کیا اب اپنے بھی ایسا کریں گے
قضیہ علیمیہ : کیا اب اپنے بھی ایسا کریں گے ؟
غلام مصطفےٰ نعیمی
مدیر اعلیٰ سوادِ اعظم دہلی
دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی پچھلے کافی وقت سے تنازعات کے حوالے سے سرخیوں میں ہے۔لیکن حالیہ تنازع میں اختلاف کی جو روش سامنے آئی ہے وہ انتہائی سنگین ہے۔
اگر وقت رہتے اس روش کا سد باب نہ کیا گیا تو کسی ادارے کا اسلامی کردار باقی رہے گا نہ کسی عالم دین کی پگڑی سلامت رہ پائے گی!
اصل معاملہ کیا ہے؟.
چند دن پہلے جمدا شاہی کے ایک رہائشی نے ادارے کے سینئر استاذ ومفتی اور جماعت کے نام ور فقیہ وعالم،حضرت مفتی اختر حسین علیمی حفظہ اللہ کے خلاف مقامی تھانے میں ایک شکایت نامہ دیا۔
شکایت نامہ میں آف دی ریکارڈ آڈیو کو بنیاد بنا کر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے گئے ہیں۔سارے الزامات تقریباً اُسی نوعیت کے ہیں جو آئے دن شدت پسند عناصر مدراس اور علما پر لگاتے رہتے ہیں۔
اس شکایت کو زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ شدت پسند تنظیم وِشْو ہندو پریشد اور ہندو یُوا وَاہِنی نے بھی مفتی اختر حسین علیمی کے خلاف ضلع بستی اور خلیل آباد میں ڈی ایم کو ایک ایک میمورنڈم سونپا۔
اس میمورنڈم میں بھی لگ بھگ وہی الزامات ہیں جو پہلے شکایت نامے میں درج تھے،ہاں جس بات کو پہلے شکایت نامے میں ذرا دبے لفظوں میں لکھا گیا تھا اسے وشو ہندو پریشد اور ہندو یُوا واہنی نے کھل کر لکھ دیا ہے۔
مسلم دشمن تنظیموں کا اچانک سے اس معاملے میں دخیل ہونا مدارس وعلما کے لحاظ سے ہرگز اچھا نہیں ہے۔ اب شدت پسند عناصر خود سے اس معاملے میں دخیل ہوئے یا کسی نادان دوست کی کرتوت ہے، کچھ کہنا مشکل ہے۔لیکن جو بھی ہوا اور ہورہا ہے اچھا نہیں ہو رہا ہے۔
ان تنظیموں کا تو پہلا اور آخری نشانہ مسلمان/مدارس اور علما ہیں۔لیکن حالیہ تنازع کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ خود ایک مسلمان نے مفتی صاحب کے خلاف مقامی تھانے اور ایس پی(S. P) کو شکایت نامہ دیا ہے۔
یہاں یہ بات مزید افسوس ناک ہے کہ شکایت کنندہ کوئی غیر نہیں بل کہ ادارے کے سربراہ اعلیٰ، مولانا شفیق الرحمن صاحب (مفتی اعظم ہالینڈ) کے سگے بھائی ہیں۔
کہتے ہیں جب آندھیاں چلتی ہیں تو ہر چہار جانب سے بگولے اٹھتے ہیں، ایسا ہی ایک بگولہ علیمیہ کے لیٹر ہیڈ پر “وجہ بتاؤ نوٹس” کے روپ میں ظاہر ہوا۔جو صدر مدرسہ کی جانب سے مفتی اختر حسین کے نام لکھا گیا ہے۔
مذکورہ نوٹس میں بھی وہی الزامات ہیں جو ماقبل کے شکایت نامے میں درج تھے۔
ویسے تو ادارہ جاتی اصول کے مطابق نوٹس
متعلقہ بندے ہی کو دیا جاتا ہے عوامی سطح پر پھیلایا نہیں جاتا لیکن اللہ بہتر جانے منتظمین علیمیہ کے سامنے کیا عوامل تھے کہ اصول وقواعد کے برعکس مخصوص فرد کے نام جاری کردہ نوٹس کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔
گھر کا معاملہ گھر میں سلجھائیں___!!
اس معاملے کو ادارے سے نکال کر تھانے اور ایس پی تک پہنچانے والے صاحب، سربراہ مدرسہ کے حقیقی بھائی ہیں۔اگر یہ شکایات اپنے بھائی جان ہی سے کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔سربراہ اعلی ہونے کے ناطے وہ از خود مفتی صاحب سے استفسار کر لیتے لیکن گھر کی بات کو تھانے لیکر جانا کہاں کی سمجھ داری ہے؟
ہمیں نہیں معلوم کہ اندرونی طور پر ادارے میں کیا چل رہا ہے لیکن مدرسے کے مسائل اندرون مدرسہ ہی سلجھائے جائیں یہی ادارے کے حق میں اچھا ہے۔
سوشل میڈیا پر ادارہ جاتی کاروائی کا وائرل ہونا اصول رازداری کے خلاف تو ہے ہی، اغیار کی نگاہوں میں علما/مدارس/نصاب تعلیم اور شرعی احکام میں دخل اندازی کا راستہ کھولنا بھی ہے۔اپنے معاملات میں شعوری وغیر شعوری طور پر اغیار کو داخل ہونے کا موقع دینا ایک خطرناک روایت کی بنیاد ڈالنا ہے۔
جس کے نتائج ملی اعتبار سے انتہائی مضر ہوں گے۔مستقبل میں اس کا خمیازہ ہر مشہور ومعروف عالم اور مشائخین خانقاہ کو بھگتنا پڑے گا۔
ابھی ہماری جذباتیت اور غیر سنجیدگی سے اُنہیں موقع مل رہا ہے کل یہ تنظیمیں از خود آگے بڑھ کر کئی گنا تیزی کے ساتھ یہ کام کریں گی تب ہمارا رونا یا شکایت کرنا بے سود ہوگا کہ جانے انجانے انہیں یہ موقع فراہم کرنے والے ہم خود ہوں گے۔
اکابرین جماعت اور سربراہ ادارہ کو چاہیے اولین فرصت میں اس معاملے کو حل کریں۔مسائل کو خود سلجھائیں۔پولیس اور انتظامیہ کو داخل ہونے کا موقع نہ دیں۔
نادان دوستوں کی سرزنش کریں تاکہ آئندہ ایسی حرکات سرزد نہ ہوں اگر وقت رہتے اس روش کا سد باب نہ ہوا تو ممکن ہے وقتی طور پر فرد واحد کا کچھ نقصان ہوجائے لیکن اس کا بڑا نقصان پوری جماعت اور مدارس اسلامیہ کو اٹھانا پڑے گا۔
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں