اردو بھارت کی ہی نہیں بین الاقوامی زبان بھی ہے
اردو بھارت کی ہی نہیں بین الاقوامی زبان بھی ہے : حامد انصاری
اردو بھارت کی ہی نہیں بین الاقوامی زبان بھی ہے
نئی دہلی: اردو قارئین کی کم ہوتی تعداد پر تشویس ک ا اظہار کرتے ہوئے سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری نے کہا کہ ہر دس سال میں آبادی تو بڑھ رہی ہے لیکن اردو پڑھنے اور بولنے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہے
یہ بات حامد انصاری صاحب نے اردو صحافت کا دو سو سالہ جشن میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرتے ہوئے کہی
اس کا اہتمام اردو صحافت دو سو سالہ تقریبات کمیٹی نے کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح آبادی بڑھ رہی ہے اسی طرح اردو قارئین کی تعداد میں دن بہ دن کمی واقع ہورہی ہے جو باعث تشویش ہے ۔
انہوں نے کہا کہ جب تک اسکولوں میں اردو نہیں پڑھائی جاتی اس وقت تک اردو پڑھنے اور لکھنے والے کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے اسکولوں میں اردو اساتذہ کی کمی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک اسکولوں میں اردو پڑھنے والے طلبہ مقررہ تعداد کی نہیں ہوتی اردو استاذ نہیں رکھے جاتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو بچے اردو پڑھنا چاہتے ہیں لیکن وہ دوسری زبان پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔
مسٹر انصاری نے گھروں میں اردو پڑھانے پر زور دیتے ہوۓ کہا کہ اسکولوں میں اردو کی پڑھائی نہیں ہوتی اور گھر پر نہیں پڑھائیں گے تو پھر اردو کی پڑھائی کہاں ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ جو کام والدین کو کرنا چاہیے وہ کام نہیں کر رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ اردو کے فروغ کے ذمہ داری ان کی ہے جن کی زبان ہے لہذا اردو کے تئیں ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے ۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ مطمئن رہیں کہ اردو زندہ رہے گی ۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس وقت اردو صرف بھارت کی نہیں بلکہ بین الاقوامی زبان بھی ہے ۔
امریکہ، آسٹریلیاں اور دیگر ممالک میں اردو رسالے نکل رہے ہیں اور اردو بولی جارہی ہے ۔
سابق مرکزی وزیر اور سابق وزیر اعلی جموں وکشمیر غلام نبی آزاد نے اردو صحافت کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوۓ کہا کہ اردو صحافت کے آغاز کے بارے میں متضاد دعوے کیے گئے ہیں ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پہلا شخص جسے کالا پانی بھیجا گیا تھا وہ ایک مسلم صحافی تھا۔ تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ شخص کون تھا
انہوں نے کہا کہ 1794 میں ہندوستان کا پہلا اخبار ٹیپو سلطان نے فوجی اخبار کے نام سے نکالا تھا جوفو جیوں کے لیے تھا اور پہلا پرنٹنگ پریس بھی ٹیپوسلطان نے ہی قائم کیا تھا۔ انہوں رکن نے جنگ آزادی میں اردو صحافت اور اردوصحافیوں کی خدمات کا ذکر کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کی قربانیوں پر بات چیت بہت کم ہوتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اردو زبان آہستہ آہستہ سکڑ رہی ہے اور آج کے بچے انگریزی زبان زیادہ پڑھنا پسند کرتے ہیں کیوں کہ انہیں اس میں اپنا مستقبل نظر آ تا ہے ۔
سابق رکن پارلیمنٹ اورسابق سفارت کار میم افضل نے صدارت کرتے ہوۓ آزادی کے بعد اردو کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ذکر کیا اور کہا کہ اردو کو مسلمانوں کا زبان بنادیا گیا ہے اور اس میں کچھ حد تک اردو والے بھی شامل ہیں ۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اردو کی طرف اس طرح کی تو جہ نہیں دی گئی جس کی ضرورت تھی ۔ انہوں نے کہا کہ اردو دم توڑ نے والی زبان نہیں ہے ۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اردو صحافت کے مستقبل کو زندہ رکھنا ہے تو اپنے بچوں کو اردو پڑھا ئیں۔
پدم شری اور مولانا آزاد یو نیورسٹی کے صدر پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اگر زبان کا مذہب ہوتا تو اردو کے پہلے اخبار جام جہاں نماں کا کرتا دھرتا سداسکھ لعل اور ہری دت نہیں ہوتے ۔
دوسرے سیشن میں کلیدی خطبہ پیش کر تے ہوۓ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے سر براہ پروفیسر شافع قدوائی نے کہا کہ آج کا میڈ یا حقائق پیش نہیں کرتا بلکہ اپنے حقائق پیش کرتا ہے۔
پہلے اخبارات حقائق کے ترجمان ہوتے ہیں جب کہ آج دوسری طرح کے سچ بیان کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بقول مولانا وحیدالدین خاں اردو صحافت احتجاج کی صحافت ہے ۔ مشہور صحافی قربان علی نے کہا کہ جب تک اردو کو روزی روٹی سے نہیں جوڑا جائے گا اس وقت تک نہ اردو صحافت بچیں گے اور نہ ہی اردو کے اخبارات ۔
اردو والے پیسے خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اخبار کے صحافیوں کی تنخواہ انتہائی کم ہے ممبئی سے شائع ہونے والا اخبار ہندوستان کے مدیر سرفراز آرزو نے اخبارات کی دگرگوں حالت کا ذکر کرتے ہوۓ کہا کہ اشتہارات کی کمی کی وجہ سے اخبارات کو جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے اور بقا کے لیے کئی طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا ۔
مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اسلم پرویز نے کہا کہ اردو صحافت کا چیلنج یہ بھی ہے کہ جب تک ہم اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتے اس وقت تک اردو کا بقا ممکن نہیں ہے ۔
روزنامہ آگ لکھنؤ کے مدیراعلی ابراہم علوی نے اس سیشن کی صدارت کرتے ہوۓ کہا کہ اردو زبان بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بچوں کو اردو پڑھائیں۔
خطاب کرنے والوں میں روز نامہ ندیم بھوپال کے ایڈیٹر عارف عزیز ، شاہین نظر ، ڈاکٹر سید فاروق ، رکن پارلیمنٹ ندیم الحق ، رئیس مرزا اور دیگر شامل تھے۔
اس موقع پر متعددصحافیوں کو ایوارڈ اور مومنٹو بھی پیش کیا گیا۔ جن میں یو این آئی اردو کے سابق سربراہ عبدالسلام عاصم شامل ہیں ۔ اس موقع پر ڈاکٹر مرضیہ عارف نے اپنی کتاب جہان فکر وفن کی کاپی سابق صدر جمہوریہ حامد انصاری کو پیش کیا۔
پہلے سیشن کی نظامت پروگرام کے کنویر اور مشہور صحافی معصوم مراد آبادی نے کی جب کہ دوسرے سیشن کی نظامت معروف صحافی سہیل انجم نے انجام دی۔ بحوالہ: فاروقی تنظیم پٹنہ: 31 مارچ 2022
Pingback: سبھی سرکاری دفاتر میں ہندی کے ساتھ اردو میں بھی نیم پلیٹ ⋆ اردو دنیا نیوز