روزہ سے تقوی حاصل ہوتا ہے مگر جب اس کی روحوں ساتھ رکھا جائے

Spread the love

روزہ سے تقوی حاصل ہوتاہے؛مگر جب اس کی روحوں کے ساتھ رکھا جائے!

انوار الحق قاسمی (ترجمان جمعیت علماء روتہٹ نیپال) ہر ‘عبادت ‘کی ایک نمایاں خصوصیت ہوتی ہے،مثلا نماز ہی کو دیکھ لیجئے !کہ اس کی سب سے بڑی خصوصیت’نمازی’کو دنیا کی ہر طرح کی بے حیائی و برائی سے کلی روکناہے؛

مگر یہ ایک قید کے ساتھ مقید ہے اور وہ یہ کہ نمازی ‘نمازیں’ سنن و نوافل مع آداب ادا کرتا ہو۔ایسا بالکل نہیں کہ نمازی ‘نمازیں’جیسے تیسے چاہےاداکرے اور نمازیں اسے بے حیائیوں اور بدکاریوں سے روک دیں۔

بالفرض اگر کسی کا ایسا خیال ہے تو اس کا یہ خیال بالکل ہی باطل ہے؛کیوں کہ اس کےحصول کے لیے سنن و نوافل کی ادائیگی مع آداب ناگزیر ہے۔

باری تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں فرمایا ( اے نبی ! ) آپ تلاوت کیجیے اس کتاب کی جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے، اور نماز قائم کیجیے، بیشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ، اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے ۔ اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہوـ

اس آیة کریمہ میں صاف کہا گیا ہے کہ’ نماز’بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔مع اس کے اگر کوئی نمازی بے حیا اور بدکار ہے،تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ اس نے کماحقہ’ نمازیں’ ادا نہیں کی ہے۔

تو جس طریقہ سے ‘نمازیں’ نمازی کو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہیں اور یہ نماز کی ایک اہم خاصیت ہے۔

اسی طریقہ سے رمضان المبارک کے’ روزوں’ کی بھی ایک خاص خاصیت اور بڑامقصد ہے ؛مگر واضح رہے کہ معاملہ یہاں روکنے کا نہیں؛ بل کہ پیدا کرنے کا ہے۔

یعنی اگر کوئی مسلمان رمضان المبارک کے’ روزے’ رکھتاہے ،تو اس کے اندر’تقوی’ کی صفت کا پیدا ہوجانا ضروری ہے: یعنی اس میں خشیت الٰہی اور انابت الی اللہ کا مادہ جیسے بھی پیدا ہوجاناچاہیے؛ کیوں کہ یہی روزے کی ایک خاص خاصیت اور اہم مقصد ہے۔جب روزوں کے ذریعے اسی کا حصول نہیں ہوا،تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اس نے روزوں کے رکھنے میں کوئی گربڑی کی ہے۔

یعنی صائم نے صرف کھانے پینے اور جماع سے رکا ہے؛ مگر محرمات (غیبت و چغل خوری، نظر بد،اکل حرام ،گذب بیانی،بہتان و الزام تراشی وغیرہم) کو بھی بروئے کار لاتا رہاہے؛ اسی لیے اس میں تقوی کی صفت پیدا نہیں ہوئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے

” اے ایمان والو تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم متقی بن جاؤ” (البقرۃ: ۱۸۳

اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ’ روزوں’ کو ان کی روحوں کے ساتھ رکھا جائے:یعنی جس طرح شارع علیہ السلام نے روزوں کے رکھنے کا حکم دیا ہے،تب ہی جاکر اس کا مقصد (تقوی) حاصل ہوگا اور یہ بات ذہن نشیں ہو کہ روزے کا مقصد ہمیں اس وقت تک حاصل نہیں ہوگا، جب تک ہم روزوں کو ان کی روحوں کے ساتھ نہیں رکھیں گے

جوں ہی روحوں کے ساتھ رکھنا شروع کردیں گے تو پھر الیقین ہمیں تقوی حاصل ہوگا اور اگر جیسے تیسے روزے رکھیں گے تو پھر سوائے بھوکے رہنے کے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *