تعلیمات حضرت خواجہ غریب نواز اور آپ کے اخلاق حسنہ
ازقلم : نعیم الدین فیضی برکاتی تعلیمات حضرت خواجہ غریب نواز اور آپ کے اخلاق حسنہ
تعلیمات حضرت خواجہ غریب نواز اور آپ کے اخلاق حسنہ
بھارت صوفی سنتوں کا ملک ہے۔اسی لیے برسوں سے یہاں روحانیت کا بو ل بالا رہا ہے۔اس بات سے انکار بھی نہیں کہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ ان صوفیاے کرام کو مادی طاقتوں سے کڑا مقابلہ بھی کرنا پڑا۔
ان اخوت ومحبت کا درس دینے والے دیوانوں کو ظالموں کے ظلم کا نشانہ بھی بننا پڑا۔مگر ہمیشہ ان امن کے سفیروںنے بھائی چارہ اور امن ومحبت کو فروغ دیا ۔
ایک انسان کو دوسرے انسان سے مل کر رہنے کی تعلیم دی۔خدمت خلق کواپنی پوری زندگی کا نصب العین بنا لیا۔بلا تفریق مذہب وملت سماج کے ہر فرد کی خبر گیری کی اور ان کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کا کام کیا۔
انہیں صوفیاے کرام کی جماعت میںایک نمایاں نام سلطان الہند،عطائے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتی سجزی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا آتا ہے۔جن کے دم قدم سے نہ صرف یہ کہ ہندوستان میںاسلام کی بہاریں آئیں اور شجر اسلام کو ہریالی ملی بلکہ یہاں کے لوگوںکو زندگی جینے کا سلیقہ بھی میسرآیا۔
ولادت با سعادت
حضرت خواجہ غریب نواز قدس سرہ ایران کے صوبہ سجستان یاسیستان میں 1143ء میں پیدا ہوئے۔آپ کا گھرانہ نہایت دیندار اور پرہیز گار تھا۔آپ کے والد ماجد کا نام حضرت سید غیاث الدین ہے۔
آپ والد کی جانب سے حسینی جب کہ والدہ محترمہ کی طرف سے حسنی سید ہیں۔آپ پندرہ ہی سال کے تھے تبھی آپ کے والدبزرگوار کا انتقال ہو گیا اور اس کے دو سال کے بعد والدہ مہرباں کا بھی سایہ عاطفت سر سے اٹھ گیا۔
بھارت میں آمد
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے بھارت میں آمد سے قبل یہاں معبودان باطل کی پوجا کی جاتی تھی۔ظلم واستبداد،حق تلفی اور قتل وغارت گری کو عزت وشان تصور کیا جاتا تھا۔
سیدھے سادھے اور بھولے بھالے انسانوں کو مادیت کے جال میں پھنسا کران کو گمراہ کیا جا رہا تھا۔ایسے پر خطر اور پر فتن ماحول میں حضرت خواجہ غریب نواز نے فرمان نبوی ﷺ پر یہاں تشریف لاکر اس سر زمین کو انوار توحید و رسالت سے ایسا منور کیا ۔
اور باطل پر ستی کاقلع قمع فرماکر یہاں کے ذرے ذرے کو بھائی چارگی اور امن محبت کا ایسا درس دیا جو پورے عالم کے لیے رحمت کا پیغام بن گیا۔
تعلیماتِ خواجہ غریب نواز
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ کا جذبہ خدمت خلق اور آپ کی انقلابی تعلیمات ہی کا نتیجہ ہے کہ آپ نے بلا تفریق مذہب وملت تمام لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی ۔جس طرح مسلمان آپ کے دربار پر انوار میں محبت و عقیدت سے آیا کرتے تھے ٹھیک اسی طرح اس وقت کے بڑے بڑے راجہ مہاراجہ بھی آپ کے اخلاق و تعلیمات سے حد درجہ متاثر تھے۔
جو آج بھی بدستور سابق جاری و ساری ہے کہ بھارت کا وزیر اعظم کوئی بھی ہو لیکن وہ خواجہ صاحب کے دربار میں اپنے عقیدت و محبت کا خراج ضرور پیش کرتا ہے۔ آپ نے اپنے اخلاق وتعلیمات کے ذریعہ اسلام کی ترویج و اشاعت نہایت خوش اسلوبی سے کی۔
یہی وجہ تھی کہ آپ کے محض دہلی سے اجمیر تک کے سفر کے دوران کم وبیش نوے لاکھ(90,00000)افراد مشرف بہ اسلام ہوئے۔
چوں کہ آپ کی مبارک تعلیمات مسلمانوں کو موجودہ در پیش مسائل کا حل بھی ہیں اور امن کی بحالی اور بھائی چارہ کے فروغ کے لیے نسخہ کیمیا بھی۔اس لیے ہم یہاں آپ کے چند تعلیمات کا ذکرکیے دیتے ہیں۔
خوف ِخدا
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ پر خوف خدا کا اس قدر غلبہ تھا کہ آپ ہمیشہ خشیت الٰہی سے کانپتے اور گریہ وزاری کر تے رہتے تھے۔آپ اس کے متعلق فرمایا کرتے تھے :۔
اے لوگوں! اگر تم کو ززمین کے نیچے سونے والو ں کے ذرا بھی حال معلوم ہو جائیں تو تم مارے ڈر کے کھڑے کھڑے پگھل جاؤ اور نمک کی طرح پانی ہو جاؤ۔
ایک دوسرے مقام پر آپ نے توبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
توبۃ النصوح میں تین باتیں ہوتی ہیں
اول: کم کھانا روزے کے لیے۔
دوم:کم سونا اطاعت کے لیے۔
سوم: کم بولنا دعا کے لیے۔
پہلے سے خوف خدا اور دوسرے اور تیسرے سے دل میں محبت بیدار ہوتی ہے۔جب کوئی اللہ کا نام سنے یا کلام اللہ سنے تو اگر اس پربھی اس کا دل نرم نہ ہو ااور خشیت الٰہی سے اس کا ایمان و اعتقاد زیادہ نہ ہو تو یہ گناہ کبیرہ ہے۔
محبت رسول ﷺ
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ تمام عمر عشق الٰہی میں وارفتہ اور بے خود رہنے کے ساتھ محبت رسولﷺ کے نشے میں سرشار رہے۔حدیث پاک میں پیغمبر اسلام ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:۔
کوئی بندہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوجاتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے جان ،اولاد،والدین اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
آپ اپنے ملفوظات میں رسول کریمﷺ کا مبارک ذکر بہت ہی والہانہ انداز میں بیان فرماتے تھے اور اکثر حدیث شریف بیان کرکے رونے لگتے تھے۔
ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ: افسوس ہے اس شخص پر جو قیامت کے دن حضور پاکﷺ کے دربار میں شرمندہ ہوگا۔بھلا اس کی جگہ کہاں ہوگی جو آپ سے شرمندہ ہو گا!۔ وہ کہاں جائے گا ؟ یہ کہہ کر زاروقطار رونے لگے۔
اسی عشق الٰہی اور محبت رسول کا صلہ ہے کہ آپ کی شخصیت پورے عالم میں متعارف ومشہور ہوگئی اور ہر جگہ آپ کا نام نامی اسم گرامی نہایت قدرو منزلت اور ادب و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔
شریعت پراستقامت
حضرت سلطان الہند خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے شریعت کے تمام احکام کے جزئیات بالخصوص نماز کی پابندی پر بڑا زور دیا ۔نماز کے متعلق آپ فرماتے ہیں:۔
نماز دین کا رکن ہے ۔اگر ستون کھڑا ہے تو گھر بھی کھڑا رہے گا ۔اور جب ستون گر جائے گا تو گھر بھی سلامت نہیں رہے گا ۔ جس نے نماز میں لا پرواہی کی اس نے اپنے دین اور ایمان کو خراب کیا۔نماز مؤمن کی معراج ہے۔
جیسا کہ حدیث شریف میں موجود ہے۔اس کے بعد فرمایا:نماز ایک راز ہے جو بندہ اپنے پروردگار سے کہتا ہے۔نمازبندوں کے لیے خدا کی امانت ہے۔پس بندوں کو چاہیے کہ اس کا حق اس طرح ادا کریں کہ اس میں کوئی خیانت نہ ہونے پائے۔
حضرت خواجہ غریب نواز نماز کے ساتھ روزہ اور حج کی بھی بڑی تاکید فرمایا کرتے تھے۔آپ اکثرصائم الدہر رہتے تھے اور آپ نے خانہ کعبہ کی زیارت بھی بکثرت کی ہے۔
پڑوسیوں کا خیال
حضرت خواجہ غریب نواز پڑوسیوں کے حقوق کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ان کی خبر گیری فرمایا کرتے تھے۔اگر کسی پڑوسی کا انتقال ہو جاتا تو اس کے جنازہ میں ضرور تشریف لے جاتے ۔
جب اس کو دفن کرنے کے بعد لوگ واپس ہوجاتے تو تنہا اس کے قبر کے پاس کھڑے ہوکر اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ، اس کے گھر والوں کو صبر کی تلقین کرتے اور انہیںتسلی و تشفی دیا کرتے تھے۔
خدمت ِخلق اور غریب پروری
حضرت خواجہ اجمیر کی تعلیمات میں خدمت خلق اور غریب پروری کا باب سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔ اسی سبب خاص وعام سب نے آپ کو غریب نواز کے لقب سے پکارنا شروع کردیا۔نبی کریمﷺ نے خدمت خلق کے متعلق ارشاد فرمایا ہے:۔
تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ۔اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ انسان ہے جو اس کے مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرے۔اور دوسری حدیث پاک میں غریبوں کے بارے میں فرماتے ہیں:۔
سب سے اچھا اسلام بھوکوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ان دونوںفرمان نبویﷺ پر حضرت خواجہ غریب نواز کااتنی سختی کے ساتھ عمل رہا جس کا اندازہ آپ کے ان مبارک اقوال سے لگا یا جا سکتا ہے۔
حضرت خواجہ غریب نواز نے فرمایا: جو بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اور جہنم کے درمیان سات پردے حائل فرما دے گا۔
ایک مرتبہ آپ سے پوچھا گیا کہ اللہ کے نزدیک محبوب کون سی صفات ہیں؟ ۔
تو آپ نے فرمایا: غمگین افراد کی فریاد سننا،مسکینوں کی حاجت پوری کرنا اور بھوکوں کو کھانا کھلانا۔
آپ نے اپنے ایک اور ارشاد میں فرمایا:جس میں تین خصلتیں ہوں سمجھو وہ اللہ سے محبت کرتا ہے۔دریا کی طرح سخاوت،سورج کی جیسی شفقت اور زمین کی طرح انکسار وتواضع۔
عارف کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:عارفین مثل آفتاب کے ہیں جو دنیا پر چمکتے ہیں اور سارا جہاں ان کے نور سے روشنی حاصل کرتا ہے۔
دورحاضر میں حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃاللہ علیہ کی تعلیمات اور آپ کے اخلاق حسنہ کی کتنی اہمیت و افادیت ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے۔
تھوڑا سا بھی عقل رکھنے والا انسان اس بات کو اچھی طرح جانتا اور مانتا ہے کہ دنیا جن اخلاقی اور روحانی بحران سے گزر رہی ہے اگر ایسے بد ترین حالات
میں بھی ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر آپ کے اخلاق حسنہ کو اپنے لیے حرزجاں بنا لیا جائے۔
تو آج بھی قوم مسلم دونوں جہان میں کام یاب وسرخرو ہو سکتی ہے اور پوری دنیا میں اخوت ومحبت اور امن وبھائی چارہ کی فضا قائم ہوسکتی ہے۔
ہمیں اپنے وعظ ونصیحت کی محفلوں میں اولیاے کرام کی کرامات وفضائل کے تذکروں کے ساتھ ان امن ومحبت کے متوالوں کے اخلاق حسنہ،تعلیمات وارشادات اور استقامت وصبر کا بھی خوب خوب چرچا کرنا چاہئے ۔
تاکہ عوام الناس فضائل ومناقب کے ساتھ ان مذکورہ چیزوں سے بھی واقف ہوں اور اپنے آپ کو ان صوفیاے کرام کی تعلیمات و ارشادات کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔
از قلم : نعیم الدین فیضی برکاتی ،ریسرچ اسکالر
اعزازی ایڈیٹر:ہماری آواز مہراج گنج
پرنسپل : دارالعلوم برکات غریب نواز احمد نگر کٹنی(ایم۔پی)
9792642810
mohdnaeemb@gmail.com
Pingback: کیوں رضا آج گلی سونی ہے ⋆ افکار رضا کیوں رضا آج گلی سونی ہے
Pingback: امام احمد رضا اور تصور تعلیم ⋆ افکار رضا ⋆ از : غلام مصطفیٰ رضوی
Pingback: نششت براے تعزیت و ایصال ثواب ⋆ افکار رضا مفتی مطیع الرحمن مضطر رضوی