جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی بنیاد میں اعلی حضرت اشرفی میاں کا حصہ

Spread the love

جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی بنیاد میں اعلی حضرت اشرفی میاں کا حصہ

محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال

یہ ادارہ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے مشہور ضلع اعظم گڑھ کے اندر قصبہ مبارک پور میں واقع ہے۔ یہ ہندوستان کے مسلمانانِ اہل سنت و جماعت کا معتبر و مرکزی دینی اور تعلیمی ادارہ ہے، اس کے مختلف شعبے اور بہت سی عمارتیں ہیں۔ اس ادارہ کے فارغین ہندوستان میں اور اس کے باہر امریکہ، افریقہ، یورپ وغیرہ کے مختلف ملکوں اور شہروں میں تدریسی، تنظیمی اور دعوتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ شروع میں یہ ادارہ ایک مکتب کی حیثیت سے قائم ہوا جس کا نام مدرسہ مصباح العلوم رکھا گیا، پھر مدرسہ لطیفیہ اشرفیہ مصباح العلوم بنا جو ’’دار العلوم اشرفیہ مصباح العلوم‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ بعد میں جب اس کی مزید توسیع ہوئی تو ’’الجامعۃ الاشرفیہ‘‘ کے نام سے چہار دانگ عالم میں معروف ہوا۔ اس کے فارغین قدیم نام “مصباح العلوم” کی نسبت سے ہی ’’مصباحی‘‘ کہلاتے ہیں۔مدرسہ مصباح العلوم:۱۳۱۷ھ/ ۱۸۹۹ء میں مبارک پور کے غریب مسلمانوں نے محلہ پورہ رانی دینا بابا کی مسجد کے قریب پچھّم طرف چھوٹےسے سفالہ پوش مکان میں ایک درس گاہ قائم کی جس کا نام مدرسہ مصباح العلوم تجویز کیا۔ اس کا تعلیمی معیار ناظرہ، قرآن مجید ا ور ابتدائی دینی تعلیم تھا، تمام لوگ تنگ حالی کے باوجود مل جل کر اس کا تعاون کرتے تھے۔ سنی دیوبندی کا کوئی اختلاف نہیں تھا۔ چند اہل تشیع کے سوا باقی تمام اہل سنت وجماعت تھے۔مدرسہ لطیفیہ اشرفیہ مصباح العلوم:۳۰؍۱۳۲۹ھ/ ۱۹۱۱ء میں اہل سنت وجماعت نے مدرسہ مصباح العلوم کی نشاۃ ثانیہ کی تو بہادر شاہ ظفر کی اولاد میں ایک تارک الدنیا بزرگ حضرت شاہ عبد اللطیف چشتی (ستھن شریف ضلع سلطان پور، یوپی) کے ایک مرید مولانا محمد عمر لطیفی مبارک پوری، اور شیخ المشائخ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی (م۱۳۵۵ھ/۱۹۳۶ء) کے مریدین کی خواہش کے مطابق اس کا نام ’’مدرسہ لطیفیہ اشرفیہ مصباح العلوم‘‘ تجویز کیا۔ یہ مدرسہ محدود پیمانے پر روایتی انداز سے موجودہ نگر پالیکا کے قریب ایک چھوٹی سی دو منزلہ عمارت میں کام کرتا رہا۔ اس کے بعد مدرسہ لطیفیہ اشرفیہ اپنی خانہ بدوشانہ زندگی گزارتے ہوئے ۱۳۴۱ھ/ ۱۹۲۲ء میں پرانی بستی میں اس جگہ قائم ہوا جسے عام طور پر لوگ پرانا مدرسہ کے نام سے جانتے ہیں۔1922 کی تعمیر میں اعلی حضرت اشرفی میاں کا کردار:مجمع البحرین، حاجی الحرمین الشریفین، اعلیٰ حضرت، قدسی منزلت، مخدوم الاولیاء، مرشد العالم، محبوب ربانی، ہم شبیہ غوث جیلانی، حضرت سید شاہ ابو احمد محمد علی حسین اشرف اشرؔفی میاں الحسنی والحسینی قدس سرہ النورانی مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم (الجامعۃ الاشرفیہ) مبارکپور کے محرک اور بانیوں میں سے تھے۔ جب مبارکپور میں آمد و رفت کی کوئی سہولت نہیں تھی، اس وقت شیخ المشائخ مولانا سید شاہ ابو احمد محمد علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی ( میاں بابا) قدس سرہ اونٹنی پر سوار ہوکر کچھوچھہ مقدسہ سے مبارک پور آتے تھے ، انہوں نے وہاں رشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کیا ، رفتہ رفتہ ان کے گرد مبارک پور کے سنی مسلمان اکھٹے ہوگئے، حضرت میاں بابا (اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی ) نے لوگوں پر زور دیا کہ “دین کی ترویج واشاعت کے لئے ایک درسگاہ ضروری ہے”۔ حضرت میاں بابا کی تحریک پر مبارک پور کے سنی مسلمانوں نے لبیک کہا اور میاں شیخ عبد الوہاب، شیخ حاجی عبد الرحمٰن و شیخ حافظ عبد الاحد پسران شیخ علیم اللہ شاہ مرحوم ساکنان مبارک پور ضلع اعظم گڑھ نے 1922 عیسوی میں ایک مکان واقع محلہ پرانی بستی وقف کیا ، جس میں تعلیم وتعلم کا دور شروع ہوا۔ چونکہ مبارکپور میں باقاعدہ دینی درسگاہ کے محرک اور بانی حضرت میاں بابا (اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی ) علیہ الرحمہ، حضرت محبوب یزدانی، سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی کے خاندان ذی شان سے متعلق تھے ۔اس لئے اس درسگاہ کا نام مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم رکھا گیا اور مدرسہ کی دیکھ بھال کے لئے جاں نثاران اشرفیہ کی خواہشات کے مطابق بانیِ ادارہ حضرت میاں بابا رحمۃ اللہ علیہ(اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ) کو مدرسہ کا سرپرست بھی مقرر کیا گیا۔1922 عیسوی تا 1924 عیسوی استاذ العلماء مولانا مفتی عبدالحفیظ حقانی قدس سرہ مسند صدارت پر رونق افروز رہے ۔ الفقیہ امرتسر، 14/اکتوبر 1931 عیسوی کے شمارہ میں جناب ولی جان قصبہ کوٹلہ بازار، ضلع اعظم گڑھ کا مضمون شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا:”میں بغرض تجارت قریب آٹھ سال سے مبارک پور آتا ہوں چونکہ مجھ کو مدرسہ سے دلچسپی ہے، جب بھی آیا مدرسہ ضرور آیا ، یہ مدرسہ تخمیناً تیس سال سے جاری ہے، اس کی عمارت تنگ و خام و بوسیدہ ہے ، یہ مدرسہ اعلیٰ حضرت قبلہ سلطان الصوفیہ شاہ ابو احمد المدعو علی حسین صاحب قبلہ اشرفی جیلانی کچھوچھوی کے دست مبارک کا قائم کیا ہوا ہے۔ (بحوالہ: الفقیہ امرتسر، 14/اکتوبر، 1931) جدید عمارت کا سنگ بنیاد:”مخدوم الاولیا محبوب ربانی” کے مؤلف رقم طراز ہیں:شوال المکرم 1353 ہجری کا وہ مبارک وقت بھی آیا جبکہ شیخ امین صاحب صدرِ مدرسہ کی جدوجہد سے نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنا قرار پایا اور سالانہ جلسہ کے موقع پر حضور پر نور اعلیٰ حضرت، مخدوم الاولیاء، مرشدالعالم، محبوب ربانی، اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ مبارک پور تشریف فرما ہوئے اور جمعہ کے بعد اپنے مقدس ہاتھوں سے مدرسہ کی جدید عمارت کا سنگ بنیاد رکھا اور دعا فرمائی اور اسی موقع پر فرمایا:”مدرسہ بہت ترقی کرے گا، فتنہ بھی اٹھے گا، مگر اللہ تعالیٰ اس کا محافظ ہے”۔حضور پر نور کی مخصوص دعاؤں اور آپ کے نواسہ حضرت محدث اعظم کی جاندار سرپرستی اور ارکان عمائد دارالعلوم غلامانِ سلسلۂ اشرفیہ کی غیر معمولی جدوجہد اور ایثار اور اخلاص نے غیر معمولی رفتار سے ترقی کے منازل طے کرنا شروع کردیے۔ 1960 عیسوی تک حضرت محدث اعظم ہند کی مضبوط و مستحکم سرپرستی میں دار العلوم اشرفیہ مبارکپور نشیب و فراز کے بھنور سے نکلتا رہا۔ آپ کے وصال کے بعد غوثِ وقت، مخدوم المشائخ، تاجدار اہلسنت حضرت مولانا سید شاہ مختار اشرف علیہ الرحمہ نے سرپرستی کے منصب کو رونق دی۔ (مخدوم الاولیاء محبوب ربانی، صفحہ: 347)دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ آپ فرماتے تھے: “اگر میری زندگانی نے وفا کی تو جامعہ اشرفیہ کو ہندوستان کا جامع ازہر بنادوں گا “۔ (مخدوم الاولیا محبوب ربانی، صفحہ: 334)اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ النورانی مدرسہ اشرفیہ کے تاحیات سرپرست رہے۔ اس کے بعد سید محدث اعظم ہند اشرفی الجیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے اس ادارہ کی سرپرستی کی۔ ان کے وصال کے بعد غیر متبدل دستوری ضمانت کے مطابق سرکارکلاں حضرت سید مختار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ کی طرف سرپرستی منتقل ہوئی۔ اس حوالے سے معروف ناقد و ادیب ڈاکٹر فضل الرحمان شرر مصباحی مرحوم اپنے ایک وقیع مضمون ”اشرفی، اشرفیہ اور اشرف العلما“ مطبوعہ “اشرف العلماء نمبر”، ماہنامہ ماہ نور، نئی دہلی میں اپنی بہن کے حوالے سے اہل مبارک پور کا آنکھوں دیکھا حال اور دار العلوم اشرفیہ کی تقریب سنگ بنیاد کے سلسلے میں رقم طراز ہیں:”مشرقی ہند کا عظیم الشان دینی ادارہ دار العلوم اشرفیہ جو اب جامعہ اشرفیہ کے نام سے جانا جاتا ہے اس کی نیو آپ ہی کی رکھی ہوئی ہے اور آپ ہی سے منسوب ہو کر یہ ادارہ چہار دانگ عالم میں بلندیوں کی سطح مرتفع پر دیکھا جاتا ہے ۔ ہمارے مبارکپور اور اطراف میں حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ کو میاں بابا کے نام سے جانا جاتا ہے، جب میاں بابا پالکی پر سوار ہوکر قصبہ میں آتے اور حاجی خیر اللہ دلال صاحب کے مکان واقع لال چوک پر فروکش ہوتے تو آپ کی زیارت کے لیے ازدحام خلائق ہو جاتا تھا، میری بڑی بہن عابدہ بیگم اپنے بچپن کا قصہ سناتیں کہ جب میاں بابا مبارک پور آتے تھے تو پورے قصبے میں عید کا سا سماں ہو جاتا تھا، کیا بچے، کیا جوان، کیا بوڑھے، کیا مرد، کیا عورتیں ہر ایک میاں بابا کے فیوض و برکات سے مستفیض ہونے کے لیے لال چوک کی طرف رخ کرتا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مبارک پور میں دار العلوم اشرفیہ کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا، لیکن اہل سنت و جماعت کا ایک ادارہ بنام مصباح العلوم محلہ پرانی بستی میں قائم تھا۔ جب اہل قصبہ کو ’’جاۓ تنگ است و مردمان بسیار “ کے مصداق ضرورت کے اعتبار سے ادارہ کی توسیع کا خیال آیا تو مبارک پور کے رئیس اعظم جناب شیخ محمد امین انصاری نے چند رؤسائے قصبہ حاجی محمد عمران انصاری ، حاجی محمد یوسف مناظر اشرفی، حاجی یاد علی اشرفی، حاجی محمد رفیع سوداگر اشرفی اور حاجی محمد طلحہ وغیر ہم کو بلا کر ایک مشاورتی میٹنگ کی جس میں طے پایا کہ موجودہ ادارہ ضرورت کی کفالت نہیں کرتا اس لیے اس کی توسیع ضروری ہے، چناں چہ شیخ محمد امین انصاری نے گولہ بازار میں اپنے گھرانے کی ایک وسیع اراضی کی نشان دہی کی ۔اس طرح شیخ صاحب کے گھرانے کی موقوفہ زمین پر دارالعلوم اہل سنت اشرفیہ مصباح العلوم کا قیام عمل میں آیا اور میاں بابا یعنی حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ نے چاندی کی کرنی سے اس کی نیورکھی اور کہا کہ: “فقیر نے اپنی کرنی تو کر لی اب تم لوگ اپنی کرنی کر کے دکھاؤ‘‘، پھر اہل قصبہ نے اپنے پیر طریقت کی ”کرنی “ کی لاج رکھتے ہوئے اشرفیہ کی تعمیر میں دامے درمے قدمے سخنے ایساحصہ لیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔”ڈاکٹر شرر مصباحی صاحب مرحوم کے اس اقتباس سے دار العلوم اشرفیہ کے قیام کا پورا منظر سامنے آجاتا ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت اشرفی میاں دینی امور میں حصہ داری کے لیے اپنے مریدوں کو کس طرح ابھارتے تھے ۔ اس کے علاوہ جب بھی دین اور سواد اعظم اہل سنت کو ضرورت پڑی تو حضرت اشرفی میاں پیش پیش رہے ۔ یہاں تک کہ انسداد شدھی تحریک میں بھی آپ کا بڑا اہم کردار ہے ۔ ۱۳۵۳ھ سے اخیر عمر تک آپ (حضرت اشرفی میاں ) نے دار العلوم اشرفیہ کی سرپرستی فرمائی۔ اس ادارہ کی تمام خدمات آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔حضرت قاری محمد یحییٰ صاحب قبلہ علیہ الرحمہ ناظم دار العلوم اشرفیہ مبارکپور نے چہل سالہ رپورٹ جو آپ نے کل ہند تعلیمی کانفرنس مبارکپور میں پڑھ کر سنائی جس مجلس میں مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ بھی موجود تھے جو کہ مئی ١٩٧٢ء میں منعقد ہوئی تھی اس رپورٹ میں لکھا ہے: “حضرات! ایک نئے دور کے نقطہ آغاز پر پہنچ کر آج ان مقدس ہستیوں کی یاد میں ہماری آنکھیں پرنم ہوتی جا رہی ہیں جن کے مبارک ہاتھوں نے دارالعلوم اشرفیہ کی بنیاد ڈالی تھی۔کاش آج وہ ہمارے درمیان ہوتے اور اپنے جذبہء اخلاص کی برکتوں کا یہ تماشا خود دیکھتے کہ کل ان کا جاری کیا ہوا چشمۂ فیض آج سمندر کی ناپیدا کنار وسعتوں میں تبدیل ہو گیا ہے۔اس موقع پر دل نیاز کیش کا اصرار ہے کہ چند لمحے خاموش رہ کر اِس عظیم درس گاہ کے بانیوں اور سرپرستوں کے حضور میں ہم خراج عقیدت پیش کریں۔پس آئیے ہم مل جل کر ہاتھ اٹھائیں اور ناموس خانوادۂ اشرفیہ، قطب الوقت حضرت سرکار”سید علی حسین”اشرفی میاں صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ اور امین معارف برکاتیہ رضویہ فقیہ النفس حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الاسلام سیادت پناہ حضور”سید محمد اشرف”محدث اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کی ارواح طیبات کو ہدیۂ ثواب نذر کریں۔(چہل سالہ رپورٹ، دارالعلوم اہل سنت مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم مبارکپور ضلع اعظم گڑھ، ص: ٣، شائع کردہ مجلس استقبالیہ کل ہند تعلیمی کانفرنس، مبارکپور)خود حافظ ملت اشرفی علیہ الرحمہ فرماتے تھے کہ: جب حضرت ‘اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ’ نے بازار میں نئے مدرسہ کی بنیاد رکھی جس کا تاریخی نام باغ فردوس(1353ھ) ہے اور یہ واقعی باغ فردوس ہے اس کا یہ نام آسمان سے اترا ہے تو اس کی پہلی اینٹ رکھنے کے بعد حضرت ‘اشرفی میاں علیہ الرحمہ’ نے فرمایا: “جو اس’مدرسہ’ کی ایک اینٹ کھسکائے گا خدا اس کی دو اینٹ کھسکائے گا۔” (ملفوظات حافظ ملت ص ٤٠ تا ٤١، مرتب: مولانا اختر حسین فیضی مصباحی، اشاعت ١٤١٥ھ، ناشر المجمع الاسلامی مبارک پور اعظم گڑھ، بحوالہ: ماہنامہ اشرفیہ جنوری-فروری، ١٩٨٣ء از مولانا عبد المبین نعمانی مصباحی) آپ (یعنی اشرفی میاں علیہ الرحمہ) حج سے تشریف لائے تو بیمار ہو گئے مجھے (یعنی حافظ ملت علیہ الرحمہ کو) معلوم ہوا تو فوراً کچھوچھہ مقدسہ زیارت کے لئے حاضر ہوا، حضرت نے دیکھتے ہی سب سے پہلے مدرسہ کے بارے دریافت فرمایا کہ مدرسہ چل رہا ہے؟ میں نے عرض کیا حضور! مدرسہ چل رہا ہے، پھل رہا ہے، پھول رہا ہے، اس وقت تقریباً ستر طلبہ کو خوراک ملتی ہے- (ملفوظات حافظ ملت، ص ٤٠ تا ٤١، مرتب: مولانا اختر حسین فیضی مصباحی، اشاعت ١٤١٥ھ، ناشر المجمع الاسلامی مبارک پور اعظم گڑھ، بحوالہ: ماہنامہ اشرفیہ جنوری-فروری، ١٩٨٣ء) اعلی حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ سے حافظ ملت علیہ الرحمہ کی عقیدت: دارالعلوم معینیہ، اجمیر شریف کے زمانۂ طالب علمی میں حضرت حافظ ملت، شیخ المشائخ اشرفی میاں قبلہ کے دست اقدس پر سلسلۂ عالیہ قادریہ معمریہ میں بیعت ہوگئے تھے ۔ اس سلسلۂ مقدسہ میں غوث اعظم رضی اللہ عنہ تک صرف چار واسطے ہیں۔جب حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ دار العلوم اشرفیہ مبارک پور میں صدر المدرسین کی حیثیت سے تشریف لاۓ تو قریب قریب ہر سال حضور اشرفی میاں دار العلوم میں تشریف لایا کرتے تھے ۔ ایک بار جب آپ کی آمد ہوئی تو آپ نے حافظ ملت علیہ الرحمہ کو خلافت دینا چاہی لیکن آپ نے اپنی منکسر المزاجی کی وجہ سے عرض کی کہ حضور مجھ میں تو کچھ صلاحیت نہیں ، میں خلافت کیسے لوں ؟ جوابا حضرت شیخ المشائخ نے فرمایا: “داد حق را قابلیت شرط نیست”، اور خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا ۔حضرت حافظ ملت ہر سال جامع مسجد راجا مبارک شاہ، مبارک پور میں ١١ رجب المرجب کو حضرت اشرفی میاں قبلہ کاعرس منعقد کیا کرتے تھے۔حضرت مولانا عبد المبین نعمانی مصباحی خود اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ: میں اور مولانا محمد احمد صاحب مصباحی بھیروی حضرت حافظ ملت کے حضور سلسلۂ معمریہ میں طالب ہونے کی غرض سے حاضر ہوئے کہ اس کے ذریعہ غوث پاک سے صرف چار واسطہ ہے اور روحانی فیوض و برکات سے محظوظ ہونے کا زیادہ موقع ملے گا، مقصد جان کر حضرت حافط ملت علیہ الرحمہ نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے فرمایا: حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ بڑی خصوصیتوں کے مالک تھے، ان میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ نہایت خوبصورت، وجیہ اور لانبے تھے، اب تک آپ جیسا چہرہ دیکھنے میں نہیں آیا، آپ کا لقب شبیہ غوث اعظم تھا، حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کو عالم خواب میں دیکھنے والوں نے اس کی شہادت دی ہے اور ان کے یعنی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے’شبیہ غوث اعظم’ ہونے کا اقرار کیا ہے۔ (ملفوظات حافظ ملت ص ٧٠، مرتب: مولانا اختر حسین فیضی مصباحی، اشاعت ١٤١٥ھ، ناشر المجمع الاسلامی مبارک پور اعظم گڑھ، بحوالہ: قلمی یادداشت از مولانا عبد المبین نعمانی مصباحی)(یہ تحریر مختلف احباب کی اس حوالے سے لکھی تحریروں اور آن لائن معلومات سے مأخوذ ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *