ظلم اور عدل کی جنگ
ظلم اور عدل کی جنگ
ودود ساجد
(انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)
ظلم اور عدل کی جنگ ودود ساجد (انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل) یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے کہ ’منی پور‘ کی ہزیمت سے بچنے کے لیے ’نوح‘ کو آگ لگادی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ جن عناصر نے ’منی پور‘ کو برہنہ کرکے آگ اور خون کے حوالہ کیا تھا ’نوح‘ کو بھی انہی عناصر نے ’یاترا کے پردہ‘ میں آگ اور خون کے حوالہ کیا ہے۔۔
پچھلے چند برسوں کے احوال کا جائزہ بتاتا ہے کہ ایک ’آتش زنی‘ پر اٹھنے والے سوالات سے بچنے کے لیے دوسری ’آتش زنی‘ کرادی جاتی ہے۔ منی پور اور نوح‘ دراصل دو مختلف اقلیتی طبقات کو سبق سکھانے کے سلسلہ کی توسیع ہیں۔
منی پور اور نوح کے واقعات کے بعد متاثرین کی گرفتاری اور شرپسندوں کی آزادی اس امر کا ثبوت ہے کہ اس کھیل کو کھلے طور پر ارباب اقتدار کی سرپرستی حاصل ہے۔ آگ اور خون کے اس کھیل پر سیاسی طور پر جو اقدام قدغن لگا سکتا تھا ابھی مظلوموں کو اس اقدام کی ’سہولت‘ حاصل نہیں ہے۔
مختلف اسباب سے ان کی غیر سیاسی قیادت ایک پلیٹ فارم پر آکر کوئی لایحہ عمل ترتیب نہیں دے سکی۔ ہم اپنی قیادت کو لعن طعن کرتے رہنے کے حق میں نہیں ہیں۔بعض جماعتیں اور ان کے قائدین‘ ماخوذ اور متاثر افراد کیلئے راحت کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی کم خدمت نہیں ہے کہ متاثرین کو مالی اور قانونی مدد پہنچائی جائے۔
لیکن حکومتوں اور انتظامیہ کو قانون کی پاسداری پر مجبور کرنے کیلئے جس ’متحدہ گروپ‘ کی ضرورت ہے وہ گروپ تشکیل نہیں پاسکا ہے۔
مسلمان سیاسی محاذ آرائی کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔لے دے کر ان کے پاس ایک قانونی راستہ عدالت کا رہ جاتا ہے۔اس ضمن میں بعض جماعتیں اور قائدین کام کر رہے ہیں لیکن ان سے زیادہ کام غیر مسلم طبقات پر مشتمل دوسرے عناصر کر رہے ہیں۔۔ حالات کی گتھی اتنی الجھ گئی ہے کہ اب سلجھنے کی ہر صورت مشکوک نظر آتی ہے۔ اس وقت ’ظلم اور عدل‘ کے درمیان کشمکش اور جنگ جاری ہے۔
ان دونوں عناصر کے درمیان مظلوم طبقات کبھی امید کی طرف لپکتے ہیں اور کبھی ناامیدی میں گھر جاتے ہیں۔ریاستوں کی ہائی کورٹس کو آئین نے بے پناہ اختیارات دئے ہیں۔کوئی ہائی کورٹ ان اختیارات کا استعمال کرتی ہے تو کوئی ہائی کورٹ ان اختیارات سے دستکش ہوجاتی ہے۔
سیاسی طور پر مظلوموں کی آواز بلند کرنے کی سب سے بڑی اور ممتاز جگہ پارلیمنٹ ہے۔ لیکن اب وہاں آواز اٹھانے کی پاداش میں ممبر کو براہ راست معطل ہی کردیا جاتا ہے۔تقریر کے دوران مائک بند ہوجانا تو ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ایوان کو ’منظم‘ کرنے والے اسپیکر سیاسی تبصرے کرنے لگے ہیں۔ حالانکہ انہیں گروہی سیاست سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔
راجیہ سبھا آج کل اس مرض کی سب سے زیادہ شکار ہے۔اپوزیشن کو کسی مسئلہ پر وزیر اعظم سے بیان دلوانے کے لیے ’عدم اعتماد‘ کی تحریک پیش کرنی پڑتی ہے۔اس پر بھی مطلوبہ بیان آتا نہیں ہے۔ ایک دہائی پہلے مذہبی اور سیاسی قائدین جمع ہوکر مسلمانوں کے مسائل پر بات کرنے کیلئے ارباب اقتدار سے ملنے چلے جاتے تھے۔ اب یہ روایت معدوم ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ اب سب کا مل بیٹھنا ہی کار عظیم ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ اب ارباب اقتدار سے مل کر کوئی فائدہ نہیں ہے۔
مجھے ’آف دی ریکارڈ‘ کہی ہوئی باتوں کو بیان کرنے میں تردد ہوتا ہے لیکن بعض بااثر قائدین نجی محفلوں میں یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ یہ حکومت اپنے خلاف بولنے والوں کو ’خاموش‘ کرانے کیلئے کسی بھی حد تک چلی جاتی ہے۔
ایسے میں مسلمانوں کے پاس اور خاص طور پر مظلوم مسلمانوں کے پاس راستہ کیا رہ جاتا ہے؟ ظاہر ہے کہ عدلیہ کے سوا ابھی کوئی اور راستہ بظاہر ہے بھی نہیں۔مسلمانوں اور حکومت سے متعلق مختلف ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے کئی فیصلے اور تبصرے بہت حوصلہ افزاء آئے ہیں۔اس وقت ملک کے چیف جسٹس کی شخصیت کے بارے میں صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ وہ انتہائی قابل‘ بے خوف اور کشادہ ذہن انسان ہیں۔
یہ ایک فطری بات ہے کہ کسی بھی ادارہ کے سربراہ کے افکار کے مطابق ہی ادارہ کے دوسرے کارندے اپنا رخ طے کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں اس وقت قومی سطح کے کئی اہم معاملات پر سماعت جاری ہے۔کچھ معاملات مسلمانوں سے متعلق بھی ہیں۔ان میں منافرت انگیزی اور بلقیس بانو کا معاملہ بھی شامل ہے۔ دفعہ 370 پر پانچ ججوں کی آئینی بنچ سماعت کر رہی ہے۔ اتفاق یہ ہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی والی اس بنچ کے باقی چاروں جج یکے بعد دیگرے چیف جسٹس کا منصب بھی سنبھالیں گے۔
گزشتہ 11اگست کو نفرت انگیزی کے اشو پر حکومت کی سرزنش کرنے‘ نفرت انگیزی کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے کمیٹی بنانے اور نوح کے معاملات میں نفرت انگیز تقریروں کی ویڈیوز وغیرہ کو محفوظ رکھنے کے احکامات دینے والی بنچ کے سربراہ جسٹس سنجیو کھنہ بھی چیف جسٹس کا منصب سنبھالیں گے۔ بلقیس بانو کے مجرموں کی 14سال کے بعد ہونے والی رہائی کے خلاف جسٹس بی وی ناگرتھنا کی قیادت والی بنچ سماعت کر رہی ہے۔
اگلے چند برسوں میں وہ بھی چیف جسٹس کا منصب سنبھالیں گی۔ جسٹس ناگرتھنا اپنا اختلافی فیصلہ بے خوف ہوکر لکھتی ہیں۔
نوٹ بندی کو جائز قرار دینے والی بنچ کے سربراہ جسٹس عبدالنذیر اس فیصلہ کے محض ایک ماہ بعد ہی گورنر بنادئے گئے لیکن جسٹس ناگرتھنا نے نوٹ بندی کے خلاف اپنا فیصلہ الگ سے لکھا اور اسے سراسر غیر آئینی قرار دیا۔ بلقیس بانو کی سماعت کے دوران بھی ان کے تبصرے حکومت اور مجرموں پر بھاری پڑ رہے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ موجودہ ارباب اقتدار کے زمانے میں مظلوم طبقات کو اگر کوئی راحت ملے گی تو وہ عدلیہ سے ہی ملے گی۔ تازہ معاملہ ہریانہ کے نوح اور گڑگائوں شہر کا ہے۔
یہاں یکطرفہ طور پر مسلمانوں کی املاک کو بلڈوزر کے ذریعہ زمین دوز کیا جارہا تھا۔ 7 اگست کوجسٹس جی ایس سندھاوالیہ اور جسٹس ہرپریت کور جیون کی بنچ نے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں اور رپورٹوں کی بنیاد پر از خود نوٹس لے کر سماعت کی اور انتہائی سخت تبصروں کے ساتھ مسلمانوں کی املاک کے انہدام پر فوری طور پر پابندی عاید کردی۔ عدالت نے اپنے حکم نامہ میں جو سخت تبصرے کئے وہ عدیم المثال ہیں۔
مثال کے طور پر فیصلہ میں انہدام پر فوری طور پر روک لگاتے ہوئے سوال کیا گیا کہ کیا ’یہ نسلی صفائے کی مشق‘ کی جارہی ہے؟۔مجھے یاد نہیں کہ ملک کی کسی عدالت نے کبھی اتنا واضح اور سخت تبصرہ حکومت پر کیا ہو۔
اپنے فیصلہ میں بنچ نے لکھاکہ: یہاں یہ سوال بھی کھڑا ہورہا ہے کہ آیا ایک خاص فرقہ سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی عمارتوں اور املاک کو لا اینڈ آرڈر کے بہانے منہدم کیا جارہا ہے اور یہ کہ ریاستی حکومت کے ذریعہ نسلی صفائے کی مشق کی جارہی ہے؟۔‘‘ عدالت نے اخبارات میں شائع ہریانہ کے وزیر داخلہ انل وج کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’بلڈوزر فسادیوں کا علاج ہے‘۔
عدالت نے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ: اقتدار بدعنوانی کی طرف مائل کرتا ہے اور مکمل اقتدار مکمل بدعنوان بنادیتا ہے۔‘ عدالت نے لکھا کہ ان حالات و واقعات کی روشنی میں ہم اس پر مجبور ہیں کہ حکومت کو گڑگائوں اور نوح میں فساد کو کنٹرول کرنے کے نام پر طاقت کے استعمال اور انہدام کے خلاف نوٹس جاری کریں۔عدالت نے مزید لکھا کہ ’ہم اس پختہ خیال کے ہیں کہ آئین ہند اس ملک کے ہر شہری کا تحفظ کرتا ہے اور اس طرح قانونی طریقہ اختیار کئے بغیر کوئی بھی انہدامی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔
‘عدالت نے حکومت ہریانہ کو حلف نامہ داخل کرکے یہ بتانے کی بھی ہدایت دی کہ ’نوح اور گڑگائوں میں پچھلے دو ہفتوں میں کتنی عمارتیں منہدم کی گئیں اور یہ کہ انہدامی کارروائی سے پہلے کیا کوئی نوٹس بھی دیا گیا تھا۔ عدالت نے مزید لکھا کہ آج (7 اگست کو) بھی اگر نوٹس کے بغیر کوئی انہدامی کارروائی جاری ہے تو اسے فوری طور پر روک دیا جائے۔
عدالت نے اگلی سماعت کی تاریخ 11 اگست مقرر کی تھی۔۔۔ اب یہاں ٹھہر کر ذرا ایک جائزہ مسلم معاشرہ کے ان سوشل میڈیا پہلوانوں کا لیاجانا ضروری ہے جوعدالتوں کے ذریعہ آنے والے فیصلوں اور تبصروں پر احمقانہ‘ عامیانہ اور جاہلانہ تبصرے کرتے ہیں۔ انہیں کوئی سمجھانے والا نہیں ہے کہ عدالتوں میں بھی انسان ہی بیٹھے ہیں‘ ان تک بھی یہ تبصرے پہنچتے ہیں اور ان پر بھی عوامی طور پر کہی ہوئی باتوں کا اثر ہوتا ہے۔
میں ایک عرصہ سے ان ’پہلوانوں‘ اور سورمائوں سے کہتا آرہا ہوں کہ حالات کی نزاکت کو سمجھنا بہت ضروری ہے لیکن کچھ عاقبت نااندیشوں نے جذباتی تبصروں کو ہی سب سے بڑی دینی اور ملی خدمت سمجھ لیا ہے۔ اس عادت قبیحہ کے نتیجہ میں ہماری کئی اہم شخصیات قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا ہیں۔ نہ جانے کتنے نوجوانوں کو ملک کے طول و عرض میں ماخوذ کردیا گیا ہے۔ جو جماعتیں ایسے ماخوذ مسلم نوجوانوں کے اہل خانہ کا خیال رکھ رہی ہیں ان سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ احوال کس حد تک خراب ہوگئے ہیں۔
پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلہ پر بھی مسلمانوں کے ان سورمائوں نے‘جن میں نیم خواندہ ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے اور نوجوان فضلاء تک شامل ہیں‘ انتہائی احمقانہ تبصرے کئے۔ ان تبصرو ں کو ہم یہاں نقل نہیں کر رہے ہیں۔ یہاں ’سوئوموٹو‘ یا از خود نوٹس لینے کے تعلق سے ایک وضاحت ضروری ہے: متعلقہ ہائی کورٹ کی کوئی بھی بنچ کسی اہم معاملہ کا از خود نوٹس لے کر فوری طور پر سماعت کرتی ہے اور عارضی طور پر مطلوبہ احکامات جاری کرتی ہے۔
اس کے بعد اس معاملہ کو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے رکھاجاتا ہے۔ چونکہ چیف جسٹس ہی بنچ تشکیل دیتا ہے اس لیے اس معاملہ کی مزید سماعت کیلئے بھی وہی بنچ تشکیل دیتا ہے۔
ضروری نہیں کہ جس بنچ نے از خود نوٹس لے کر ابتدائی احکامات جاری کئے اسی کو مزید سماعت کرنے کیلئے نامزد کیا جائے۔ پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس چھٹی پر ہیں۔ لہذا رجسٹری نے دوسری بنچ کے سامنے معاملہ بھیج دیا۔اس نئی بنچ نے اس پر سماعت نہیں کی اور اگلے جمعہ کو چیف جسٹس کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا۔ لہذا یہ ایک معمول کا واقعہ تھا۔ لیکن اس واقعہ پر بھی منفی تبصرے کئے گئے۔
قانونی صورت حال یہ ہے کہ پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ کی مذکورہ بنچ نے جو فیصلہ کیا ہے اور جو تبصرے کئے ہیں وہ من وعن باقی ہیں۔اسی وجہ سے ہریانہ حکومت اب شرپسندوں کے خلاف بھی‘ دکھانے کو ہی سہی‘ کارروائی کر رہی ہے۔ یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ عدالتیں صرف آئین اور قانون کی پابند ہیں۔
ان کے ذمہ ملک کا نظام چلانا نہیں ہے۔ملک کا نظام جن کے ہاتھوں میں ہے وہ آئینی بنچوں تک کے فیصلوں کا اثر زائل کرنے کے لیے آرڈننس اور بل لا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی عدلیہ کو زیر اثر لینے کی ایک کوشش ہے۔
ایسے میں اگر کچھ عدالتیں اور کچھ جج حضرات ظلم کے خلاف مظلوموں کے حق میں فیصلے دے رہے ہیں تو انہیں ہماری ستائش کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ستائش نہیں کرسکتے تو خاموش رہنا چاہیے لیکن ان پر منفی تبصرے عافیت کے اس واحد راستے کو بھی بند کردیں گے جو مظلوموں کیلئے ابھی تک کھلا ہوا ہے۔۔۔۔
یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے کہ ’منی پور‘ کی ہزیمت سے بچنے کے لیے ’نوح‘ کو آگ لگادی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ جن عناصر نے ’منی پور‘ کو برہنہ کرکے آگ اور خون کے حوالہ کیا تھا ’نوح‘ کو بھی انہی عناصر نے ’یاترا کے پردہ‘ میں آگ اور خون کے حوالہ کیا ہے۔۔
پچھلے چند برسوں کے احوال کا جائزہ بتاتا ہے کہ ایک ’آتش زنی‘ پر اٹھنے والے سوالات سے بچنے کے لیے دوسری ’آتش زنی‘ کرادی جاتی ہے۔ منی پور اور نوح‘ دراصل دو مختلف اقلیتی طبقات کو سبق سکھانے کے سلسلہ کی توسیع ہیں۔ منی پور اور نوح کے واقعات کے بعد متاثرین کی گرفتاری اور شرپسندوں کی آزادی اس امر کا ثبوت ہے کہ اس کھیل کو کھلے طور پر ارباب اقتدار کی سرپرستی حاصل ہے۔
آگ اور خون کے اس کھیل پر سیاسی طور پر جو اقدام قدغن لگا سکتا تھا ابھی مظلوموں کو اس اقدام کی ’سہولت‘ حاصل نہیں ہے۔ مختلف اسباب سے ان کی غیر سیاسی قیادت ایک پلیٹ فارم پر آکر کوئی لایحہ عمل ترتیب نہیں دے سکی۔ ہم اپنی قیادت کو لعن طعن کرتے رہنے کے حق میں نہیں ہیں۔بعض جماعتیں اور ان کے قائدین‘ ماخوذ اور متاثر افراد کے لیے راحت کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی کم خدمت نہیں ہے کہ متاثرین کو مالی اور قانونی مدد پہنچائی جائے۔
لیکن حکومتوں اور انتظامیہ کو قانون کی پاسداری پر مجبور کرنے کیلئے جس ’متحدہ گروپ‘ کی ضرورت ہے وہ گروپ تشکیل نہیں پاسکا ہے۔
مسلمان سیاسی محاذ آرائی کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔لے دے کر ان کے پاس ایک قانونی راستہ عدالت کا رہ جاتا ہے۔اس ضمن میں بعض جماعتیں اور قائدین کام کر رہے ہیں لیکن ان سے زیادہ کام غیر مسلم طبقات پر مشتمل دوسرے عناصر کر رہے ہیں۔۔
حالات کی گتھی اتنی الجھ گئی ہے کہ اب سلجھنے کی ہر صورت مشکوک نظر آتی ہے۔ اس وقت ’ظلم اور عدل‘ کے درمیان کشمکش اور جنگ جاری ہے۔ان دونوں عناصر کے درمیان مظلوم طبقات کبھی امید کی طرف لپکتے ہیں اور کبھی ناامیدی میں گھر جاتے ہیں۔ریاستوں کی ہائی کورٹس کو آئین نے بے پناہ اختیارات دئے ہیں۔کوئی ہائی کورٹ ان اختیارات کا استعمال کرتی ہے تو کوئی ہائی کورٹ ان اختیارات سے دستکش ہوجاتی ہے۔
سیاسی طور پر مظلوموں کی آواز بلند کرنے کی سب سے بڑی اور ممتاز جگہ پارلیمنٹ ہے۔ لیکن اب وہاں آواز اٹھانے کی پاداش میں ممبر کو براہ راست معطل ہی کردیا جاتا ہے۔تقریر کے دوران مائک بند ہوجانا تو ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ایوان کو ’منظم‘ کرنے والے اسپیکر سیاسی تبصرے کرنے لگے ہیں۔ حالانکہ انہیں گروہی سیاست سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہئے۔ راجیہ سبھا آج کل اس مرض کی سب سے زیادہ شکار ہے۔اپوزیشن کو کسی مسئلہ پر وزیر اعظم سے بیان دلوانے کے لیے ’عدم اعتماد‘ کی تحریک پیش کرنی پڑتی ہے۔اس پر بھی مطلوبہ بیان آتا نہیں ہے۔
ایک دہائی پہلے مذہبی اور سیاسی قائدین جمع ہوکر مسلمانوں کے مسائل پر بات کرنے کیلئے ارباب اقتدار سے ملنے چلے جاتے تھے۔ اب یہ روایت معدوم ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ اب سب کا مل بیٹھنا ہی کار عظیم ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ اب ارباب اقتدار سے مل کر کوئی فائدہ نہیں ہے۔ مجھے ’آف دی ریکارڈ‘ کہی ہوئی باتوں کو بیان کرنے میں تردد ہوتا ہے لیکن بعض بااثر قائدین نجی محفلوں میں یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ یہ حکومت اپنے خلاف بولنے والوں کو ’خاموش‘ کرانے کیلئے کسی بھی حد تک چلی جاتی ہے۔
ایسے میں مسلمانوں کے پاس اور خاص طور پر مظلوم مسلمانوں کے پاس راستہ کیا رہ جاتا ہے؟ ظاہر ہے کہ عدلیہ کے سوا ابھی کوئی اور راستہ بظاہر ہے بھی نہیں۔مسلمانوں اور حکومت سے متعلق مختلف ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے کئی فیصلے اور تبصرے بہت حوصلہ افزاء آئے ہیں۔اس وقت ملک کے چیف جسٹس کی شخصیت کے بارے میں صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ وہ انتہائی قابل‘ بے خوف اور کشادہ ذہن انسان ہیں۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ کسی بھی ادارہ کے سربراہ کے افکار کے مطابق ہی ادارہ کے دوسرے کارندے اپنا رخ طے کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں اس وقت قومی سطح کے کئی اہم معاملات پر سماعت جاری ہے۔کچھ معاملات مسلمانوں سے متعلق بھی ہیں۔ان میں منافرت انگیزی اور بلقیس بانو کا معاملہ بھی شامل ہے۔ دفعہ 370 پر پانچ ججوں کی آئینی بنچ سماعت کر رہی ہے۔ اتفاق یہ ہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی والی اس بنچ کے باقی چاروں جج یکے بعد دیگرے چیف جسٹس کا منصب بھی سنبھالیں گے۔
گزشتہ 11اگست کو نفرت انگیزی کے اشو پر حکومت کی سرزنش کرنے‘ نفرت انگیزی کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے کمیٹی بنانے اور نوح کے معاملات میں نفرت انگیز تقریروں کی ویڈیوز وغیرہ کو محفوظ رکھنے کے احکامات دینے والی بنچ کے سربراہ جسٹس سنجیو کھنہ بھی چیف جسٹس کا منصب سنبھالیں گے۔ بلقیس بانو کے مجرموں کی 14سال کے بعد ہونے والی رہائی کے خلاف جسٹس بی وی ناگرتھنا کی قیادت والی بنچ سماعت کر رہی ہے۔اگلے چند برسوں میں وہ بھی چیف جسٹس کا منصب سنبھالیں گی۔
جسٹس ناگرتھنا اپنا اختلافی فیصلہ بے خوف ہوکر لکھتی ہیں۔ نوٹ بندی کو جائز قرار دینے والی بنچ کے سربراہ جسٹس عبدالنذیر اس فیصلہ کے محض ایک ماہ بعد ہی گورنر بنادئے گئے لیکن جسٹس ناگرتھنا نے نوٹ بندی کے خلاف اپنا فیصلہ الگ سے لکھا اور اسے سراسر غیر آئینی قرار دیا۔ بلقیس بانو کی سماعت کے دوران بھی ان کے تبصرے حکومت اور مجرموں پر بھاری پڑ رہے ہیں۔
یہ واضح ہے کہ موجودہ ارباب اقتدار کے زمانے میں مظلوم طبقات کو اگر کوئی راحت ملے گی تو وہ عدلیہ سے ہی ملے گی۔ تازہ معاملہ ہریانہ کے نوح اور گڑگائوں شہر کا ہے۔یہاں یکطرفہ طور پر مسلمانوں کی املاک کو بلڈوزر کے ذریعہ زمین دوز کیا جارہا تھا۔ 7 اگست کوجسٹس جی ایس سندھاوالیہ اور جسٹس ہرپریت کور جیون کی بنچ نے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں اور رپورٹوں کی بنیاد پر از خود نوٹس لے کر سماعت کی اور انتہائی سخت تبصروں کے ساتھ مسلمانوں کی املاک کے انہدام پر فوری طور پر پابندی عاید کردی۔
عدالت نے اپنے حکم نامہ میں جو سخت تبصرے کئے وہ عدیم المثال ہیں۔ مثال کے طور پر فیصلہ میں انہدام پر فوری طور پر روک لگاتے ہوئے سوال کیا گیا کہ کیا ’یہ نسلی صفائے کی مشق‘ کی جارہی ہے؟۔مجھے یاد نہیں کہ ملک کی کسی عدالت نے کبھی اتنا واضح اور سخت تبصرہ حکومت پر کیا ہو۔اپنے فیصلہ میں بنچ نے لکھاکہ: یہاں یہ سوال بھی کھڑا ہورہا ہے کہ آیا ایک خاص فرقہ سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی عمارتوں اور املاک کو لا اینڈ آرڈر کے بہانے منہدم کیا جارہا ہے اور یہ کہ ریاستی حکومت کے ذریعہ نسلی صفائے کی مشق کی جارہی ہے؟۔‘‘
عدالت نے اخبارات میں شائع ہریانہ کے وزیر داخلہ انل وج کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’بلڈوزر فسادیوں کا علاج ہے‘۔ عدالت نے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ: اقتدار بدعنوانی کی طرف مائل کرتا ہے اور مکمل اقتدار مکمل بدعنوان بنادیتا ہے۔‘ عدالت نے لکھا کہ ان حالات و واقعات کی روشنی میں ہم اس پر مجبور ہیں کہ حکومت کو گڑگائوں اور نوح میں فساد کو کنٹرول کرنے کے نام پر طاقت کے استعمال اور انہدام کے خلاف نوٹس جاری کریں۔
عدالت نے مزید لکھا کہ ’ہم اس پختہ خیال کے ہیں کہ آئین ہند اس ملک کے ہر شہری کا تحفظ کرتا ہے اور اس طرح قانونی طریقہ اختیار کئے بغیر کوئی بھی انہدامی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔
‘عدالت نے حکومت ہریانہ کو حلف نامہ داخل کرکے یہ بتانے کی بھی ہدایت دی کہ ’نوح اور گڑگائوں میں پچھلے دو ہفتوں میں کتنی عمارتیں منہدم کی گئیں اور یہ کہ انہدامی کارروائی سے پہلے کیا کوئی نوٹس بھی دیا گیا تھا۔ عدالت نے مزید لکھا کہ آج (7 اگست کو) بھی اگر نوٹس کے بغیر کوئی انہدامی کارروائی جاری ہے تو اسے فوری طور پر روک دیا جائے۔عدالت نے اگلی سماعت کی تاریخ 11 اگست مقرر کی تھی۔۔۔
اب یہاں ٹھہر کر ذرا ایک جائزہ مسلم معاشرہ کے ان سوشل میڈیا پہلوانوں کا لیاجانا ضروری ہے جوعدالتوں کے ذریعہ آنے والے فیصلوں اور تبصروں پر احمقانہ‘ عامیانہ اور جاہلانہ تبصرے کرتے ہیں۔ انہیں کوئی سمجھانے والا نہیں ہے کہ عدالتوں میں بھی انسان ہی بیٹھے ہیں‘ ان تک بھی یہ تبصرے پہنچتے ہیں اور ان پر بھی عوامی طور پر کہی ہوئی باتوں کا اثر ہوتا ہے۔
میں ایک عرصہ سے ان ’پہلوانوں‘ اور سورمائوں سے کہتا آرہا ہوں کہ حالات کی نزاکت کو سمجھنا بہت ضروری ہے لیکن کچھ عاقبت نااندیشوں نے جذباتی تبصروں کو ہی سب سے بڑی دینی اور ملی خدمت سمجھ لیا ہے۔ اس عادت قبیحہ کے نتیجہ میں ہماری کئی اہم شخصیات قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا ہیں۔ نہ جانے کتنے نوجوانوں کو ملک کے طول و عرض میں ماخوذ کردیا گیا ہے۔
جو جماعتیں ایسے ماخوذ مسلم نوجوانوں کے اہل خانہ کا خیال رکھ رہی ہیں ان سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ احوال کس حد تک خراب ہوگئے ہیں۔ پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلہ پر بھی مسلمانوں کے ان سورمائوں نے‘جن میں نیم خواندہ ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے اور نوجوان فضلاء تک شامل ہیں‘ انتہائی احمقانہ تبصرے کئے۔ ان تبصرو ں کو ہم یہاں نقل نہیں کر رہے ہیں۔
یہاں ’سوئوموٹو‘ یا از خود نوٹس لینے کے تعلق سے ایک وضاحت ضروری ہے: متعلقہ ہائی کورٹ کی کوئی بھی بنچ کسی اہم معاملہ کا از خود نوٹس لے کر فوری طور پر سماعت کرتی ہے اور عارضی طور پر مطلوبہ احکامات جاری کرتی ہے۔اس کے بعد اس معاملہ کو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے رکھاجاتا ہے۔ چونکہ چیف جسٹس ہی بنچ تشکیل دیتا ہے اس لئے اس معاملہ کی مزید سماعت کیلئے بھی وہی بنچ تشکیل دیتا ہے۔
ضروری نہیں کہ جس بنچ نے از خود نوٹس لے کر ابتدائی احکامات جاری کئے اسی کو مزید سماعت کرنے کیلئے نامزد کیا جائے۔
پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس چھٹی پر ہیں۔ لہذا رجسٹری نے دوسری بنچ کے سامنے معاملہ بھیج دیا۔اس نئی بنچ نے اس پر سماعت نہیں کی اور اگلے جمعہ کو چیف جسٹس کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا۔ لہذا یہ ایک معمول کا واقعہ تھا۔ لیکن اس واقعہ پر بھی منفی تبصرے کئے گئے۔ قانونی صورتحال یہ ہے کہ پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ کی مذکورہ بنچ نے جو فیصلہ کیا ہے اور جو تبصرے کئے ہیں وہ من وعن باقی ہیں۔اسی وجہ سے ہریانہ حکومت اب شرپسندوں کے خلاف بھی‘ دکھانے کو ہی سہی‘ کارروائی کر رہی ہے۔
یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ عدالتیں صرف آئین اور قانون کی پابند ہیں۔ان کے ذمہ ملک کا نظام چلانا نہیں ہے۔ملک کا نظام جن کے ہاتھوں میں ہے وہ آئینی بنچوں تک کے فیصلوں کا اثر زائل کرنے کیلئے آرڈننس اور بل لا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی عدلیہ کو زیر اثر لینے کی ایک کوشش ہے۔
ایسے میں اگر کچھ عدالتیں اور کچھ جج حضرات ظلم کے خلاف مظلوموں کے حق میں فیصلے دے رہے ہیں تو انہیں ہماری ستائش کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ستائش نہیں کرسکتے تو خاموش رہنا چاہئے لیکن ان پر منفی تبصرے عافیت کے اس واحد راستے کو بھی بند کردیں گے جو مظلوموں کے لیے ابھی تک کھلا ہوا ہے۔۔۔۔