تحقیق کا ہے نقش مکمل یہ تذکرہ
تحقیق کا ہے نقش مکمل یہ تذکرہ
نشاط رومی مصباحی (کٹیہار، بہار)
تاریخ کی وسیع و عریض اور رنگا رنگ کائنات میں کسی قوم یا خطے کے عروج و زوال کے اسباب، جنگجوؤں اور فاتحین کی داستان، ظالم و عادل ہر دو طرح کے فرماں روائے وقت کی کشور کشائی اور عظیم الشان سلطنتوں کے آغاز و ارتقا، رعایا کے اخلاق و عادات، نقشہ حیات کو زیر و زبر کرنے والے درویشان حق کے امثال، تمدن و معاشرت میں مد و جزر پیدا کرنے والے مصلحوں اور معماروں کے غیر معمولی کردار اہم عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تاریخ کی جنگاہ سے ابھرنے والے یہ نقوش اپنے مابعد کے ادوار کے لیے کسی نہ کسی طور پر کشش رکھتے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی نے کسی حکیم سے منقول تاریخ کی تعریف میں لکھا ہے۔ ”ان حالات اور واقعات کا پتہ لگانا جن سے دریافت ہو کہ موجودہ زمانہ گزشتہ زمانے سے کیوں کر بطور نتیجہ کے پیدا ہوگیا ہے“ظاہر ہے کہ آج کے جس تہذیب و ثقافت بھرے دور میں ہم جی رہے ہیں، وہ تدریجاً کسی تاریخ کے عروج و زوال کے نتیجے میں نمودار ہوا ہے
اب یہ اور بات ہے کہ تغیر زمانی کے باوجود اس کی قدیمی حیثیت کن کن جہتوں میں برقرار رہی، کہاں کہاں اس کے تقاضے بدل گۓ۔ اور ان سب کے پیچھے کون کون سے اسباب و محرکات رہے۔
مگر زمانہ حال کا الگ رنگ، الگ ڈھنگ رکھنے والا انسان ماضی کے دریچے میں ضرور جھانکنا چاہے گا تاکہ وہ اپنی عظمت رفتہ کی بہاریں دیکھ کر حرارت قلبی، حمیت خودی کو بیدار کرسکے اور اس سے شعور و آگاہی، تدبر و تفکر کا نور کشید کرکے ماضی و حال کے تقابل و تجزیہ سے ایک تابناک مستقبل کا خواب شرمندۂ تعبیر کرسکے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ تاریخ نویسی کو مستقل فن کا استناد و اعتبار ملا اور تاریخ کی جمع و ترتیب اور اس کی قدر شناسی کو زندہ دلی، بلند خیالی سے تعبیر کیا گیا۔
تاریخ کی اس مسلمہ اہمیت و معنویت کے ادراک کے بعد جب سرزمین پنڈوہ اور اس کے ہمہ رنگ آثار و باقیات، اہلیان خدا کے عالیشان مزارات و مقبرات سے نگاہیں چار ہوتی ہیں تو یہ خیال سرگوشی کرتا ہے کیا وجہ ہے کہ اس سرزمین میں آسودہ خاک بندگان خدا کی عقیدتوں کے چراغ ہمارے دلوں میں جل رہے ہیں، اور اس کے قدیم عمارات و کھنڈرات سے ایک پرشکوہ ماضی کا عکس جھلک رہا ہے۔
بلکہ اس وقت تو حیرانی اور تجسس سے ملی جلی کیفیت ہم پر طاری ہوجاتی ہے جب ہم یہ سارے مشاہدات اس سرزمین کی پسماندگی اور زبوں حالی کے ساتھ ملا کر کرتے ہیں کہ آخر ماضی کا وہ کون سا خد و خال ہے جس کے جلوؤں کا عکس ہمارے حال پر نہ پڑ سکا۔
تہذیب و تمدن کا وہ کون سا منارہ تھا جس کے ساۓ میں ہمارے اخلاق و عادات پروان چڑھنے کے بجائے گرتے چلے گئے۔ چنانچہ یہاں سے پنڈوہ کی تاریخ دانی ہماری ایک اہم ضرورت بن جاتی ہے، تاکہ ماضی کی کڑیوں کو جوڑ کر ہم اپنی حیرانیوں اور الجھنوں کا تصفیہ کرسکیں۔
ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے یہ الگ بات ہے کہ تاریخ نویسی پر کوئی ایجادی معنی و مفہوم منطبق نہیں ہوتا ہے مگر جو دل سوزی اور جگر کاوی کسی شئ کے ایجاد کے لیے مطلوب ہوتی ہے وہی مجتہدانہ حوصلگی اور پامردی ایسی تاریخ کی بازیافت میں چاہۓ ہوتی ہے جس کی سطح افراد زمانہ کی بے حسی اور سرد مہری سے گرد آلود ہوچکی ہو۔
ان تمام تر درماندگیوں اور شکوہ سنجیوں کے بیچ ”آئینہ پنڈوہ“ کے لمس تازہ سے جو سرور و کیف محسوس کیا جاسکتا ہے، اسے ہم الفاظ و معانی کا پیراہن دے کر خواہ مخواہ محدود نہیں کرنا چاہتے۔عجو کچھ کہا تو ترا حسن ہوگیا محدود کتاب ”آئینہ پنڈوہ“ مفتی ذاکر حسین اشرفی جامعی کی تلاش و تفحص اور تحقیق و تالیف کی زور آزمائی کا شاہکار کارنامہ ہے۔
تاریخ پنڈوہ کی اس اہم بازیافت کے لیے وہ عقیدت مندان پنڈوہ سمیت پوری علمی دنیا کی طرف سے مبارک باد کے قابل ہیں۔ ٹائٹل پیج کے بالائی حصہ پر لکھا ہے ”سرزمین پنڈوہ شریف کی علمی ادبی سیاسی اور روحانی تاریخ پر مشتمل اولین تحقیقی دستاویز“ یہ عبارت کتاب سے ہم نے جوں کا توں ہی نقل کیا ہے۔
”علمی ادبی سیاسی“ کے درمیان کتابتی سہو سے قومہ (،) شامل ہونے سے رہ گیا ہے۔ کتاب کے اوائل صفحات میں ”صداے دل“ کے عنوان سے مرتب کتاب نے جو کچھ لکھا ہے وہ ہماری شکوہ سنجیوں کے اجمال کی تفصیل کے ساتھ ساتھ مراد برآری کا پروانہ بھی ہے۔
لکھتے ہیں:”بے رحم ہاتھوں نے پنڈوہ کے بے شمار آثار و علامات تک مٹا دۓ ہیں، بفضلہ تعالٰی ہم نے ان آثار کی تحقیق و جستجو میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے تاکہ پنڈوہ کے ماضی بعید کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے اجاگر ہوسکے اور دنیا اس کی حقیقت سے کما حقہ واقف ہو“
کتاب شروع ہونے سے پہلے فاضل گرامی مفتی صدام مصباحی کا نہایت شاندار اور وقیع مقدمہ ذوق مطالعہ کو مہمیز کرتا ہے۔ پوری کتاب کے مطالعہ کے بعد مقدمہ پھر سے پڑھۓ تو لگتا ہے کہ کوزے میں سمندر سمیٹ دیا گیا ہے۔
مفتی صدام صاحب کی اب تک ایک یا دو ہی تحریریں نگاہوں کی زینت بنی ہیں مگر ان کی فکر رسا اور زور قلم نے ہمیں احساس دلایا ہے۔در پس آئینہ طوطی صفتم داشتہ اندآنچہ استاذ ازل گفت ہماں می گوئم
کتاب کے مشمولات پر بات کی جاۓ تو ٣٠٤ صفحات کو محیط یہ تاریخی گلدستہ تین ابواب پر منقسم ہے۔
باب اول: تاریخی و تہذیبی حالات باب دوم: روحانیت باب سوم: بنگال میں خانقاہ چشتیہ علائیہ کا آغاز و ارتقاپھر ان تین ابواب کے تحت جو کچھ لکھا گیا ہے، مؤلف نے اپنے اظہاریہ میں اس کا بھی خاکہ پیش کردیا ہے۔”تاریخ بنگال پر ایک نظر، فتح بنگال اور مسلمانوں کی آمد، پنڈوہ تاریخ کے تناظر میں
پنڈوہ کے قدیم نام، پنڈوہ کی وجہ تسمیہ، پنڈوہ کی سیاسی حیثیت، پنڈوہ کی تاریخی عمارتیں، پنڈوہ کے چلہ خانے، پنڈوہ کے تاریخی کتبات، ولایت بنگال، پنڈوہ کی روحانی عظمت، بزرگانِ پنڈوہ کے حالات و کارنامے، ارادت مندان بزرگانِ پنڈوہ کی علمی و روحانی شخصیات، تاریخ پنڈوہ میں انقلاب برپا کرنے والے سہروردی مبلغین، پنڈوہ کی علمی نشأۃ ثانیہ۔
یہ کتاب کئ اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے۔ پہلی وجہ تو یہی ہے کہ تاریخ پنڈوہ پر لکھی جانی والی پہلی دستاویز ہے۔ لہذا کل کا محقق جب پنڈوہ کو اپنی تحقیق کی جولان گاہ بناۓ گا تو وہ شکوہ و درماندگی کے بجائے آئینہ پنڈوہ کو اپنا معاون پاۓ گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تاریخ نویسی، تذکرہ نویسی کے اصول و اجزا اور تحقیق کے جدید منہج و منہاج پر یہ کتاب کامل اترتی ہے۔
جو کچھ بھی لکھا گیا ہے اس کی شہادتوں کو جمع کرنے میں واقعی محنت کی گئ ہے، حوالوں کا اندراج، حسب محل توضیح و تنقیح کے لیے حاشیہ کا اہتمام کتاب کے معیار کو بڑھاتا ہے۔ البتہ انگریزی پیراگراف میں جو فونٹ استعمال کیا گیا ہے کچھ غیر مانوس سا معلوم ہورہا ہے، اشاعت ثانی میں اس پر نظر ہونی چاہیے۔
اہمیت کی تیسری وجہ پیرایہ بیان میں شگفتگی اور شائستگی کے ساتھ بے ساختگی اور سادگی ہے۔ اور چوتھی وجہ یہ ہے کہ زیرِ نظر کتاب محض بزرگانِ پنڈوہ سے عقیدتوں کے اظہار کا بیانیہ نہیں ہے بلکہ پورے پنڈوہ کی تاریخ کو واقعی تاریخ کے حساب سے لکھی گئ ہے۔
یہ بات اس لۓ بھی قابل ذکر ہے کہ مذہبی شخصیات کی سوانح نگاری، تذکرہ نویسی کے سلسلے میں ہائر ایجوکیشن طبقے میں اکثر یہ رجحان ہوتا ہے کہ اگر کسی خانقاہ یا پیر صاحب پر لکھی ہوئی کتاب ہے تو گویا گھسے پٹے اسلوب میں پیر صاحب سے عقیدت و محبت کا بیان، ان کے القاب کا ڈھنڈورا اور چند کرامات کا مجموعہ ہی ہوگا۔
خیرآبادی سلسلہ علم و فضل کے احوال و آثار پر علامہ اسید الحق قادری بدایونی علیہ الرحمہ کی معرکہ آرا کتاب ”خیرآبادیات“ پر ڈاکٹر سلمہ سیہول، پاکستان نے جو تاثر پیش کیا ہے وہ در اصل اسی رجحان کا استعارہ ہے، لکھتی ہیں:
”خیال تھا کہ علامہ محمد فضل حق خیرآبادی کی وفات کے ڈیرھ سو سال مکمل ہونے پر خیرآبادیات از مولانا اسید الحق قادری بدایونی مدرسۂ بدایوں کی اپنے واجب سے عہدہ برآ ہونے کی محض ایک عقیدت مندانہ کوشش ہوگی۔
مگر مطالعہ کتاب جس قدر بڑھتا گیا، احساسات و خیالات بدلتے گۓ اور فضل حق پسندوں سے میرا شکوہ و گلہ کم اور غصہ ٹھنڈا پڑتا چلا گیا“بزرگوں کے علمی تراث کو نئ نسل تک پہنچانے کے لیے جدید اصولِ تحقیق اور شائستہ اسلوب بیان کا استعمال ناگزیر ہے۔
اسی میتھڈ سے متنفر طبقہ کی خلیج کو پاٹنے میں آسانی ہوگی اور انہیں صوفیا و مشائخ کی روشن تعلیمات سے قریب کرنا ممکن ہوگا۔
آخر میں ہم اس کتاب کے مؤلف و مرتب اور مخدوم اشرف مشن، پنڈوہ شریف کے مایہ ناز استاذ مفتی ذاکر حسین اشرفی جامعی (کٹیہار) کی بارگاہ میں ہدیہ تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں، درس و افتا کی شدید مصروفیات کے ساتھ تصنیف و تالیف کا یہ اعلیٰ ذوق و مزاج باعث صد رشک ہے۔
یہ تبصرہ عزیز دوست مولانا ثاقب قمری مصباحی کا شکریہ ادا کئے مکمل نہیں ہوسکتا جو اس گراں قدر علمی تحفے کے موصول ہونے میں واسطہ بنے۔ انہوں نے اس کتاب پر قطعہ تاریخ بھی لکھا ہے۔ ہم نے انہیں کے لکھے ہوۓ قطعہ سے تبصرہ کا عنوان بنایا ہے۔تحقیق کا ہے نقش مکمل یہ تذکرہ