منظوم سوانح اعلیٰ حضرت ایک اجمالی تبصرہ

Spread the love

منظوم سوانح اعلیٰ حضرت ایک اجمالی تبصرہ


از: محمد فیضان رضا علیمی
رضا باغ گنگٹی
مدیراعلی سہ ماہی پیام بصیرت سیتامڑھی

ہر عاشقِ اعلیٰ حضرت کی دلی خواہش تھی کہ کوئی ایسا قادرالکلام، فصیح اللسان، بلیغ البیان اور نادر المثال شاعر میدان عمل میں رونما ہو جو اقلیم نعت کے فرمانراں، عاشق شاہِ عرب و عجم، قاطعِ شرک و کفر سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی قدس سرہ الغنی کی حیات مستعار کو نظم کے پیرایہ میں یکجا کرے جسے دیکھ کر محبان رضا جھوم جھوم اٹھیں۔

خداے قدیر نے یہ سہرا محبِ گرامی قدر، نقیبِ انقلاب، شاعرِ نکتہ داں، مفکرِ ملت حضرت حافظ و قاری مولانا محبوب گوہر اسلام پوری کے سر سجایا۔ گرچہ ان سے پہلے خلیفۂ اعلیٰ حضرت، شاعرِ قادر الکلام مفتی محمود جان جام جودھ پوری علیہ الرحمہ نے منظوم سوانح لکھی تھی لیکن وہ نہایت مختصر اور طویل عرصہ گزر جانے کی وجہ سے گمنامی کا شکار ہوچکی ہے۔


محترم محبوب گوہر اسلام پوری نے منظوم سوانح اعلیٰ حضرت لکھ کر پوری جماعتِ اہل سنت کے سر سے ایک عظیم کام کا بوجھ اتارا ہے اور اس کام کی وجہ سے وہ جماعتِ اہل سنت میں مقبول خاص و عام بھی ہونے لگے ہیں۔

تیزی کے ساتھ ان کی مقبولیت کا دائرہ پھیلنے لگا ہے انہوں نے اسی سوانح کے ابتدائیہ میں ایک جگہ ایک مصرع کہا ہے جس کے وہ خود بھی مصداق ہوگئے ہیں۔


اہل دل میں ذات ان کی بن گئی روشن مثال
گرچہ یہ مصرع انہوں نے اعلیٰ حضرت کے لیے استعمال کیا ہے لیکن ان کے کارنامے اور اس کی مقبولیت کو دیکھ کر فقیر علیمی یہ مصرع ان کے لیے بھی کہتا ہے۔


اہل دل میں ذات ان کی بن گئی روشن مثال
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی ذات ستودہ صفات پر ہر زمانہ میں کام ہوتا رہا ہے اور ان کی ذات اس قدر مقناطیسی ہے کہ صبح قیامت تک ان شاء اللہ کام ہوتا رہے گا۔ منظوم سوانح مولانا محبوب گوہر کی ایک عظیم کاوش ہے اور ان کے دل کی آواز بھی
وہ خود لکھتے ہیں۔


میری خواہش تھی کروں ذکر رضا اشعار میں
کونپلیں تازہ اگیں یوں فکر کے گلزار میں
محبِ مکرم گوہر اسلام پوری نے اس دبستان شعر و سخن میں پچیس سو اشعار کہے ہیں جس کو شعر میں یوں بیان کرتے ہیں۔
ان میں کل اشعار کی تعداد ہے ڈھائی ہزار
نو بہ نو، تازہ بہ تازہ، ہے عقیدت کی بہار


اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نوراللہ مرقدہ کی حیات و خدمات کے عظیم گوشوں کو شعری تناظر میں اس خوش اسلوبی کے ساتھ انہوں نے پیش کیا ہے کہ جب پڑھنا شروع کیجیے تو پڑھتے جائیے میرا یقین ہے کہ قلتِ وقت کا احساس تو ہوگا لیکن اکتاہٹ کا گمان بھی نہ ہوگا کیونکہ مولانا محبوب گوہر نے اپنے اشعار میں زبان و بیان کی اسلوبیاتی کشش اور ادب کی چاشنی کو برقرار رکھا ہے۔


خاندانی پس منظر اور آبا و اجداد کو بڑے انوکھے انداز میں پیش گیا ہے۔ جس کو پڑھنے کے بعد پورے خاندان کے بارے میں ایک اچھا خاصہ مواد ذہن نشین ہوجاتا ہے۔ مولانا موصوف نے پورے خاندان کا تعارف اپنے اس شعر سے شروع کیا ہے۔


شہ امام احمد رضا کا ہے معزز خاندان
جس میں سب کے سب ہیں علم و آگہی کے مالکان


اسی طرح امام عشق و محبت کی حیات مبارکہ کے باقی اہم ترین گوشوں کو بھی عمدہ اسلوب وادا کے ساتھ پیش کرنے کی کام یاب کوشش کی ہے۔ امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی قدس سرہ کے عمدہ اخلاق و عادات اور خصائل و اوصاف کو مولانا محبوب گوہر نے کتنے عمدہ طریقے سے پیش کیا یہ تو آپ جب کتاب پڑھیں گے تب معلوم ہوگا البتہ اس کا ایک شعر دیکھیے جس میں انہوں نے سب کچھ جمع کر دیا ہے۔


پاک طینت، نیک خصلت، نرم دل، سادہ مزاج
حسنِ کردار و عمل کا خوب صورت امتزاج
یوں ہی نماز باجماعت کی ادائیگی کو بڑے انوکھے اسلوب میں گوہر صاحب نے بیان کیا ہے۔
باجماعت کرتے مسجد میں نمازیں وہ ادا
سردی ہو، گرمی ہو، چاہے ہو دَور برسات کا
اس شعر کے ذریعہ گوہر صاحب نے جہاں امام اہلِ سنت کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی بات کہی ہے وہیں امام عشق و محبت کے ماننے والے کو یہ پیغام بھی دینے کوشش کی ہے کہ ہمارے امام ہر موسم میں مسجد جاکر جماعت سے نمازپڑھتے تھے

لہذا ہم ان کے شیدائی ہیں تو ہمیں بھی مسجد آباد کرنی چاہیے کہ آج ہماری مسجدیں ویران ہو رہی ہیں لوگ نماز تو پڑھتے ہیں لیکن مسجد نہیں جاتے اور اپنی مصروفیت کا بہانا بناتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے گوہر صاحب کا یہ شعر عبرت ہے ان کا دوسرا شعرتو اور انوکھا ہے۔


گھر سے اکثر جایا کرتے تھے وہ فرما کر وضو
بیٹھتے تھے با ادب مسجد کے اندر قبلہ رو
یہ شعر مسجد جانے اور وہاں بیٹھنے دونوں کے آداب کو بتا رہا ہے۔

اس طرح تقوی و طہارت کے باب میں امام اہل سنت کی ہراداے کریمانہ کو بیان کیا گیا ہے۔


محترم مولانا محبوب گوہر اسلام پوری نے اپنی پوری کتاب میں امام اہل سنت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات کے اکثر گوشوں کو اسی طرح عمدہ اسلوب، بہتر طرزِ نگارش اور خوب صورت پیرایہ میں پیش کیا ہے۔


مولانا موصوف نے اس کتاب میں چودہ ابواب قائم کیے ہیں۔ ہر باب میں چند ذیلی عنوانات ہیں جس کے تحت کئی کئی اشعار بیان کیے گئے ہیں۔ ہر عنوان کا ہر شعر عمدہ، اچھا، قابل قدر اور بہتر ہے۔


ارباب اہل سنت و جماعت سے ایک التجا فقیر علیمی یہ کرتا ہے کہ محب مکرم مولانا محبوب گوہر اسلام پوری کی اس کاوش کا ضرور ایک بار مطالعہ کریں اور اتنے بڑے اور اچھے کام پر ان خوب قدر کریں کہ وہ اس کے مستحق ہیں ۔اور میری خواہش ہے کہ اتری بہار کے سارے علما و مشائخ سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس منظوم سوانح پر ایک سیمینار کا اعلان کریں۔ تاکہ اس بڑے کام کے پوشیدہ محاسن کو اجاگر کیا جاسکے اور منظوم نگار کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔


مولانا محبوب گوہر ایک بلند پایہ شاعر، عمدہ فکر و فن کے مالک، بہتر طرزِ اسلوب کے فرد فرید اور فی البدیہہ شعر و سخن کے قابل قدر فرزند کی حیثیت سے کاروان علم و ادب میں متعارف ہیں ان کی مقبولیت پہلے تو تھی ہی لیکن اس منظوم سوانح نے رہی سہی کسر کو ختم کر دیا ہے اور اب اکابرِ اہم سنت کی نگاہوں کا تارہ بھی بن گئے ہیں۔ میں اپنی بات محب مکرم حافظ مولانا واصف رضا واصف کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں۔


خوش تخیل، خوش تجمل، خوش نگاہ و خوش کلام
حضرت محبوب گوہر ہیں ادیب نیک نام


از: محمد فیضان رضا علیمی، رضا باغ گنگٹی
مدیر اعلی: سہ ماہی پیامِ بصیرت سیتامڑھی
مدرس: مدرسہ قادریہ سلیمیہ چھپرہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *