میں اس کے لیے دو جہاں بیچتا ہوں

Spread the love

میں اس کے لیے دو جہاں بیچتا ہوں

سینے میں مدفون وہم و گماں بیچتا ہوں 

اخفائے چشم تر کی خاطر کدھر جاؤ گے

 تسکین قلب کو جسم و جاں بیچتا ہوں

ابر کرم کی جو نظر اٹھ گئی تیری جانب

تم کو دے کے واسطہ درد نہاں بیچتا ہوں

ظلم کی انتہا ہوگئی ہے اک نازک نفس پر 

تیری یک دید کے لیے  روح و جاں بیچتا ہوں

احساس محبت کا جس دم خیال آتا ہے پھر

انتقام کی طلب میں شمشیر و سناں بیچتا ہوں

ایفائے عہد پہ چڑھا کر جام بدنامی کا ناساز ؔ

اپنی جان ِغزل کو یہاں و وہاں بیچتا ہوں

اظفر منصور ناسازؔ

گورکھ پور کا ایک یادگار سفر اور تاثرات و تجربات

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *