ایمان و عقیدہ کی بقا و تحفظ کے لیے مدارس اسلامیہ کی ضرورت
ایمان و عقیدہ کی بقا و تحفظ کے لیے مدارس اسلامیہ کی ضرورت
اس کی واضح مثال ہے دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ
از:محمّدشمیم احمد نوری مصباحی!خادم:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،پوسٹ:گرڈیا[تحصیل:رامسر]ضلع:باڑمیر{راجستھان}
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صدیوں سے درسگاہیں اور دانشگاہیں قائم ہیں، اور مدارس و مکاتب کے قیام کا سلسلہ جاری ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا، ان کا مقام و مرتبہ حقیقت میں وہی جانتا ہے جس کے دل میں دینی وایمانی بیداری کا جذبہ موجود ہے-
وہ مدارس جن میں قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر ،عقائد اور صرف و نحو وغیرہ کی تعلیم ہوتی ہے انہیں عام طور پر دارالعلوم کہا جاتا ہے، ہر علاقے میں میں ان کا قیام اور اس کو فروغ و ترقی دینا بھی ضروری ہے- ہر سنی دارالعلوم ہمارے لئے دینی وعلمی قلعہ ہے، یہاں سے علم کی لہریں نکلتی ہیں جو بستیوں اور آبادیوں کو سیراب کرتی ہیں
آج کے اس پرفتن دور میں مدارسِ اسلامیہ کی اہمیت و ضرورت اس لیے اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ آج پوری دنیااور خاص طور پرعالَمِ اسلام پر ذہنی وایمانی ارتداد کی یلغار چاروں طرف سے ہورہی ہے اور فتنہ انگیز آندھیوں کی طرح قوم و ملت کے ہر فرد کو اپنی رنگینیوں اور چکاچوندھ کردینےوالی فریب کاریوں سے دلوں کو غیر محسوس طریقہ پر اعتقادات وعبادات، اخلاقیات ومعاملات،معاشرت ومصاحبت اور شعائرِ اسلام کے اصول و ضوابط کو ذہنوں سے مٹا کر اپنی گندی چھاپ کو بٹھا رہی ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو شک کے دائرے میں رکھ کر مسلمانوں کا مکمل ارتداد ہوسکے-
مدارس اسلامیہ کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی ذہنی تشکیل کی جائے اور ان کے اسلام کا نشو ونما کیا جائے! مدارس اسلامیہ برصغیر میں ملت اسلامیہ کے لئے ایک نعمت عظمیٰ اور اسلامی تشخص کی بقا کی ضمانت ہیں ،اس لیے مدارس اسلامیہ کی بقا وتحفّظ کے لئےتمام برادران اسلام کا فرض ہے کہ ان کا ہر ممکن مدد و تعاون کریں، کیونکہ یقیناً مدارس کی ترقی ہمارے مستقبل کو انشاللہ روشن و تابناک کرے گی
ہمارے دینی مدرسے جن کو ہم صرف دینی تعلیم گاہ سمجھتے ہیں یہ صرف تعلیم گاہیں نہیں ہیں بلکہ دینی تعلیم گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ دینی “پاور ہاؤس” بھی ہیں، کیونکہ جس طرح پاورہاؤس سے پورے علاقے میں بجلی پہنچتی ہے اور علاقوں کو روشن کر دیتی ہے، تاریکی کو دور کردیتی ہے ،جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ،اندھیروں میں اجالا ہوتا ہے، اسی طرح یہ مدرسے ہیں کہ ان سے پوری امت مسلمہ کوفیض پہنچتا ہے
مسجدوں کے امام، مدرسوں کے مدرسین اور قوم کے قائد و مقتدا اور مشائخ طریقت بھی انہی سرچشموں سے نکلتے ہیں، اس لیے مدارس دینیہ کا قیام اور ان کا وجود انتہائی ضروری اور بابرکت ہے جیسا کہ برصغیر میں تعلیم و تعلیم کو فروغ دینے والی عظیم شخصیت حضرت حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی ثُمَّ مبارک پوری علیہ الرحمہ کا یہ فرمان عالی شان بہت مشہور ہے کہ “مسجد بنانا ثواب، سرائے بنانا ثواب، یتیم خانہ بناناثواب،مگر مدرسہ سب سے بنیادی حیثیت رکھتا ہے ،کیونکہ اگر علما پیدا نہ ہوں گے تو ان سب کو کون آباد کرے گااورکون حفاظت کرے گا؟ اور مدرسے کو میں نے بہت سوچ سمجھ کر
اختیار کیا ہے”( حیات حافظ ملت: صفحہ: ۷۷۹) مدارس اسلامیہ کی اہمیت، افادیت وضرورت سے اب انکار کی بالکل گنجائش نہیں، ملک میں مدارس کی خدمات سے انکار سورج کے وجود سے انکار کے ہم معنیٰ ہوگا ،مدارس کا وجود اسلام اور مسلمانوں کے لیے کس قدر ضروری ہے اسے ہروہ انسان سمجھ سکتا ہے جو اسلام سے ہلکی سی بھی آشنائی رکھتا ہو
مدارس اسلامیہ جہاں دین کی تبلیغ واشاعت کااہم ذریعہ ہیں وہیں پورے ملک اورمعاشرہ کے لیے بھی انتہائی نفع بخش ہیں جس کا احساس حکومتی اہلکاروں وسیاست دانوں کوبھی ہے مگروہ اعتراف نہیں کرتے اور شاید کبھی کریں گے بھی نہیں، مدرسے ہمارے ملک وسماج کی جو خدمات انجام دے رہے ہیں وہ مختلف جہتوں میں پھیلی ہوئی ہیں جس کی تفصیل کے لیے ایک دفتر درکار ہے
یہ دینی مدارس ہی ہیں جہاں سے امت کو بہترین داعی ومبلغ، تحریکات کے لیے باصلاحیت قائد، جماعتوں اور تنظیموں کے لیے مخلص رہنما ،مخالفین اسلام کے لیے دنداں شکن مناظر، اور صاحب تحقیق قلم کار ملے ہیں -یہ دینی مدرسے ہی ہیں جہاں سے قرآن کے مفسر ،احادیث نبویہ کے شارح،فقیہ و مفتی، مسجدو محراب کو آباد کرنے والے امام وخطیب، اور حق گو و بے باک صحافی تیار ہوتے ہیں
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مکاتبِ اسلامیہ اور مدارسِ عربیہ دینی علوم، ایمان و عقیدہ اور اسلامی تہذیب و تمدن کی بقا اور تحفظ کا بہترین ذریعہ ہیں ،ان کے بغیر اسلامی علوم کے تحفّظ اورنشرواشاعت کا باقاعدہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام اور داعیان دین نے ہر دور میں دینی مدارس کے قیام کو فروغ دیا جو قوم کے نونہالوں میں دینی شعور بیدار کرنے کا کام کرتے رہے
اس کے برخلاف جس بستی یا جس علاقے میں مدارس کا قیام عمل میں نہیں آیا وہاں طرح طرح کے خرافات اور دیگر غیر اسلامی رسم و رواج نے جنم لیا اور یہ تمیز کرنا مشکل ہوگیا کہ یہ مسلم بچے ہیں یا مسلم آبادی؟
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کی دینی مدارس کا قیام جہاں بھی ہوا وہاں حق کی شمع جلنے لگی ،اسلامی روایات صاف نظر آنے لگے، اوراگر یہ کہا جائے کہ مدارسِ اسلامیہ نے ہندوستان میں مسلمانوں کو دین اسلام پر قائم رکھنے میں اہم رول ادا کیا تو قطعاً بے جا نہ ہوگا کیونکہ اس کی واضح مثال ہندوستان کے صوبہ راجستھان کے علاقۂ تھار کی عظیم دینی و مرکزی درس گاہ ” دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف” ہے
جس کو آج سے تقریبا 30 سال پہلے حضور مخدوم جہانیاں سیدناسرکار جلال الدین جہانیاں جہاں گشت علیہ الرحمہ کے خانوادہ سے تعلق رکھنے والے ایک مرد درویش ،مجاہد تھار نمونۂ اسلاف حضرت پیر سید کبیر احمد شاہ بخاری نوراللہ مرقدہ نے حضور مفتئِ اعظم راجستھان علامہ مفتی محمد اشفاق حسین صاحب نعیمی علیہ الرحمہ، جانشین مفتئِ اعظم راجستھان حضرت علّامہ مفتی شیر محمد خان صاحب رضوی مدّظلّہ العالی، مفتئ تھارحضرت علامہ مفتی صوفی ولی محمد صاحب نعیمی علیہ الرّحمہ وہندوپاک کے دیگر مشاہیرعلما و مشائخ اورساداتِ کرام کی تحریک وفرمائش پرعلاقۂ تھارکے نہایت ہی پسماندہ خِطّہ “کھاوڑ” کے بڑھتے ہوئے بدمذہبیت پر قدغن لگانے اور مسلک اعلیٰ حضرت کے فروغ و استحکام اور تعلیم و تعلم کی نشرواشاعت کے لیے اس علاقہ کے مقبول ترین ولی کامل قطبِ تھار حضرت پیرسید حاجی عالی شاہ بخاری علیہ الرحمہ کے آستانۂ عالیہ سے متصل 2 فروری 1993عیسوی کو قائم فرمایا
پیرطریقت حضرت الحاج سیدکبیر احمد شاہ بخاری علیہ الرحمہ کی خلوص ولِلّٰہیت، بزرگوں کے فیضان اور نصرت خداوندی کا نتیجہ ہے کہ اس درسگاہِ علم و فن نے اپنی مختصر سی مدت قیام میں بہت سے فارغ التحصیل طلبہ کے سروں پر دستار فضیلت وحفظ وقراءت رکھی،بہت سےمستحق ہاتھوں کو سند تکمیل سے نوازا، نہ جانے کتنے خالی سینوں میں قرآن عظیم کے تیسوں پارے محفوظ کیے، کتنے بے زبانوں کو قوّت گویائی وسلیقۂ گفتار بخشا، کتنے غیرمہذب بچوں کو اسلام کےاعلیٰ اور شائستہ کردار سے آراستہ کیا ،کتنے ناتراشیدہ ذہنوں کو تعلیم و تربیت کے ذریعہ فکر سلیم کا مالک بنایا اور اسی طرح اس درسگاہ نے نہ جانے کتنے جمہوریت پسند، محب وطن، امن پرور اور ملک و قوم کے لئے وفادار علمائے دین پیدا کیے[الحمدللہ!امسال 5 مارچ کو ہونے والے 155 ویں عرس بخاری وسالانہ جلسہ دستارفضیلت کے موقع پر 50 طلبہ کو دستار علم وفضل سے نوازاجائےگا]، اور اسی طرح حضرت پیر صاحب قبلہ علیہ الرحمہ اور آپ کے شہزادۂ گرامی پیر طریقت نورالعلماء حضرت علامہ الحاج سید نوراللّٰہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کی کوشش وتحریک اور جدوجہد کے نتیجہ میں اس ادارہ “دارالعلوم انوار مصطفی” نے اپنے ماتحت راجستھان وگجرات کے مختلف مواضعات میں پچاسی(85) تعلیمی شاخیں بھی بشکلِ مدارس ومکاتب قائم کرلی ہے، جو اپنی اپنی جگہ نونہالانِ اسلام کو عربی، فارسی، اردو، ہندی، انگریزی اور حساب وغیرہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دین وسنّیت کی گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہیں-ساتھ ہی ساتھ دارالعلوم کے ماتحت عصری تعلیم کے لیے 12 وہں کلاس تک انوارمصطفیٰ اُچ مادھیمک ودھیالیہ بھی ہے
یہ ساری چیزیں دارالعلوم انوار مصطفیٰ کی عظیم خدمات، رفتارِ ترقی اور سرگرمیوں و کامیابیوں کا واضح ثبوت ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ کے مہتمم و شیخ الحدیث پیر طریقت، رہبرراہِ شریعت، نورالعلماء حضرت علامہ الحاج سید نوراللّٰہ شاہ بخاری مدظلہ العالی خود اصابت فکرونظر، حلم و بُردباری، عفو ودرگذر،کرم وعطا،جودوسخا اور پیکرِعلم و عمل ہیں ،اور دوسروں کو بھی ایسی ہی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں، جن کا مقصد و ہدف ہی قوم وملّت کی اصلاح وتربیت کرنااورطلبہ کو اِس لائق بنانا کہ وہ تبلیغِ دین
متین کافریضہ بحسن وخوبی انجام دے سکیں آپ اس ادارہ اورادارہ کے ماتحت چلنے والی تعلیمی شاخوں کی تعلیمی وتعمیری ترقی کے لئے دن رات کوشاں رہتے ہیں ،درحقیقت اس ادارہ کے لئے آپ کی قربانیوں، عرق ریزیوں و کاوشوں اور کوششوں کا اندازہ لگانا ایک مشکل کام ہے ،صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو اس ادارہ اور دین و سنّیت کی خدمات کے لیے وقف کر رکھا ہے (اللہ عزّوجل آپ کے علم وفضل،عمراوروقت میں بےپناہ برکتیں عطافرمائے)
آخر میں ہم اپنے سبھی بہی خواہوں اور ہم دردوں اور سبھی اہل خیر حضرات سے پر زور اپیل اور بصد خلوص گزارش کرتے ہیں کہ آپ حضرات اپنے اس محبوب ادارہ وتعلیمی مرکز” دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤ شریف “کی طرف اپنی خصوصی توجہ مبذول فرمائیں اور بالخصوص موسم خیروبرکت یعنی ” رمضان المبارک “کے پر بہار مہینہ و دیگر مواقع پر اپنے اس گہوارۂ علم و ادب “دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ” کو یاد فرمائیں، دارالعلوم کو زکوٰۃ ،صدقات و خیرات اور دیگر عطیّات سے نواز کر تعلیمی وتعمیری امور میں حصہ لے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں!
(ماخوذاز:انوارمصطفیٰ میگزین شمارہ نمبر/۸)
خادم:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،پوسٹ:گرڈیا[تحصیل:رامسر]ضلع:باڑمیر{راجستھان}