شملہ کی مسجد

Spread the love

شملہ کی مسجد !!*

غلام مصطفےٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی

اپنی ٹھنڈک اور سکون کے لیے مشہور شملہ(shimla) ان دنوں مسلم دشمنی کی آگ میں سلگ رہا ہے۔پر سکون وادیاں بھڑکاؤ نعروں سے گونج رہی ہیں۔یہ سارا ہنگامہ شملہ سے آٹھ کلو میٹر دور آباد سنجولی نامی شہر میں چل رہا ہے۔

جہاں ہندو عوام ایک مسجد کو منہدم کرنے کے لیے پولیس سے ٹکرا رہے ہیں۔شکر ہے کہ اب تک پولیس نے طاقت کا استعمال کرکے ہجوم کو روک رکھا ہے، اگر پولیس ذرا بھی کمزور پڑی یا بھیڑ ذرا سی بھاری پڑی تو دن کے اجالے میں ایک اور مسجد شہید کر دی جائے گی۔

معاملہ کیا ہے؟

شملہ سے محض آٹھ کلو میٹر دوری پر سب ڈویژن شہر سنجولی(sanjauli)آباد ہے۔یہاں اگست 2024 میں دو لوگوں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا۔جس میں ان کے دوست بھی شامل تھے۔

ایک شخص کو کچھ چوٹیں آئیں، جو اتفاق سے مقامی اور ہندو تھا جب کہ پیٹنے والے لڑکے بنیادی طور پر بغل کی ریاست سے تھے اور مسلمان تھے۔دوران مار پیٹ مسلمان لڑکے بچنے کے لیے مسجد میں گھس گیے۔

پولیس نے بروقت کاروائی کی اور پیٹنے والے لڑکوں کو گرفتار کر لیا۔اسی معمولی جھگڑے کو شدت پسندوں نے ہندو مسلم منافرت کا روپ دے کر مسجد کو نشانے پر لے لیا۔دو ستمبر کو ہندو عوام کو مشتعل کرکے مسجد کے سامنے ہنومان چالیسا کا پاٹھ کیا۔

اور اب مسجد کو غیر قانونی بتاتے ہوئے اسے شہید کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔مقامی مسلمانوں اور وقف بورڈ کے مطابق مسجد وقف کی زمین پر بنی ہے۔فی الحال مسجد پانچ منزلہ عمارت میں قائم ہے۔مسجد کی ایک دیوار اور اوپر کی منزلوں پر 2010 میں قانونی منظوری کو لیکر تنازعہ ہوا تھا جس کا مقدمہ میونسپلٹی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔مقدمے کو چلتے ہوئے چودہ سال گزر گیے، آج تک کوئی ہنگامہ یا تنازع نہیں ہوا، کیوں کہ سارا معاملہ مسجد انتظامیہ اور میونسپلٹی کے مابین تھا لیکن اچانک ہوئے اس جھگڑے کو بنیاد بنا کر مسسلمانوں کے خلاف ایک بڑا محاذ کھول دیا گیا ہے۔

یہ کون سی ذہنیت ہے؟

حالیہ معاملہ دو لوگوں کے درمیان مارپیٹ کا تھا جسے زبردستی دو مذہبوں کے درمیان کشیدگی بنا دیا گیا۔مسجد کا معاملہ چودہ سال سے کورٹ میں زیر سماعت ہے مگر ہندو عوام کورٹ کی پرواہ کیے بغیر خود مسجد گرانا چاہتے ہیں، آخر کیوں؟ کیا صرف اس لیے کہ ہماچل پردیش میں ہندو پچانوے(%95) فیصد اور مسلمان محض دو فیصد ہیں۔یہ انصاف کا مطالبہ نہیں اپنی تعداد کا گھمنڈ ہے جس کی وجہ سے ہندو عوام پولیس تک کو پتھر مار رہے ہیں۔انہیں صوبے کی حکومت پر یقین ہے نہ کچہری میں بیٹھے ہوئے ججوں پر

حالاں کہ دونوں ہی جگہ ان کے ہی ہم مذہب لوگ ہیں۔اس کے باوجود شدت پسندوں کا ہجوم حکومت/عدالت سب کو بالاے طاق رکھ کر طاقت کے زور پر فیصلہ کرنا چاہتا ہے۔احتجاجی مظاہرین کے نعرے ان کی ذہنیت کا کھلا اعلان کر رہے ہیں کہ معاملہ مارپیٹ کا ہے نہ غیر قانونی تعمیر کا، اصل معاملہ مسلمانوں کو ہماچل پردیش سے بے دخل کرنے کا ہے، اسی لیے احتجاجی مظاہرین ایسے نفرت انگیز نعرے لگا رہے ہیں؛آگیے ہیں ویر شوا جیبھاگیں گے اب ملا قاضی دیو بھومی کو بچانا ہےمُلّوں کو بھگانا ہے

کوئی بتائے گا کہ یہ نعرے کس ذہنیت کے تحت لگائے جارہے ہیں؟ہماچل پردیش ہندوستان کا حصہ نہیں ہے، یا یوپی اور بنگال امریکہ کا حصہ ہیں، جو یہاں کے لوگ وہاں کاروبار نہیں کر سکتے، آباد نہیں ہو سکتے؟مَن میں چھپی اسلام دشمنی کو لوگوں کے آپسی جھگڑے یا کسی عمارت کے مقدمے کی آڑ میں نکالنا، مذہب کی بنیاد پر علاحدگی پسندی کا راگ الاپنا، مسلمانوں ہی کا نہیں اس ملک کا نقصان ہے۔کیا ہماچل پردیش کے لوگ دہلی، ممبئی اور ملک کے دوسرے حصوں میں کام نہیں کرتے؟

اگر کل دوسرے صوبوں کے لوگ بھی یہی رویہ اپنا لیں تو کیا ہوگا؟ہماچل جانے والے ٹورسٹ ہوں، یا ہماچلی سیب کے کاروباری، دونوں ہی میں اکثریت دوسرے صوبوں کے عوام اور کاروباریوں کی ہے، جن میں مسلمان بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں، اگر نفرت کی لپٹیں ان تک پہنچ گئیں تو اس میں نقصان کس کا ہوگا؟ یاد رکھیں!ملک کا کوئی بھی حصہ کسی کی تنہا جاگیر نہیں ہے۔

یہ ملک یہاں موجود ہر مذہب کے پیروکاروں کا ہے۔ہندو ہو یا مسلمان، سکھ ہو یا عیسائی، اس لیے تعداد کے زور پر دہشت گردی بند کریں۔خود بھی سکون سے رہیں اور دوسروں کو بھی سکون سے رہنے دیں۔لا اینڈ آرڈر عوام کا نہیں حکومت اور عدالتوں کا مسئلہ ہے۔انہیں پر چھوڑ دیں۔اسی میں ملک کی بھلائی اور ترقیہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *