کسی کو بھی سیاست کے معیار کو گرنے کی فکر نہیں ہے

Spread the love

از قلم : جاوید اختر بھارتی کسی کو بھی سیاست کے معیار کو گرنے کی فکر نہیں ہے

کسی کو بھی سیاست کے معیار کو گرنے کی فکر نہیں ہے

اترپردیش میں الیکشن کی ہوا چلنے لگی ، بیان بازی ہونے لگی، سیاسی لیڈران ہندو مسلم کی زبان بولنے لگے، مذہبی مقامات پر پہنچنے لگے، مذہبی پیشواؤں، رہ نماؤں سے ملنے لگے مختلف انداز میں داؤ پیچ چلنے لگے صرف ایک مقصد ہے کہ اترپردیش کی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں آجاے

جو اقتدار کا مزا چکھ چکا ہے اس کا پانچ سال دس سال اقتدار سے محروم رہنا کتنا مشکل ہے یہ تو وہی جانتا ہے اور جو صرف لال کارڈ کی سیاست کرے وہ لال بتی کا جلوہ کیا جانے،، جو لال بتی کا جلوہ جانتا ہے وہ آج دن رات پینترے بازی میں مصروف ہے کبھی حلیہ تبدیل کرتا ہے تو کبھی لہجہ تبدیل کرتا ہے

اسے اس بات کا ذرہ برابر احساس نہیں ہوتا ہے کہ سیاست کا معیار گررہا ہے،، بنگال الیکشن میں دیدی دیدی کی اتنی رٹ لگائی گئی کہ خواتین کو احساس ہوگیا کہ یہ تو ہماری توہین کی جارہی ہے اور انہوں نے مخالفت شروع کردی اب باری آئی اترپردیش کی یہاں پر بھی ابا جان کہا گیا

ہر طرف اس جملے اور الفاظ کو لے کر شور شرابے کا ماحول نظر آہی رہا تھا کہ کسان تحریک کے لیڈر راکیش ٹکیت نے چچا جان کا جملہ استعمال کردیا وہ بھی خلاصہ طریقے سے کہ اویسی صاحب بی جے پی کے چچا جان ہیں،، ٹکیت کو اپنے بارے میں بھی بتانا چاہیےکہ وہ کیا ہیں اور کس کے کیا لگتے ہیں

آج کے دور میں سیاسی پارٹیوں کو اور لیڈروں کو سیاست کے معیار کو گرنے کی فکر نہیں ہے تو کم از کم آپ کو تو ہونی چاہیے اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ کس کو کام یابی سے ہم کنار کرانا چاہتے ہیں 2017 اور 2019 میں آپ نے جو کہا وہ بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے

اور لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے یوگی آدتیہ ناتھ جی نے اگر سماجوادی پارٹی کو نشانہ بناتے ہوئے ابا جان کا لفظ استعمال کیا تو وہ خود الیکشن کے میدان میں ہیں اور بی جے پی کی کام یابی کے لیےمحنت کررہے ہیں مگر آپ اویسی کو چچا جان کہہ کر مسلمانوں کا مذاق اڑارہے ہیں یا اندر اندر خود آپ بھی بی جے پی کو ہی مضبوط کرنے کی کوشش کررہے ہیں

اب تو آپ کی کسان تحریک بھی مشکوک نظر آتی ہے کیوں کہ آپ بنگال کے الیکشن میں بھی کودے اور اب اترپردیش کے اسمبلی الیکشن میں بھی کود پڑے سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ آپ کسانوں کے مفاد کے لیے تحریک کی قیادت کررہے ہیں یا اپنی شناخت بنانے کے لیے یا تحریک کو سکوں کے روپ میں بھنانے کے لیے قیادت کررہے ہیں

آج ٹکیت جی کسان مہا پنچایت میں ہر ہر مہا دیو اور اللہ اکبر کا نعرہ لگوا رہے ہیں لیکن کل جب شہریت ترمیمی بل وقانون کو لے کر پورا ملک سراپا احتجاج تھا تو ٹکیت جی نے کہیں پر یہ نعرہ نہیں لگایا اور نہیں تو احتجاج کرنےوالوں کا مذاق اڑایا،، کیوں نہیں شاہین باغ اور دیگر مقامات پر جاکر حمایت کا اعلان کیا

آج شائد آپ راستہ ڈھونڈ رہے ہیں اور تخمینہ لگا رہے ہیں کہ 2022 میں کس کو کام یابی ملے گی اور اسی لیے گول مول سیاست کررہے ہیں یاد رکھیے آپ پہلے جس طرح کے بیانات دے چکے ہیں اور بول چکے ہیں اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں آج بھی مسلمان سوچتا ہے تو اسے تکلیف ہوتی ہے

ہمیں بی جے پی سے گلہ شکوہ نہیں ہے کیوں کہ وہ مسلمانوں سے کوئی وعدہ نہیں کرتی ہے باقی اور پارٹیاں سیکولر بنتی ہیں اور مسلمانوں سے بنا کسی معاہدے کے خود ساختہ وعدہ کرتی ہیں لیکن 2017 سے اب تک سب کے چہرے بے نقاب ہوگیے کوئی سیکولر نہیں ہے

سب اپنے اپنے مفاد میں ایک دوسرے پر الزام عائد کررہی ہیں اور جہاں مسلمانوں کی بات آتی ہے تو سب خاموش نظر آتی ہیں کانگریس دو بک بک میں ہے کہ کھل کر مندر جائیں یا چھپ کر مندر جائیں، کہیں مسلم ووٹ پوری طرح کھسک نہ جائے، کہیں پجاری پوچھ نہ بیٹھے کہ اب تک کہاں تھے

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کانگریس بولتی ہے تو یہی احساس ہوتا ہے کہ نہ جانے کانگریس بول رہی ہے یا اپنی غلطی کا کفارہ ادا کررہی ہے،، کانگریس نے بھی اپنے طویل دور اقتدار میں سب کے ساتھ انصاف کیا ہوتا تو ہندو دلت کی طرح مسلم دلت بھی ایم پی، ایم ایل بنتا

حکومت میں بھی ہوتا انتظامیہ میں بھی ہوتا پھر کوئی سڑکوں کے کنارے زندگی نہیں گزار تا، پھر کوئی چھت اور دیوار سے محروم نہیں رہتا،، تمام سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کو چاہیے کہ سیاست کے معیار کو بلند کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں، ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کریں

کر بھلا تو ہو بھلا

از قلم : جاوید اختر بھارتی

( سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین)

محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

javedbharti508@gmail.com   

ان مضامین کو پڑھ کر ضرور شئیر کریں

بھارت میں جمہوریت ہے پھر بھی مسلمانوں کی سیاسی شناخت کیوں گم

عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات

سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن

شوسل میڈیا بلیک مینگ 

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

 اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے

خطرے میں کون ہے ؟

افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں 

ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں 

हिन्दी में पढ़ने क्लिक करें 

3 thoughts on “کسی کو بھی سیاست کے معیار کو گرنے کی فکر نہیں ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *