حجاب تنازعہ اور مسلم پرسنل لا بورڈ کا مؤقف
حجاب تنازعہ اور مسلم پرسنل لا بورڈ کا مؤقف : سمیع اللہ خان
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے آج حجاب تنازعے کےمتعلق اپنی پالیسی کو بیان کیا ہے جس میں بورڈ نے کہا ہے کہ:
وہ اس معاملے کو قانونی طور پر ہی حل کرے گا یا گفت و شنید کے ذریعے، بورڈ نے اپنے وابستگان پر پابندی بھی لگائی ہےکہ وہ حجاب کو لےکر عوامی احتجاج میں شرکت نہ کریں
یہ افسوس ناک پالیسی ہے! بورڈ نے آگے کہا ہے کہ، وہ اپنے ذمہ داران پر حجاب موافق احتجاجی ریلیوں اور ٹی۔وی ڈیبیٹ میں شرکت سے پابندی اس لیے لگا رہا ہے کہ کہیں حجاب کا مسئلہ بھی بابری مسجد والے مسئلے کی طرح نہ ہوجائے !
یہ باتیں بورڈ نے کہی ہیں، جوکہ کسی بھی طرح موجودہ بھارت میں ہندوتوا کےخلاف مسلمانوں کو یا اسلامی شعائر کو بچانے کے لیے کام یاب تو درکنار خودمختار اسٹریٹجی بھی نہیں کہی جاسکتی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ: آخر پرسنل لا بورڈ کو بھارت کی عدالتوں پر اتنا زیادہ بھروسہ کیوں ہے؟
جب کہ بورڈ کی قیادت اسی غیر الہی بھروسے کی وجہ سے بابری مسجد مقدمے میں منہ کی کھاچکی ہے، ایسا ہی ہے توپھر جیساکہ پرسنل لا بورڈ کہہ رہا ہے اگر اسی کےمطابق عدالت سے فیصلہ حجاب کےخلاف آیا تو کیا بورڈ اسے تسلیم کرلے گا؟
یہ بھی ابھی سے لکھ دینا چاہیے، کچھ حضرات نے بابری مسجد مقدمے کو گفت و شنید کےذریعے حل کرنے کی شروعات کی تھی جس پر کچھ لوگوں نے ہنگامہ کرتے ہوئےکہا تھا کہ شرعی قطعی معاملہ ہے اللہ کا فیصلہ ہوگا گفت و شنید ہو ہی نہیں سکتی
لیکن اب وہی لوگ حجاب جیسے واجب اسلامی شعار پر گفت و شنید کی بات کررہےہیں یہ کیسی متضاد پالیسی ہے؟
تب ہنگامہ کیوں کیا تھا اور اب گفت و شنید کیوں؟
حجاب کی موافقت میں عوامی احتجاج میں شرکت سے ممانعت کی بات کرکے بورڈ نے احتجاج کررہے مسلمانوں کو بڑا منفی پیغام بھیجا ہے، قیادت قیادت ہوتی ہے اس کی دانشمندی میں بھی بہادری اور جرات اقدام کی بھرپور نمائندگی ہوتی ہے
لیکن صد افسوس کہ بورڈ کا بیانیہ سیکولر ہراس میں ڈوبی ہوئی غیرمطلوبہ دانش مندی کے علاوہ کچھ نہیں ہے
بورڈ کہہ رہا ہے کہ، اس کے ذمہ داران ٹی۔وی ڈیبیٹ میں بھی اس موضوع پر بات نہ کریں تو بھلا کون حجاب پر اسلام کے صحیح موقف کی
ترجمانی کرے گا؟
ایک منٹ کے لیے یہ تسلیم کیا جاسکتا ہےکہ سردست کرناٹک کے علاوہ ریاستوں میں احتجاجوں کو محدود کردیا جائے، ليکن حجاب پر گفت و شنید کی بات کس سے کی جارہی ہے یہ ؟
اور میڈیا میں حجاب پر اسلام کا موقف بیان کرنے سے دوری کی پالیسی سے بالکل اتفاق نہیں ہے، بلکہ یہی تو موقع ہےکہ آپ ہندوتوا کی انتہاپسندی کو انٹرنیشنل میڈیا میں لے جاکر آر ایس ایس کےخلاف عالمی رائے بنائیں
مقدمہ آپ کا ہے اور آپ ہی میڈیا کا سامنا نہیں کریں گے تو پھر کیا فرق پڑتاہے کہ لبرل اور سیکولر منحرف مسلمان نام والے حجاب کو غیرقرآنی قرار دیتے پھریں؟
حجاب کی مشروعیت پر کنفیوژن پھیلائیں، بورڈ جس بھارتی عدلیہ کو شعائرِ اسلامی کے لیے قابلِ بھروسہ سمجھ رہا ہے وہ عدلیہ سیاست زدہ ہوچکی ہے، اُس عدلیہ سے مسلمانوں کو بارہا ظلم کا فیصلہ ملا ہے
اب ضروری ہے کہ مسلمان پہلے سڑکوں پر اپنی للکار کو واضح کریں اور پھر انٹرنیشنل میڈیا میں آر ایس ایس کی ظالمانہ پالیسیوں کےخلاف صریح گفتگو کریں، یہ دو اقدامات پریشر بنائیں گے پھر ہمارے حق میں فیصلہ آئےگا
اس کےعلاوہ جوکچھ آپ کروانا چاہتےہیں اس کے ذریعے امت کا مال ہی ضائع کریں گے، جن ہندوؤں کو امن پسند بنائے رکھنے کے لیے آپ کوشاں ہیں ان کےہاتھ ہماری بہنوں کے گریبان تک پہنچ چکے ہیں
کیا آپ کو نہیں معلوم کہ بدنیت ظالم کے سامنے مصلحتی خودسپردگی سے سوائے شَر کے اور کچھ برآمد نہیں ہوتا، شیاطین کے سامنے نرم روی اختیار کرنا ان کے شر کو بڑھانے کے مترادف ہے
امید ہے کہ خداوندانِ بورڈ ہمارے اختلاف رائے کو گستاخی سے تعبیر نہ کرتے ہوئے سنجیدگی سے اس پر غور فرمائیں گے