یوپی الیکشن کیا ہماری مجبوری ختم ہوگی
از قلم : غلام مصطفی نعیمی روشن مستقبل دہلی یوپی الیکشن کیا ہماری مجبوری ختم ہوگی ؟ یوپی الیکشن 2022: کیا ہماری مجبوری ختم ہوگی؟
یوپی الیکشن کیا ہماری مجبوری ختم ہوگی
یوپی الیکشن سر پر آن پہنچا ہے، کل 10 فروری کو پہلے مرحلے کی ووٹنگ ہوگی۔جس میں گیارہ ضلعوں کی 58 سیٹوں پر سیاسی پارٹیوں کی زور آزمائش ہوگی۔
اس بار الیکشن کی شروعات مغربی یوپی سے ہورہی ہے جہاں تعداد کے لحاظ سے مسلمان سب سے زیادہ ہیں مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو کوئی چِمٹے سے چھونے تیار نہیں ہے
اور جن کی تعداد مسلمانوں سے آدھی ہے اُن کے ارد گرد ہر سیاسی پارٹی ہاتھ باندھے کھڑی ہے اور ان کی منت سماجت کے لیے بڑے سے بڑا نیتا لگا ہوا ہے۔آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟
آئیے اسی پر پیچ مدعے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
مغربی یوپی کی سیاسی تصویرمغربی یوپی کے جن گیارہ اضلاع میں ووٹنگ ہوگی ان میں شاملی، باغپت، میرٹھ، غازی آباد، ہاپوڑ، علی گڑھ، نوئیڈا، بلند شہر، آگرہ اور متھرا شامل ہیں۔
ان علاقوں کی سیاسی تصویر اس طرح ہے۔
🔹مسلمان : 32 فیصد
🔸دَلِت : 18 فیصد
🔹جاٹ : 17 فیصد
اس علاقے میں مسلمان سب سے بڑا سیاسی گروپ ہیں مگر مزے کی بات ہے کہ سیاسی رسوخ کی بنا پر اسے جاٹ لینڈ کہا جاتا ہے دلت یا مسلم لینڈ نہیں، آپ جانتے ہیں ایسا کیوں ہے؟ ۔
اس لیے کہ یہاں جاٹوں کی سیاسی قیادت موجود ہے اور مسلمان سیاسی طور پر یتیم ہیں۔جس نے پُچکار لیا اسی کے ہوگیے، دھتکار بھی دیا تو زیادہ برا نہیں مانا، اگلی پُچکار میں پھر انہیں کے ساتھ ہوگیے۔ مسلمانوں کے پاس کیا آپشن ہیں؟۔
اس سیاسی رَن میں مسلمانوں کے پاس چار آپشن ہیں
1 سماج وادی اتحاد
2 بہوجن سماج پارٹی
3 کانگریس
4 مجلس اتحاد المسلمین
اب ان آپشنوں پر بھی ذرا سا کلام ہوجائے تاکہ بات پوری طرح سمجھ میں آسکے۔
آپشن نمبر 1
سماج وادی اتحادیہ سماج وادی پارٹی اور جاٹ لیڈر جینت چودھری کی لوک دَل کا سیاسی اتحاد ہے۔اس گٹھ بندھن کو یقین کامل ہے کہ مسلمان ہمارے سوا کہیں نہیں جائے گا پر اُنہیں اتنا یقین ہے کہ انہوں نے 45 فیصد مسلم آبادی والے ضلع مظفر نگر میں ایک مسلمان تک کو ٹکٹ نہیں دیا
کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمان ہمارے علاوہ جائیں گے کہاں؟ کہنے کو اس اتحاد میں جاٹ مسلم کا نعرہ لگ رہا ہے مگر اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ جاٹ لیڈر ہوگا اور مسلمان صرف ووٹر۔
بھاری دباؤ کے بیچ اس اتحاد نے چد مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تو جاٹوں نے علانیہ بغاوت کردی کہ ہم مسلمانوں کو ووٹ نہیں دیں گے، اگر اکھلیش اور جینت کو جیتنا ہے تو انہیں غیر مسلم امیدوار اتارنا ہوگا ورنہ ہم بی جے پی کو ہی ووٹ کریں گے۔
آپشن نمبر دو 2
مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی بھی ایک آپشن کے طور میاں بھائیوں کی فطری رحم دلی سے امید لگائے بیٹھی ہے مگر مایاوتی کی بی جے پی سے بڑھتی ہوئی نزدیکیوں کے باعث یہ آپشن تقریباً نہ ہونے کی منزل میں ہے۔
آپشن نمبر تین 3
سماج وادی اتحاد کے بعد کانگریس ایک آپشن کے طور پر مسلمانوں کے سامنے ہے۔گذشتہ کچھ عرصے سے پرینکا گاندھی نے کافی فعالیت دکھائی ہے۔
سی اے اے، این آر سی کے وقت جب مسلم جوانوں پر گولیاں برس رہی تھیں تو سماج وادی پارٹی اس وقت پوری طرح غائب تھی۔اس وقت پرینکا گاندھی واحد سیکولر لیڈر تھیں جنہوں نے کھل کر مسلم کمیونٹی کا ساتھ دیا۔متاثرین کے اہل خانہ کی مزاج پرسی کی،اپنی اسی کارکردگی کی بنیاد پر کانگریس ایک آپشن بن کر ابھر رہی ہے۔
آپشن نمبر چار 4
مجلس اتحاد المسلمین وہ پارٹی ہے جو مسلم قیادت کا نظریہ لیکر میدان سیاست میں اتری ہے۔ مجلس کے قائد اسد الدین اویسی مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جب تک مسلمان اپنی قیادت نہیں بناتے تب تک ان کے سیاسی حقوق اسی طرح پامال ہوتے رہیں گے اور سیکولر پارٹیاں انہیں محض باتوں سے ہی بہلاتی رہیں گی۔کون سا آپشن بہتر ہے؟۔
اوپر کی تفصیل سے ظاہر ہوچکا ہے کہ مسلمانوں کے پاس موٹے طور پر تین آپشن ہیں؛ سماج وادی اتحاد، کانگریس اور مجلس۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کون سا آپشن بہتر ہے اور کس سے مسلمانوں کا مستقبل بہتر ہوسکتا ہے۔
سماج وادی موجودہ سماج وادی پارٹی کا ذہن ومزاج پرانے زمانے کی کانگریس کی طرح ہوگیا ہے کہ مسلمان چار ناچار انہیں ہی ووٹ کرے گا، بھلے ہی انہیں کچھ دیا جائے یا نہ دیا جائے۔اسی سوچ کے تحت اس بار مسلمانوں کے کئی قدآور لیڈروں کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔جس کا سیدھا مطلب مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کو کم کرنا ہے۔
سہارن پور، مظفر نگر، میرٹھ اور باغپت جیسے علاقے جہاں مسلمانوں کی تعداد لاکھوں میں تھی وہاں بھی اُن کے سروں پر دوسری کمیونٹی کے لیڈر تھوپ دئے گیے۔حد تو تب ہوگئی جب حسن پور جیسی مسلم اکثریتی سیٹ پر پرانے لیڈر کمال اختر کا ٹکٹ کاٹ کر آر ایس ایس لیڈر کو ٹکٹ دے دیا گیا۔اسی سے آپ سماج وادی کی سوچ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
کانگریس طویل عرصے کے بعد کانگریس ایک متبادل کے طور پر سامنے آئی تو ہے مگر یہ وہی پارٹی ہے جسے ہمارے باپ دادا نے بھی آزمایا اور ہم نے بھی۔
انہوں نے کچھ خاص پایا اور نہ ہی ہم نے۔ہاں اس بار پرینکا اور راہل گاندھی نے دیگر سیکولر لیڈروں کے برعکس کئی حساس موضوعات پر مسلمانوں کی آواز اٹھائی ہے
لیکن یہ آواز اپوزیشن تک ہی رہے گی یا اقتدار میں پہنچنے پر بھی مسلمان یاد رہیں گے اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔گارنٹی دے بھی دیں تو اس پر برقرار رہیں گے اس کی کوئی گارنٹی نہیں۔
سال 2004 سے 2014 تک کانگریس مرکزی اقتدار میں تھی،وعدہ تھا کہ فساد مخالف بِل پاس کریں گے لیکن دس سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی بِل پاس نہیں ہوسکا۔
اسی طرح 2012 کے اسمبلی الیکشن میں سماج وادی نے مسلمانوں سے اٹھارہ فیصد ریزرویشن کا وعدہ کیا تھا لیکن پانچ سال اقتدار میں رہنے کے باوجود اس پر بات تک نہیں کی، اور اب تو اس کا ذکر ہی غائب ہوگیا ہے۔
اس لیے مسلمانوں کے حق میں سیاسی پارٹیوں کی گارنٹی بھی بھروسے کی چیز نہیں رہ گئی ہے۔مجلس اتحاد المسلمین__مجلس اس وقت تین صوبوں تلنگانہ، مہاراشٹر اور بہار میں سیاسی نمائندگی رکھتی ہے۔مجلس کا بنیادی ہدف مسلم، دلت اور کمزور طبقات کو سیاسی طاقت دلانا ہے۔
صدر مجلس اسدالدین اویسی اعلی تعلیم یافتہ لیڈر ہیں۔ دستور ہند اور قانون کی اچھی سمجھ ہے۔ان کی سیاسی ذہانت اور قابلیت کے اپنے بیگانے سبھی قائل ہیں۔ایک عرصے سے مسلم قیادت کے لیے کوشاں ہیں۔
بہار اور مہاراشٹر کے مسلم اور دلتوں نے ان کی بات کو سمجھا اور وہاں مسلم لیڈر شپ سامنے آئی۔یوپی کے مسلمان پچھلے پچھتر سال سے کانگریس، سپا، بسپا اور لوک دل جیسی سیکولر پارٹیوں کو آزماتے چلے آرہے ہیں اس بار مجلس کو آزمانے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔
بی جے پی آجائے گی جب تک کانگریس عروج پر تھی تو کہا جاتا تھا کہ کانگریس نہیں تو کون؟ ۔
جب جَن سَنگھ(بی جے پی کا پرانا نام) کا عروج شروع ہوا تو کانگریس نے جَن سَنگھ کا خوف دکھا کر مسلم ووٹ لینا شروع کردیا۔کانگریس کی دیکھا دیکھی دیگر سیکولر پارٹیوں نے بھی یہی حربہ آزمایا کہ ہمیں ووٹ نہیں دیا تو بی جے پی آجائے گی۔
آٹھ سو سال تک راج کرنے والے مسلمان اس قدر بھولے ثابت ہوئے کہ پچھتر سال سے ایک ہی بھول مسلسل دہراتے آرہے ہیں۔بی جے پی کو روکنے کی بات مسلمانوں کا ووٹ لینے کا اچھا بہانہ ہے ورنہ مسلمان کتنا ہی زور لگالیں وہ بی جے پی کو نہیں روک سکتے۔گذشتہ تین الیکشن اس کی گواہی بھی دیتے ہیں
2014 کے پارلیمانی الیکشن میں مسلمانوں نے کانگریس کو ووٹ دیا مگر بی جے پی آگئی۔2017 کے یوپی اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں نے سپا کانگریس اتحاد کو ووٹ دیا مگر بی جے پی آگئی
2019 کے الیکشن میں مسلمانوں نے سپا بسپا اتحاد کو ووٹ دیا مگر پھر بھی بی جے پی آگئی۔یعنی مسلمانوں کی یک طرفہ ووٹنگ کے باوجود بی جے پی نہیں رک سکی تو اب کیا خاک رکے گی؟۔
بی جے پی تبھی رک سکتی ہے جب دلت اور او بی سی ووٹ بی جے پی کے خلاف جائے ورنہ بی جے پی کو ہرانا ممکن نہیں ہے۔مسلمانوں کو تھوڑا سا سیاسی ہونے کی ضرورت ہے۔سیاست عقیدت نہیں بلکہ Give And Pay کا کھیل ہے۔
اس لیے کسی بھی پارٹی کے عقیدت مند نہ بنیں بلکہ سیاسی مول تول کا مزاج رکھیں تاکہ کوئی پارٹی انہیں بندھوا مزدور نہ سمجھے۔اس بار سپا نے مسلمانوں کو بندھوا سمجھنے کی جو غلطی کی ہے اسے ذرا سا جھٹکا دینے کی ضرورت ہے۔
مسلم اکثریتی علاقوں مظفر نگر، سہارن پور، غازی آباد، میرٹھ وغیرہ میں مسلمان مجلس کے امیدواروں کو یک طرفہ ووٹ دے کر کامیاب کریں تاکہ اپنی قیادت پروان چڑھے۔
باقی جن سیٹوں پر مسلم آبادی 15 فیصد سے کم ہے وہاں علاقائی ضرورتوں کے مدنظر سماج وادی، کانگریس اور پیس پارٹی اتحاد وغیرہ کی حمایت کی جاسکتی ہے۔
خوب یاد رکھیں! سیاست میں وہی سماج کام یاب ہوتا ہے جس کے پاس ایک سے زیادہ آپشن ہوں۔مسلمان مجلس کو اپنا آپشن ضرور بنائیں تاکہ سماج وادی جیسی پارٹیاں انہیں اگنور نہ کرسکیں۔
اگر مسلمانوں نے اپنا آپشن گنوا دیا تو جس طرح کانگریس نے مسلمانوں کو مفت کا ووٹر بنائے رکھا سماج وادی بھی وہی کرے گی اور جس طرح مسلمان لیڈروں کو سماج وادی اسٹیجوں پر دھکے دیے گیے ویسے ہی دھکے سب کو کھانے پڑیں گے۔
از قلم : غلام مصطفی نعیمی
روشن مستقبل دہلی
ان سب کو بھی پڑھیں
Pingback: سیاست اور ہماری ذمہ داریاں ⋆ اردو دنیا از قلم : محمد معین الدین مصباحی
Pingback: ٹیلی پرامپٹر اور ہمارے وزیراعظم ⋆ اردو دنیا ⋆ از۔ محمدقمرانجم قادری فیضی