آسمان آپ کا منتظر ہے کمند ڈال

Spread the love

آسمان آپ کا منتظر ہے کمند ڈال

از : فیاض احمدبرکاتی مصباحی

‎آسمان آپ کا منتظر ہے ، کمند ڈال ۔ ‎جامعہ اشرفیہ کا وسیع گراؤنڈ، فلک بوس عمارتیں ، فرشتہ صفت اساتذہ کی انجمن ، شاہیں صفت طلبہ کا ہجوم ، کیمپس میں بلکھاتی سڑکیں ، لہلہاتے پارک اور اس میں کھلے ہوئے پاکیزہ پھول

کئی بڑے اور لمبے ہاسٹل ، درس گاہی عمارتیں ، اہل مبارک پور کے خوبصورت ماتھے کا حسین جھومر امام احمد رضا لائبریری ، طلبہ کی اٹھکھیلیاں ، خوب صورت الفاظ و جملوں کے استعمال کا حسین بانکپن ۔

اساتذہ کی شفقت ، بے نفسی ، دل نواز مسکراہٹیں ، رات کی تاریکی میں برقی قمقموں کی دودھیا روشنی نہایا ہوا باغ فردوس ۔

اگر حقیقت میں اہل جنت کو اس زمین پر دیکھنا ہو اس مرد قلندر کے بسائے ہوئے اس شہر کو نظر جی بھر کر دیکھ لیں ۔

ملک اور بیرون ملک کے علوم اسلامیہ کے طالبوں کی علمی جنت ۔ ہر طرف گہما گہمی ہے ۔ طلبہ آپس میں ایک دوسرے کو مبار باد دے رہے ہیں ۔ ‎”بہت بڑے گیپر ہیں آپ ” ، آپ کا مقالہ نمبر ایک پر آگیا ، آپ نے انگلش میں اچھی اسپیچ دی ، ابے یار یہ رٹو طوطا ہے فلاں کی طرح بس رٹ کر بولتا ہے اسے کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔

تم بڑے قابل کے پودینہ ہو بول کر دکھاؤ ، کھیل کے میدان میں ، ہوٹل میں ، درس گاہ میں صرف قلم کاروں کے چرچے ہیں ۔ یہ جشن مفتی اعظم ہند کے ایام ہیں ، ان دنوں جامعہ میں ہر طرف نئی نئی کتابیں دیکھنے کو ملتی تھیں ۔

پرانے پرانے رسائل وجرائد کی زیارت ہوتی تھی ، اس پر دوستوں کی جملہ بازی بھی قابل رشک ہوتی ۔ ‎کہاں گئے وہ دن جو اب ملنے کے نہیں ۔‎ ۔ میں بھی یہ سب سنتا ہوں اور دل ہی دل میں سوچ رہا ہوں کہ ” کاش مجھے بھی ان لوگوں کی طرح لکھنا آجاتا ۔ اپنے ایک لکھاڑی دوست سے ایک دن پوچھ ہی لیا کہ ” بھائی آپ لوگ کیسے لکھتے ہیں ؟ قلم کار بننے کے پہلے کیا لکھنا پڑتا ہے ۔ دوست نے سر سے پیر تک دیکھا ۔ پھر کچھ یوں گویا ہوا ۔ کیا قلم کار بننا چاہتے ہیں آپ ؟ میں نے کہا ہاں خواہش تو یہی ہے لیکن شروعات کیسے کروں سمجھ میں نہیں آتا ؟ ‎کیا آپ ناول پڑھتے ہیں ؟ نہیں میں ناول نہیں پڑھتا ۔ کیا لکھنے کے لیے ناول پڑھنا ضروری ہے ؟

نہیں ایسا تو نہیں ہے لیکن تحریر میں خوب صورتی لانے کے الفاظ کا ذخیرہ ہونا ضروری ہے اور اس کام کے لیے ناول سب سے

زیادہ مفید ہے ۔ بس آپ فلاں فلاں قلم کار کو لگاتار پڑھیں ۔ مصباحی صاحب کو پڑھیں ، علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی تحریروں کو پی جائیں ۔

پھر خود ہی آپ کے اندر کا قلم کار باہر نکل آئے گا ” میں نے اپنے دوست کے مشورے کو بہتر سمجھا اور کچھ کچھ پڑھنے لگا ۔ جامعہ میں منعقد ہونے والے تحریری مقابلے میں کبھی شریک نہیں ہوا لیکن کچھ کچھ لکھتا رہتا تھا ۔

وقت گزرتا گیا ۔ جامعہ میں قلم کاروں کی ایک طاقت ور فوج ہماری جماعت میں تھی ، پچاس کے آس پاس قلم کار ، وہ بھی بلا کے ذہین ، وسیع المطالعہ ، قلندرانہ صفت کے حامل افراد کی ایک مضبوط جماعت ۔ شاید اس کے بعد اتنی بڑی جماعت پھر فارغ نہ ہوئی ہو ۔

سوا دو سو یا ڈھائی سو طلبہ کی جماعت تھی ۔ بہتوں کالجز اور یونیورسٹیز جانے کے لیے بال وپر تول رہے تھے ۔ کچھ تخصصات کے لیے تیار تھے ۔ میں بے چارہ سا غریب اپنے دھن میں تھا ۔ ‎ہمارے وقت میں طلبہ کی مختلف علمی وادبی انجمنیں تھیں جو گاہے بگاہے طلبہ کی خفتہ تحریریں صلاحیتوں کو بیدار کرنے کے لیے مختلف پروگرام کیا کرتی تھیں ۔

بہت ساری انجمنیں اب بھی ہیں ۔ بہت ساری انجمن کے نام بدل گئے لیکن طریقہ کار اب بھی شاید ویسا ہی ہے ۔‎تیرہ سال بعد جامعہ اشرفیہ کی پرنور فضا میں جشن مفتی اعظم کے موقع پر حاضری ہورہی تھی ، طلبہ میں وہی امنگیں ، وہی جوش وہی ولولہ ، ستاروں کے شکار کرنے وہی جنون ، چاند پر کمند ڈالنے کی وہی لگن ۔

آج دیکھ رہا ہوں تو اپنا بچپن یاد آرہا ہے ۔ اپنا روم ۔ اپنی کلاسیز ، ایک ایک کرکے سب یاد آتی رہیں ۔ آنکھوں سے آنسوں بہے جارہے ہیں ۔ میں اسے چھپائے جارہا ہوں ۔ ساتھ میں جامعہ اشرفیہ کا وہ فرزند بھی ہے جو آج اپنے ملک کے ایک بڑے عہدے پر ہے ۔ وہ بھی ہے جو ایک بڑی دانش گاہ سے گولڈ میڈلسٹ ہے ۔

شاید جو کیفیت میری ہے وہی ان کی بھی ۔ کچھ دیر کے لیے سب خاموش ہیں ۔ سب اپنا زمانہ یاد کررہے ہیں ۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر گیا ۔ جامعہ اشرفیہ نے اس کے بعد بھی بڑی ترقی کی، اس نے عالم اسلام کو متاثر کیا ، اس کے فرزندوں نے دنیا سے اپنی ذہانت ، حرف گیری ، لطافت، پاکیزگی ، انسانیت ، تحقیق وتدقیق اور سنجیدگی کا لوہا منوایا ۔

چہار دیواری کے باہر بہت تیز آندھیاں چلیں اور اشرفیہ کی مضبوط علمی فصیل سے ٹکرا کر واپس اپنے مسکن کی طرف لوٹ گئیں ۔ مرد قلندر کی آہنی دعا، عشق اشرفیہ میں خون جگر کی سوختہ ہوچکی بھینی خوشبو ، آہ سحر گاہی کی مچلتی جل ترنگ آج بھی اشرفیہ کے لیے بکتر بند کا کام کررہی ہے ۔ ‎ہم لوگ

مہمان خانے میں اپنے اساتذہ کی دست بوسی اور قدم بوسی کے بعد جلسہ گاہ کی طرف بڑھے ۔ آج ملک کا ایک بڑا آفیسر جو حسن اتفاق سے مصباحی بھی ہے ، طلبہ کے سامنے مستقبل چمکانے ، اپنا جوہر آزمانے ، انسانیت کی بے سمت تقدیر کو حکم خداوندی کی پابند کی زنجیر میں گرفتار کرانے کی تدبیر بتانے والا ہے ۔ ‎طلبہ اپنے اس سینئر ساتھی کو اور اساتذہ اپنے اس

ہونہار روحانی فرزند کو سننے کے لیے بے چین ہیں کہ مختصر تعارف کے بعد مولانا شاہد خان مصباحی آئی اے ایس ، مائک پر آتے ہیں اور اپنی پینتالیس منٹ کی گفتگو اس چالاکی سے کرتے ہیں کہ کچھ احساس بھی نہیں ہوتا ۔

دینی علوم وفنون کے بعد رائج الوقت عصری علوم وفنون سے واقفیت ، عصری جامعات کی تربیت اور دینی پابندی کے ساتھ باہر کی آزاد فضا نے مولانا شاہد مصباحی کو موجودہ وقت مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کے لیے آئیڈیل بنادیا ۔ مدارس اسلامیہ میں زیر تعلیم طلبہ شاہد خان مصباحی سے بہت زیادہ متاثر دکھائی دیتے ہیں ۔

اس لحاظ سے بھی انہوں نے طلبہ کی بہتر رہنمائی کی اور عملی میدان لائحہ عمل طے کرنے کا ایک منشور پیش کیا جو طلبہ کےیے نہایت مفید ہے ۔ ‎ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے گولڈ میڈلسٹ اور جامعہ اشرفیہ کے نام ور فرزند حیدر رضا مصباحی ۔ موجودہ وقت میں بڑھتے الحاد وبیدینی اور روک تھام پر سنجیدہ ، متین اور علمی گفتگو فرماتے ہیں

طلبہ کا خاموش سمندر بڑی متانت کے ان ساری گفتگو اپنے دلوں میں جذب کررہا ہے ایسا محسوس ہو رہا ہے اس سمندر کی خاموشی الحاد کے فتنہ گروں کے لیے ایک بڑا طوفان بننے کی تیاری میں ہے ۔ ‎حیدر رضا مصباحی ایک ذہین ، وسیع المطالعہ ، مشاق قلم کار ایک جوان سال عالم دین ہیں ۔

جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے فراغت کے بعد آپ نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم اے اور ایم فل کیا ہے ۔ گولڈ میڈلسٹ رہے ہیں ۔ اس لیے بھی طلبہ کی توجہ ان کی طرف بھی خاص طور سے رہی ۔

مولانا حیدر مصباحی کی ساتھ طلبہ کی کئی نششتوں میں ملاقات رہی ۔ طلبہ کو مفید مشورے دینا ، ان کی الجھنوں کا ازالہ کرنا مولانا حیدر مصباحی کا بڑا پسندیدہ کام ہے ۔

فیاض احمدبرکاتی مصباحی

شراوستی / بلرام پور

دینی مدارس کے طلبہ محنت لگن سے کام کریں تو ہر میدان جیت سکتے ہیں

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

 

One thought on “آسمان آپ کا منتظر ہے کمند ڈال

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *