شعبۂ خواتین کی برخاستگی
پرسنل لا بورڈ کا ایک غلط اور غیردانش مندانہ فیصلہ
✍: سمیع اللہ خان
ایک انتہائی تکلیف دہ خبر یہ موصول ہو رہی ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنی شعبہء خواتین کو برخاست کردیا ہے، یہ تشویشناک اطلاع خود بورڈ کی شعبہء خواتین سے وابستہ ذمہ داروں کے ذریعے مجھے ملی ہے، پہلے پہل تو یقین ہی نہیں آیا کہ بورڈ کے ذمہ دار مرد حضرات خواتین کےمتعلق ایسا غیر دانشمندانہ فیصلہ لے سکتےہیں جس کے مضر اثرات کی لپٹ میں پورا مسلم سماج آجائےگا،
بورڈ کا شعبہء خواتین بورڈ کے سابق اور مرحوم جنرل سیکریٹری حضرت مولانا ولی رحمانی ؒ کی کوششوں سے وجود میں آیا تھا جسے مرحوم نے دوراندیشی اور بالغ نظری کےساتھ قائم کیا تھا، کہا جاسکتا ہے کہ بورڈ کا شعبہء خواتین مسلم مسائل پر آواز اٹھانے سے لےکر مسلم بچیوں میں ایمانیات کی بیداری کو لے کر مسلسل فعّال رہا ہے، بورڈ کے شعبہء خواتین کو اس فعالیت تک پہنچانے میں شعبے کی صدر ڈاکٹر اسماء زہراء کی شبانہ روز جدوجہد کا بڑا دخل رہاہے اور اس بابت ان کی جدوجہد کہنے کی محتاج نہیں ہے آئے دن ان کی سرگرمیوں کو سبھی دیکھتے رہےہیں، طلاقِ ثلاثہ سے لےکر حجاب پابندی کے مسئلے تک ڈاکٹر اسماء زہراء نے اس شعبے کا ملت کےحق میں بھرپور استعمال کیا ہے اور مسلمان خواتین کی بھرپور نمائندگی کی ہے،
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ میں شعبہء خواتین کا قیام حضرت مولانا ولی رحمانی ؒ کا ایک دوراندیشی پر مبنی فیصلہ تھا، بورڈ میں مسلم خواتین کی women’s wing کا وجود باطل اسلاموفوبک طاقتوں کو بڑا زبردست عملی جواب تھا جو یہ الزام لگاتے ہیں کہ مسلمان اپنی خواتین کو دوسرا درجہ دیتےہیں اور خواتین کو خواتین کی نمائندگی کے بھی لائق نہیں سمجھتے، بورڈ کا شعبہء خواتین ایک متصلب مومن خاتون کےساتھ ساتھ دنیاوی اعتبارسے میڈیکل ڈاکٹر کے ہاتھ میں بھی تھا، یہ عملی جواب لبرل، سنگھیوں اور سیکولرز کے لیے بہت ہی مؤثر تھا، اور دوسری طرف ملتِ اسلامیہ کی خواتین کو بھی فائدہ پہنچ رہا تھا، ان کے مسائل کی نمائندگی کسی نہ کسی درجے میں ہورہی تھی، اور اچھا پہلو یہ تھا کہ کل تک مسلم خواتین کے مسائل کی نمائندگی لبرل یا سیلیبریٹی دنیا کی مشہور خواتین کیا کرتی تھیں جس کی وجہ سے مسلم معاشرے کی خواتین پر بڑے برے اثرات بھی مرتب ہوتے تھے لیکن بورڈ میں شعبہء خواتین کے قیام کےبعد سے مسلم خواتین اس جانب رجوع کرنے لگیں تھیں، اور شعبہء خواتین بھی برابر مسلم بچیوں میں ایمانی وابستگی کے لیے متحرک نظر آیا ہے،
لیکن پتا نہیں کیوں، بورڈ کے مرد ذمہ داروں نے ملکر اس شعبے کو ختم کرنے کا فیصلہ لے لیا، بعض لوگوں کا خیال ہےکہ گزشتہ کچھ دنوں میں بورڈ کی شعبہء خواتین کی طرف سے مسلمانوں کے ایشوز پر بورڈ کے ذمّہ داروں کی روش پر تنقیدیں کی گئی تھیں اور بار بار دباؤ بنایا جارہا تھا کہ بورڈ مسلمانوں پر ہندوتوا زیادتیوں کا نوٹس لے اور عملی کام کرے، خواتین کی اس حکمت عملی اور مسلم ایشوز پر اپنے طورپر ایکٹویٹی کو ذمّہ دار حضرات نے ناپسند کیا، جس کے نتیجے میں بورڈ کے شعبہء خواتین کو ہی ختم کردیا گیا، جیسے جیسے یہ خبر عام ہوگی مسلمانوں کے قدآور مردوں کی ذہنیت کو لےکر لبرل طبقے سوال اٹھائیں گے، اور پھر سے وہی الزام ثابت کریں گے کہ مسلم سماج خواتین کو حقِ نمائندگی نہیں دیتا ہے، ایسے نازک وقت میں یہ فیصلہ لےکر باطل کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کا موقع فراہم کرنا انتہائی نادانی ہے ساتھ ہی بیدار و متحرک نیز عام مسلم خواتین اور بچّیوں کی شدید حوصلہ شکنی ہے اور ان کےساتھ ناانصافی ہے، بورڈ کا موجودہ شعبہء خواتین بہترین، مفید اور فعال ہے اور اس میں موجود تمام ہی خواتین مسلم خواتین کی بہترین نمائندگی کررہی ہیں، کوئی بھی اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا کہ بورڈ میں شعبہء خواتین کی پہچان ڈاکٹر اسماء زہراء اور ان کی خواتین ٹیم کی جہدِ مسلسل کی بدولت ہے، اور شعبہء خواتین میں کام کرنا اور اسے چلانا ان کا حق بھی ہے، میں اپیل کرتاہوں کہ بورڈ کے ذمہ داران اپنا یہ غیرمنصفانہ اور انتہائی غلط فیصلہ واپس لیں اور ڈاکٹر اسماء زہراء صاحبہ سمیت ان کی مکمل مستحق اور قابل مسلم خواتین کی ٹیم کو بحال کرکے اس قضیے کو قضیہء نامرضیہ بننے سے پہلے ہی قابو میں کریں