نفرت کے ماحول میں ہم محبت پھیلانے والے

Spread the love

نفرت کے ماحول میں ہم محبت پھیلانے والے

بہار شریف میں فساد نے کلیم عاجز کے گاؤں تلہارا کی یاد تازہ کر دی۔ اکتوبر 1946 کا وہ کالا دن اور آج مدرسہ عزیزیہ پر ہوا حملہ عبرت ناک ہے۔

امارت شریعہ کے وفد نے بہار شریف کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کر حقیقت سے ہمیں روبرو کرایا، ہمارے رہنماؤں کو بھی اب صحیح سمجھ کا ثبوت دینا چاہئے

محمد رفیع 9931011524 rafimfp@gmail.com

زخموں میں جب ٹیس اٹھے ہے، تم ہو تو یاد آؤ ہو

ہم تم کو پہچان رہے ہیں، منہ پھیرے کیا جاؤ ہو

کلیم عاجز صاحب کا یہ شعر حقیقت بیانی کرتا ہے، کیونکہ جو فساد ہوتے ہیں اس میں چند افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ہم جانتے اور پہچانتے ہیں۔ جن سے ہمارا قریب کے مراسم ہوتے ہیں اور ہم ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں کام آنے والے ہوتے ہیں لیکن یہ فساد نہ صرف ہمارے تجارت، کاروبار اور اداروں کو ہی برباد کرتا ہے بلکہ ہمارے آپسی رشتوں کو بھی تار تار کر دیتا ہے۔ اس ضمن میں کلیم عاجز صاحب کا شعر معاملات کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔

بہار شریف میں فسادیوں نے جس طرح ننگا ناچ کیا اور مسلم عبادت خانہ، درس گاہ اور بزنس سنٹرس کو نشانہ بنایا وہ قابل مزمت ہے۔ سماج کے تمام سنجیدہ و دانشور طبقہ و سبھی سیاسی جماعتوں کو چاہئے تھا کہ اس کی مزمت کرتے لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔

اس سے آپسی رشتے بھی پروان چڑھ گئے۔ اس کی وجہ سماج اور سیاسی جماعتوں میں ظرف کی کمی ہے۔ یہ وہی نالندہ ضلع ہے جہاں کے رہنے والے مشہور شاعر مرحوم کلیم عاجز صاحب تھے۔ ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں تلہارا میں ان کی ولادت ہوئی تھی۔

کلیم عاجز صاحب نے زندگی میں درد جھیلا تھا، جو فسادات ہوئے تھے اس کا اثر ان کی تخلیقات میں صاف دکھائی دیتا تھا۔ سنہ 1946 میں ان کے گاؤں تلہارا میں فرقہ وارانہ فساد کا انہیں بہت قریب سے تجربہ ہوا تھا۔ اس فساد میں انہوں نے اپنی والدہ اور ہمشیرہ سمیت خاندان کے قریب 22 لوگوں کو کھویا تھا۔ گاؤں کے اکثر و بیشتر لوگ جو بچ گئے تھے پاکستان ہجرت کر گئے جبکہ قوم پرست ملک کی مٹی سی سچی محبت کرنے والے کلیم عاجز صاحب ہندوستان میں ہی سکونت پذیر ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں

ایک سویرا ایسا آیا، اپنے ہوئے پرائے اس کے آگے کیا پوچھو ہو؟ آگے کہا نہ جائے

اس شعر کے بعد وہ کہتے ہیں میری شاعری کے پیچھے جو درد چھپا ہے اس کی کہانی بڑی لمبی ہے جیسا کہ میں نے شعر میں کہا ہے، ‘ ایک سویرا ایسا آیا اپنے ہوئے پرائے ‘ حقیقت ہے کہ 26 اکتوبر 1946 کی صبح جب لوگ عیدالاضحی کی تیاریوں میں لگے تھے، نئے نئے کپڑوں اور سوئیوں سے بازار سجا تھا۔ بچوں کی ٹولیاں مستی میں جھوم رہی تھیں۔

آزادی بس ملنے ہی والی تھی کہ تبھی ایک شور مچا اور دیکھتے ہی دیکھتے میرے آبائی گاؤں تلہارا میں دہشت کا گھنا کوہرا چھا گیا۔ آپسی دوستی کی مثال والے گاؤں میں ننگا ناچ ہونے لگا۔

بوڑھے، بچے اور عورتوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔ اس حادثہ میں گاؤں کے قریب 800 لوگ جاں بحق ہوئے۔ جلیاں والا باغ کی طرح عورتیں اپنی عزت بچانے کے لئے کوئیں میں کودنے لگیں۔ کلیم عاجز صاحب بتاتے ہیں کہ اس حادثہ میں میری ماں، معصوم بہن اور خاندان کے دوسرے لوگوں کو بھی لوگوں نے بے رحمی سے قتل کر دیا۔

یہی وجہ ہے میری شاعری میں درد کے ہونے کا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میر صاحب سے الگ میں ایک بڑے حادثہ سے گزرا ہوں۔ لیکن میں انسان کی تعمیر میں یقین رکھتا ہوں۔ میں ان کو چیلنج کرتا ہوں اور ان کا مقابلہ بھی کرتا ہوں جو پریشانیاں لاتے ہیں اور لوگوں کی خوشیاں چھین لیتے ہیں۔

اس لئے میری شاعری ایک دعوت بھی ہے اور میں اپنی شاعری کے ذریعہ یہ چاہتا ہوں کہ دنیا ایسے لوگوں کے چیلنج کو قبول کریں جو غم لاتے ہیں اور بستیاں جلاتے ہیں۔ بہار شریف کے تازہ واقعہ نے ہمارے زخموں کو تازہ کر دیا ہے۔ ملک سے مختلف تنظیموں و ملی رہنماؤں نے بہار شریف کا دورہ کیا ہے اس درمیان امیر شریعت بہار، جھارکھنڈ و اڑیسہ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کی ہدایت پر نائب امیر شریعت بہار جھارکھنڈ و اڑیسہ حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی کی قیادت میں امارت شرعیہ کا ایک اعلیٰ سطحی وفد فساد زدہ بہار شریف پہونچا

اس وفد میں امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب ، رکن ارباب حل و عقد اور صغریٰ وقف اسٹیٹ کے سابق متولی جناب ایس ایم شرف صاحب ، دار القضاء امارت شرعیہ بہار شریف کے قاضی شریعت مولانا منصور عالم قاسمی اور مولانا محمد عادل فریدی شریک تھے۔ مذکورہ وفد نے شر پسندوں کے ہاتھوں پوری طرح تباہ شدہ مدرسہ عزیزیہ کی قدیم لائبریری کا معاینہ کیا

اس کے علاوہ شاہی مسجد مرار پورکے احاطہ میں جلی ہوئی دکانوں اور گاڑیوں کو بھی دیکھا، سٹی ہوٹل ، صغریٰ کالج اور کئی دکانوں کا معاینہ کیا جنہیں شر پسندوں نے نذر آتش کر دیا تھا۔ وفد نے مقامی لوگوں سے مل کر واقعہ کی تفصیلات معلوم کی اور انہیں انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی۔شاہی مسجد مرار پور کے امام و خطیب مولانا محمد شہاب الدین صاحب، نائب امام و مؤذن مولانا نوشاد عالم، مدرسہ عزیزیہ کے پرنسپل مولانا شاکر قاسمی صاحب نے ارکان وفد کو واقعہ کی پوری تفصیل بتائی اور جہاں جہاں شر پسندوں نے آگ لگائی تھی ان جگہوں کو دکھایا ۔ انہوں نے بتایا کہ لائبریری میں پانچ ہزار سے زائد نادر اور قیمتی کتابیں موجود تھیں

اس کے علاوہ مدرسہ کا ایک سو سال سے زیادہ کا ریکارڈ موجود تھا، طلبہ و طالبات کے امتحان کی کاپیاں، رجسٹر، اسناد اور دیگر قیمتی کاغذات و اہم دستاویزات وغیرہ موجود تھے، سب کے سب جل کر راکھ ہوگئے۔ جس طرح ہلاکو خان کی فوج نے بغداد کی لائبریریوں کو جلا کر راکھ کر دیا تھا اسی طرح ان شر پسندوں نے مدرسہ عزیزیہ کی قدیم لائبریری کو نذر آتش کر کے ظلم و بربریت کی وہی تاریخ دہرا دی۔

وفد نے انہیں تسلی دینے کے ساتھ ساتھ یقین دہانی کرائی کہ سرکار سے اس لائبریری کو دوبارہ بنوانے کی کوشش کی جائے گی ۔جو مخطوطات جل گئے وہ تو اب واپس نہیں آسکتے لیکن ایک شاندار اور قیمتی کتابوں سے مزین لائبریری بنوانے کی جدو جہد امارت شرعیہ ضرور کرے گی۔

وفد نے سٹی ہوٹل کے مالک سلطان صاحب سے بھی ملاقات کی اور ان کے ہوٹل کا بھی معاینہ کیا جس کو شر پسندوں نے نذر آتش کر دیاتھا، اس کے علاوہ بریانی پلازا، ڈرائی فروٹ اسٹور، ریڈی میڈ شاپ بہرو ٹائر ریپئرنگ ورکشاپ، جنرل اسٹور، بیٹری دکان،

چنو ڈرائی فروٹ، سمیع ڈرائی فروٹ، اور دیگر د کانوں کے مالکان سے مل کر ان کو ہوئے نقصانات کی تفصیل معلوم کی اور انہیں انصاف دلانے اور سرکار سے معاوضہ دلانے کی یقین دہانی کرائی۔ اس کے علاوہ ایڈووکیٹ سرفراز ملک صاحب سے مل کر ان کے گھر کو ہوئے نقصان کی تفصیل بھی معلوم کی ۔خیال رہے کہ سرفراز ملک صاحب کے گھر پر شر پسندوں نے پٹرول بم سے حملہ کیا تھا، لیکن کسی طرح آگ پر قابو پا لیا گیا۔

اس وفد نےنالندہ کے ڈی ایم ششانک شوبھنکر، ایس پی اشوک مشرا اور ڈی ایس پی محمد شبلی نعمانی صاحب سے مل کر پولیس کی کارروائی سے متعلق تفصیلات معلوم کیں اور اپنے مطالبات و خدشات ان کے سامنے رکھے۔

ڈی ایم نے بتایا کہ انتظامیہ کی طرف سے حالات پر کنٹرول کی پوری کوشش کی جارہی ہے ، لگاتار فلیگ مارچ کیا جا رہا ہے، امن مارچ بھی نکالا جا رہا ہے، انہوں نے بتایا کہ نقصانات اور زخمیوں کا بھی جائزہ لیا جا رہاہے، اس کے مطابق انہیں معاوضہ دلایا جائے گا، مدرسہ عزیزیہ جس کی لائبریری تباہ ہوئی ہے

اس کے بارے میں ڈی ایم نے بتایا کہ سرکار کے وقف ڈیولپمنٹ اسکیم کے تحت نئے سرے سے اچھے ڈئزائین کے ساتھ اس سے بھی عظیم الشان لائبریری اور مدرسہ کی عمارت بنوائی جائے گی ،اورسرکار کی جانب سے متولی سے مشورہ کر کے کتابیں بھی فراہم کی جائیں گی۔

ڈی ایم اور ایس پی نے یہ بھی وعدہ کیا کہ آئیندہ سالوں سے اس روٹ سے جلوس کی اجازت نہیں دی جائے گی بلکہ یہ کوشش کی جائے گی کہ لوگ اپنے اپنے محلہ میں ہی جلوس نکالیں۔ انہوں نے بتایا کہ جن لوگوں نے پرمیشن لی تھی انہوں نے صرف دو ہزار کی پرمیشن لی تھی، لیکن کئی گنا زیادہ بھیڑ اکٹھا کر لی اور پرمیشن کی خلاف ورزی کی، ان پر بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے اور کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ اب تک ایک سو تیس لوگوں کی گرفتاری ہو گئی ہے، ڈی ایس پی محمد شبلی صاحب نے بتایا کہ مختلف جگہوں سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کیے جارہے ہیں، ان کی مدد سے مجرموں کی شناخت کر کے سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ڈی ایم اور ایس پی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ اب تک پندرہ سے زیادہ ایف آئی آر کی جا چکی ہیں۔ وفد نے ان سے کہا کہ خبر ملی ہے کہ ایف آئی آر نہیں لی جا رہی ہے ،

اس پر انہوں نے بتایا کہ مین ایف آئی آر میں سبھی کو شامل کر لیا گیاہے، ویسے اگر نامزد ایف آئی آر کوئی الگ سے کرانا چاہے تو اس کو بھی درج کیا جائے گا۔ ایس پی صاحب نے تسلیم کیا کہ پولیس سے اس معاملہ میں لاپرواہی اور چوک ہوئی ہے، لیکن انہوں نے وعدہ کیا کہ مظلوموں کو پوری طرح انصاف ملے گا اور قصور واروں کو بخشا نہیں جائے گا۔

مقامی حضرات میں سے جن لوگوں نے وفد کو تفصیلات سے آگاہ کیا ان میں جناب مسرور ملک، شمیم اختر صاحب، ایڈووکیٹ محمد نسیخ الزماں، انجینئر حافظ محمد شاہد انجم، انو بھائی، مولانا مزمل صاحب، مولانا عمران صاحب، جناب سلطان صاحب وغیرہ شامل تھے۔

انجینئر حافظ محمد شاہد انجم اور ایڈووکیٹ نسیخ الزماں وفد کےساتھ انتظامیہ سے ملاقات میں بھی شریک رہے۔ ان باتوں اور تفصیلات سے یہ تجربہ ہو گیا کہ تلہارا کا فساد اپنی نوعیت میں ایک بڑا فساد تھا جبکہ تازہ واقعہ میں بہار شریف بھی اپنی نوعیت کا بہت ہی سنگین اور بڑا حادثہ ہے جس کی دھمک دور بیرون ملک میں بھی سنائی دی اور آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن کے ممبر ممالک نے سخت رد عمل ظاہر کیا اور حکومت ہند کو مسلمانوں کے خلاف فساد کرنے والے فسادیوں کے خلاف سخت کارروائیوں کی مانگ کی ہے۔ لیکن میرا کہنا ہے کہ آخر اس احتجاج اور حکومت سے مانگ کا فائدہ کیا ہوگا۔

کوئی سینیما کا ریل تو ہے نہیں جسے پیچھے کر دیا جائے۔ یہ حقیقت ہے جس کا سامنا ہمیں کرنا ہوگا، اب سوائے دل بہلانے کے کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان میں جمہوریت ہے اس لئے سب سیاست

کے نظر ہو کر رہ جائے گا۔

ہمیں، ہماری تنظیموں کو اور ہمارے رہنماؤں کو طے کرنا ہوگا کہ آخر ہم اپنے ملک میں کیسے محفوظ رہیں۔ آج ہمارے رہنماؤں پر، سیکولر حکومت پر سوال اٹھ رہے ہیں لیکن سچائی ہے کہ حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ بہت سمجھداری کا ثبوت پیش کرنا ہوگا، نادانی سے ہمارا نقصان ہو سکتا ہے۔

آج ہر کوئی نفرت میں جی رہا ہے نہیں تو امیت شاہ ایسے نازک وقت میں کسی کو ٹارگیٹ نہیں کر کے یہ نہیں کہہ پاتے کہ ہم فسادیوں کو الٹا لٹکا دیں گے۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نفرت کا ماحول قائم کیا جا چکا ہے، ہم تو محبت پھیلانے والے ہیں اس لئے پریشانیاں تو جھیلنی پڑے گی۔

یہ سچ ہے کہ ہمارے رہنماؤں کے ساتھ مسائل ہیں، اپنے ہی ساتھ نہیں آتے ہیں لیکن باوجود اس کے ہمارے رہنماؤں کو خود میں ظرف پیدا کرنا ہوگا نہیں تو تاریخ میں ہمارا نام سیاہ روشنائی سے لکھا جائے گا۔ کلیم عاجز صاحب نے عرض کیا ہے

درد ایسا ہے کہ جی چاہے ہے زندہ رہئے

زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے ہے