوں سے آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا
جب وہ پاور میں ہوتے ہیں تو سارے ضلع صدر ان کی قوم کے ہوتے ہیں، سارے ڈی ایم ایس پی، تھانہ انچارج ان کی قوم کے ہوتے ہیں
جتنا بجلی بل کم کیا تھا اس سے ہزار درجہ ہم پر ٹیکس لگا کر، رشوت لے کر، مقدمات میں پھنسا کر اور ہمارے بچوں کو جیل میں ڈال کر ہم سے صلح کے نام پر وصول لیتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مسیحا ہیں، چاقو خربوزے پر گرے یا خربوزہ چاقو پر کٹنا خربوزے کو ہی ہے
ہماری قوم آج تک یہ نہیں سمجھ سکی کہ محسن کون ہے؟ ان سیاسی پارٹیوں نے ہم پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ ہم نے ان پر احسان کیا اور وعدہ کرکے یہی لوگ مکر گیے
وعدہ تھا ساتھ لے کر چلنے کا، برابری کا، حصے داری دینے کا، خون ریزی، قتل، غارت گری سے نجات دلانے کا لیکن ملا کیا وہ سب پر عیاں ہے
اگر آپ بزنس کر رہے ہیں تو بل ادا کرنے میں زیادہ پریشانی نہیں ہونا چاہیے ویسے بھی اتر پردیش میں کتنے گھنٹے بجلی آتی ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے، وہ اپنے بچوں کو اعلی ملازمت دلوائیں، ہر جگہ ان کو فٹ کریں
ہر طرح سے ان کی ترقی کی راہیں نکالیں، اور آپ صرف اس بات پر خوش رہیں کہ بجلی کا بل کم آرہا ہے تو یہ ذہنی پسماندگی ہی کہی جائے گی، اپنے ذاتی مفادات کے لیے قوم کے مفادات کو پس پشت ڈالنا کہاں کی دانش مندی ہے؟۔
سچ پوچھیے تو ذاتی مفادات بھی آپ کو نہیں مل رہے ہاں تھوڑ سی رعایت کہہ سکتے ہیں ظاہری طور پر، لیکن اصل وہی ہے جو اوپر بیان ہوا
علما ذمہ داریاں اٹھائیں جب قوم اس قدر تنزلی کا شکار ہو اور کوئی رہبر و منزل بھی نہ ہو تو علما کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں
علما نے وقت کے ساری ضروریات کو پورا کیا ہے، آج ضرورت ہے کہ سیاسی طور پر قوم کو منظم کیا جائے یہ بھی ایک اہم ملی، دینی فریضہ ہے، گرتی مسجدوں، ہجومی تشدد سے ہو تی موتوں، شرع مطہر پر پے در پے حملوں کا دفاع اگر کرنا ہے
تو سیاست کے بغیر ممکن نہیں ہے آپ سیاست میں مت آئیے لیکن مساجد، جلسوں اور ذاتی محفلوں میں اس مدعے پر بات کر کے قوم کی درست رہ نمائی کر سکتے ہیں
اگر آپ نہیں سمجھ پا رہے تو جو علما، دانش ور اس طرف متحرک ہیں ان سے رابطہ کیجیے اور قوم کو سمجھانے کی کوشش کیجیے، بی جے پی اقتدار میں یہ بات لوگوں کو بڑی آسانی سے سمجھ آجائے گی، ضرورت کوشش کرنے کی ہے
تحریر: زاہد علی مرکزی کالپی شریف
چئیرمین تحریک علماے بندیل کھنڈ
رکن: روشن مستقبل ،دہلی
Pingback: حسب و نسب کا نشہ پھر چڑھنے لگا - اردو دنیا - تحریر: جاوید اختر بھارتی
Pingback: عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات - اردو دنیا - از قلم: غلام مصطفیٰ نعیمی
Pingback: - سوشل میڈیا بلیک میلنگ - اردو دنیا - تحریر: شاہد علی مصباحی
Pingback: افغانستان سے لوگ کیوں بھاگتے ہیں - اردو دنیا - تحریر: ڈاکٹر غلام زرقانی
Pingback: ٹیچرس ڈے بھارت کی عظیم ثقافت - اردو دنیا تحریر: محمد اشفاق عالم نوری فیضی
Pingback: ارتداد کی جانب قدم بڑھاتی مسلم لڑکیاں اور ہماری بے حسی - اردو دنیا
Pingback: شاعر حضرت حفیظ میرٹھی ⋆ اردو دنیا ⋆ ازقلم: شہباز انصاری
Pingback: صرف معافی مانگنے سے چھپ جاے گا امریکا کا جرم ⋆ از قلم : محمد شعیب رضا نظامی فیضی
Pingback: خطرے میں کون ہے ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: غلام مصطفیٰ نعیمی
Pingback: تری پورہ وزٹ کے لیے اگرتلا میں بتیس گھنٹے ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: خالد ایوب مصباحی
Pingback: قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی ⋆ شعیب رضا نظامی
Pingback: ہاں سیاست بھی ہے امراض ملت کی دوا ⋆ اردو دنیا از قلم : جاوید اختر بھارتی
Pingback: مسلمانوں اٹھو بیدار ہو جاؤ ⋆ اردو دنیا ⋆ از قلم : محمد اظہر شمشاد
Pingback: افسوس کہ شرم ان کو مگر نہیں آتی ⋆ اردو دنیا از : افتخار احمد قادری
Pingback: کسان بل واپس ہوسکتا ہے تو سی اے اے اور این آر سی بل کیوں نہیں ⋆ اردو دنیا احمد حسن سعدی
Pingback: سوشل میڈیا کا استعمال اور ہمارے بچے و بچیاں ⋆ ColorMag Pro از :محمد مقتدر اشرف فریدی
Pingback: پردے کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں ⋆ اردو دنیا
Pingback: پردے کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں ⋆ اردو دنیا تحریر: ساغر جمیل رشک مرکزی
Pingback: مسلمانان جھارکھنڈ سے دردمندانہ اپیل ⋆ اردو دنیا
Pingback: انصاف بھی ضروری ہے اور مساوات بھی ضروری ہے ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر:جاوید اختر بھارتی
Pingback: جدید اُردو نثر نگاری کا بانی کون ⋆ اردو دنیا ⋆ از قلم :حافظ افتخار احمد قادری
Pingback: ⋆ سوشل میڈیا بلیک میلنگ ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: شاہد علی مصباحی
Pingback: تعلیمی بیداری مہم ⋆ اردو دنیا ⋆ از قلم : محمد شاہد علی مصباحی
Pingback: سپریم کورٹ کا یوپی حکومت کو زور دار طمانچہ ⋆ اردو دنیا ⋆ رپورٹ
Pingback: کالجوں کے شہر دھارواڑ میں ایک دن ⋆ اردو دنیا