سیکولرزم کے محافظ نتیش کمار
سیکولرزم کے محافظ نتیش کمار
اقلیت نواز وزیر اعلی نتیش کمار ایک بار پھر سے این ڈی اے کا حصہ ہیں، ملک کے حالات اب مختلف ہیں اور بھاجپا پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط حالت میں ہے، ایسے میں ان کا سیکولر کردار
داؤ پر ہے، بہار ابھی تک محفوظ و مضبوط ہاتھ میں ہے لیکن مستقبل میں بڑے چیلنجز ہے
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہےجو پیرہن ہے اس کا، وہ مذہب کا خدا ہے موضوع کو سمجھ کر گفتگو کرنا سودمند ثابت ہوتا ہے
اور مقصد کو حاصل کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ سیکولرزم ایک بہت ہی جامع لفظ ہے، معنیٰ کے اعتبار سے بھی یہ بہت عمدہ ہے۔ سیکولرازم کی بنیاد یہ ہے کہ انسانی معاملات کو غیر جانبدارانہ انداز سے دیکھا جائے یعنی کسی بھی امر سے متعلق فیصلہ کسی بھی مذہبی تناظر میں نہ ہو۔
سیکولرزم کی عمومی تعریف یہ ہے کہ مذہب اور ریاست کے شہری امور علیحدہ رہیں یعنی ریاست کے فیصلے کی بنیاد مذہب کی بنیاد پر نہ ہو۔
اسی اعتبار سے سیکولر معاشرے میں کسی بھی سرکاری یا عوامی مقام پر کوئی ایسا نشان نہیں رکھا جائے، جو کسی مخصوص مذہب کی نشان دہی کرے۔ سیکولرزم کا فلسفہ یہ ہے کہ اخلاقیات کے لیے اصول مذہب کی بجائے تجربات، مشاہدات اور موجود چیزوں کے اعتبار سے قائم کئے جائیں۔
یعنی مذہب کسی فرد کا ذاتی معاملہ ہو، معاشرے کا نہیں، نہ ہی ریاست کا۔ وزیر اعلی بہار جناب نتیش کمار کے کاموں کا جائزہ انہیں ضوابط و اصولوں پر رکھ کر کی جانی چاہئے۔ نتیش کمار کے متعلق بہار کے عوام و خواص کا جو نظریہ ہے وہ ان سے بہت حد تک میل کھاتے ہیں جو ملک کے دانشوران طبقہ کے خیالات ہیں۔
یعنی ابھی تک ان کا جو ریکارڈ رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت میں حصہ داری کے معاملہ پر پردہ ڈال دیں تو باقی معاملات میں اقلیتوں کے سلسلے میں ان کا رویہ بہتر رہا ہے، اس سے ان کے سیکولرزم کے محافظ ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
آپسی اتحاد، آپسی رواداری و ریاست میں پوری طرح امن و سکون کا ماحول قائم رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ہندووادی و سیکولر دونوں طرح کے رہنماؤں کے ساتھ کام کیا ہے، اقلیتوں کے معاملے میں انہوں نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر انہوں نے کام کیا۔ اردو کے فروغ کا معاملہ ہو، اقلیتوں کی تعلیم و ترقی کا معاملہ ہو، ان تمام موضوعات پر انہوں نے حساسیت کا ثبوت پیش کیا ہے۔
اردو مترجم، اردو، فارسی و عربی زبان کے اساتذہ کی بحالی، اقلیت مسلمانوں کے لئے اقلیتی ہاسٹل، بلڈنگ، لائیبریری و اقلیتی تعلیمی ادارے کا قیام کیا ہے۔ اردو زبان کے متعلق جناب نتیش کمار نے میڈیا کے سامنے وضاحت کیا کہ اردو کی تعلیم غیر اردو والوں کو بھی دی جائے۔ انہوں نے سرکاری عمارتوں پر، سرکاری دعوت نامہ و گزٹ وغیرہ میں ہندی کے ساتھ ساتھ اردو کے استعمال کی ہدایت دی ہے۔ وزیر اعلی کے اشارے پر ہی چیف سیکریٹری بہار جناب عامر سبحانی نے مکتوب کے ذریعہ تمام اداروں کے چیف کو ہدایت دی کہ وہ اردو زبان کا استعمال ہندی کے ساتھ کریں۔ اردو کے فروغ کے لیے جناب امتیاز احمد کریمی نے تمام اضلاع میں فروغ اردو سیمینار و ورکشاپ کرانے کے لیے اردو ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر رہتے ہوئے نہ صرف اجازت دی تھی بلکہ فنڈ کا بھی انتظام کرایا تھا جو آج بھی جاری و ساری ہے۔ جناب کریمی نے ہی اردو مترجم کی بڑی بحالی کا مسودہ دیا تھا جس سے اقلیتی نوجوان لڑکے و لڑکیاں بڑی تعداد میں سرکاری نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
مدرسہ کی تعلیم کو بھی بہتر کرنے اور اسے معاش سے جوڑنے کی سمت میں بڑا کام ہوا ہے۔ سابق چیئرمین جناب عبدالقیوم انصاری نے بڑی کوششیں کی ہیں اور مدارس کی روایتی تعلیمی نظام میں تبدیلیاں ہوئی ہیں۔
فوقانیہ کے بعد مولوی میں اب طالب علم چار اسٹریم یعنی آرٹس ، سائنس، کامرس و اسلامیات کے شعبہ میں سے جس میں چاہیں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔
اس طرز پر پہلی مرتبہ سابق چیئرمین و موجودہ سیکریٹری بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ جناب عبدالسلام انصاری و چیئرمین جناب سلیم پرویز نے مولوی کی امتحان شفافیت کے ساتھ کرانے میں کامیاب ہوئے۔
جہاں تک سوال اقلیتی اداروں کا ہے تو بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ، اقلیتی کمیشن بہار و گورنمنٹ اردو لائبریری کی نئی کمیٹیاں تشکیل پا چکی ہیں، اردو ڈائریکٹوریٹ ، محکمۂ کابینہ سکریٹریٹ، حکومت بہار، پٹنہ کو جناب محمد عمران صاحب کی شکل میں ڈایریکٹر مل چکا ہے لیکن اردو کے فروغ کو رفتار دینے والی تنظیمیں بہار اردو اکیڈمی و اردو مشاورت کمیٹی بہار کی کمیٹیاں طویل عرصہ سے خالی ہیں جسے پر کرنے کے لیے ہمارے ملی رہنما جو وزیر اعلی کے دربار کے نورتن کی شکل میں ہیں
انہیں مثبت طریقے سے کوشش کرنی چاہئے اور وزیر اعلی بہار کا دھیان اس جانب بھی مبذول کرانا چاہئے تاکہ وہ منصفانہ طریقے سے اس سمت پہل کر سکیں۔ اس مضمون کے ذریعہ سے میں دانش وران، قومی، ملی و سیاسی رہنماؤں کا اس جانب بھی دھیان مبذول کرانا چاہوں گا کہ وہ ذاتی طور پر بھی اردو کے فروغ کی فکر کریں اور حکومت تک یہ بات بھی پہنچائیں کہ اردو کے فروغ کے لئے سرکاری سطح سے کوششیں تو ہو رہی ہیں
لیکن زمین پر اس کا اثر بہت کم دکھ رہا ہے۔ آفس میں، اسکول و کالج میں، گلی محلہ و چوراہوں پر لگنے والے نئے نیم پلیٹ وسائن بورڈز سے اردو غائب ہے۔ سرکاری طور پر جو حکم نامہ نکلے اس کی نگرانی ضروری ہے نہیں تو ہم یوں ہی چلاتے رہ جائیں گے اور اپنی ہی روایت کو برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔
وزیر اعلی بہار جناب نتیش کمار کے کاموں کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اقلیتی امور کے حمایتی ہیں لیکن میں یہ بھی وضاحت کر دینا چاہتا ہوں کے بہار شریف کے قدیم و تاریخی مدرسہ عزیزیہ کو ہندو وادی تنظیموں نے نتیش جی کی حکومت میں ہی نظر آتش کیا تھا، ہاں بات بھی سچ ہے کہ تب حکومت میں جد یو کے ساتھ راجد تھی یعنی حکومت این ڈی اے کی نہیں تھی بلکہ عظیم اتحاد کی تھی۔
نتیش کمار نے مدرسہ کے تعمیر نو و قدیم و شاندار لائبریری کے وقار کو قائم کرنے کے لیے بھی بہتر کوششیں کی ہیں۔ نتیش کمار کے متعلق عام مسلمانوں میں بھی خیالات پایا جاتا ہے کہ وہ بھاجپا کے اتحاد میں ہو کر بھی سیکولرزم کے علمبردار ہیں، بہار مضبوط ہاتھ میں ہے، بہار محفوظ ہے۔
لیکن نتیش جی کے پھر سے پالا بدلنے اور ان کے گھر واپسی کے پہلے سے ملک کے جو حالات ہیں، ہندوتوا جس عروج پر ہے اور سرسوتی پوجا کے موقع پر دربھنگہ و بھاگل پور میں پرتشدد بھیڑ نے مسلمانوں، مسلم گھروں، دکانوں و مساجد پر جس طرح پتھراؤ کیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وزیر اعلی بہار نتیش کمار کے سامنے بڑا چیلینج ہے، ایسی حالت میں ان کا سیکولرزم داؤ پر ہے، اپنی شاخ بچانے میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں یہ مستقبل کی بات ہے۔ اس درمیان ایک بڑی خبر مدرسہ بورڈ کے تعلق سے آرہی ہے۔
ظاہر ہے حکومت بدلنے پر بورڈ و کمیٹی تحلیل کر دی جاتی ہے۔ بہار میں انڈیا کی حکومت تھی اور اب این ڈی کی سرکار ہے اس لئے بورڈ و کمیٹیوں میں جو پرانے حلیف جماعتوں کے لوگ ہیں انہیں باہر کرنے کے لئے مدت پوری ہونے سے قبل ہی کمیٹیوں کو تحلیل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، خیر اس سیاست سے میرا دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے لیکن بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ سے میرا واسطہ ہے کیوں کہ آج جو مسلمان سرکاری ملازمین ہیں ان میں 70 سے 80 فیصدی مدرسہ بورڈ کے سند یافتہ ہیں۔ وجئے کمار چودھری جو وزیر تعلیم ہیں، بڑے قابل اور صاف گو ہیں
اسمبلی میں ان کی تقریر بہت ہی شاندار ہوتی ہے، وہ کبھی کبھی اقلیتی مسائل پر بھی اچھی اچھی، چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں لیکن ان کے سابقہ وزارت تعلیم کے دور میں اردو کی لازمیت کو جو ضرر پہنچایا گیا وہ معاملہ آج تک ٹھنڈے بستے میں ہے
دوسری جانب مدرسہ بورڈ کے لئے جو نئے ضابطے نافذ کئے گئے تھے اس سے ہمارے مدارس اور اس کا نظام بے راہروی کا شکار ہو گیا ہے۔ ایک بار پھر سے وجئے کمار چودھری وزیر تعلیم ہیں تو خبر مل رہی ہے کہ حکومت دستور میں ترمیم کرنے کی خواہاں ہے اور مدرسہ بورڈ کی شباہت بگڑنے والی ہے۔
اب یہ وقت کے ہاتھوں ہے کہ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ کی صورت کیسی ہوگی، اس کی آبرو بچے گی یا اس کی حالت آسام جیسی ہوگی کہ اتر پردیش جیسی۔ آپ کا کردار ہی آپ کی پہچان ہےورنہ ایک نام کہ لاکھوں انسان ہیں