اسقاط حمل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ
اسقاط حمل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس اے ایس بوپننا کی سہ نفری بینچ نے شادی شدہ ، غیر شادی شدہ اور ریلیشن شپ یعنی بغیرشادی کے مردوںکے ساتھ رہنے والی عورتوں کو چوبیس ہفتے یعنی کم وبیش چھ (۶)ماہ تک محفوظ اسقاط حمل کی اجازت دیدی ہے، سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ ایم ٹی پی ایکٹ ترمیم شدہ ۲۰۲۱ء کی دفعہ ۳(۲) جی کے تحت سنایا، یہ قانون اصلا شادی شدہ خواتین کے اسقاط حمل سے متعلق ہے، لیکن عدالت کا کہنا تھا کہ غیر شادی شدہ عورتوں کو اس قانون سے الگ رکھنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے ، ایسا کرنا آئین کے آرٹیکل ۱۴؍ کے خلاف ہوگا، عدالت نے شوہر کے ذریعہ بیوی کی رضا مندی کے بغیر جنسی تعلقات جسے قانون کی زبان میںازدواجی عصمت دری کہاجاتاہے کے نتیجے میں ٹھہرنے والے حمل کو بھی اس دائرہ میں لانے کی ضرورت پر زور دیا، اور ہدایت دی کہ حاملہ اگر نا بالغہ ہو تو اس کے نام کی تشہیر بھی نہیں کی جا سکتی، پاکسو ایکٹ ( POCSO ACT.2012)کے تحت اس کی پابندی بھی لازمی ہوگی۔
عدالت نے یہ فیصلہ ایک پچیس سالہ غیر شادی شدہ حاملہ عورت کی عرضی پر سنائی ہے، یہ لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے ذریعہ اپنی مرضی سے حاملہ ہو گئی تھی اور اسے تئیس(۲۳) ہفتے ، پانچ (۵)دن کا حمل تھا، جسے وہ ضائع کرانا چاہتی تھی،دہلی ہائی کورٹ نے اسے ایم ٹی پی ایکٹ سے باہر مانا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے اسے ایم ٹی پی ایکٹ کے دائرے میں مان کر اسقاط حمل کی اجازت دو ڈاکٹروں کی ٹیم کے معائنہ کے بعد محفوظ اسقاط کی صورت میں دیدی۔
ایم ٹی پی (MEDICAL TERMINATION OF PREGNANC) ACT۱۹۷۱میں بنایا گیا تھا، ۲۰۰۳ اور ۲۰۲۱ء میں اس میں ترمیم کی گئی اور اسقاط حمل کی اجازت بیس (۲۰) ہفتہ سے بڑھا کر چوبیس (۲۴) ہفتے کر دی گئی جس کا مطلب ہے کہ چھ ماہ تک یہ غیر انسانی ، غیر اخلاقی قتل، حمل کے دوران کیا جا سکتا ہے، یہ وہ مدت ہے جس میں بچہ میں روح پڑجاتی ہے اور اس کے اعضاء تکمیل کے مرحلے سے گذر رہے ہوتے ہیں، بلکہ اسلام کی روشنی میں یہ بچہ اس قدر مکمل ہوجاتا ہے کہ وہ صحیح وسالم اس مدت میں پیدا ہو سکتا ہے، سات آٹھ ماہ کے اندر ولادت کے واقعات عجوبے کے درجے میں نہیں ہوتے، ایسے بچے عموما لا غر اور کمزور ہوتے ہیں، جن پر خصوصی نگہداشت کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور بس ، بتانا صرف یہ ہے کہ چوبیس(۲۴) ہفتے میں بچہ ولادت کے مرحلہ سے بھی گذر سکتا ہے اورعقلی اعتبارسے اس کا اسقاط ایک بچے کے قتل کے دائرہ میں آناچاہے۔
عدالت کے اس فیصلے کی بنیاد عورت کی خود مختاری کے حقوق بالفاظ دیگر ــ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘کے اصول پر مبنی ہے، اس طرح کی اجازت سے جنسی بے راہ روی بڑھے گی، کیوں کہ تعلق قائم کرنے والی عورت کو اسقاط حمل کی اجازت کی وجہ سے قانونی تحفظ حاصل ہوگا اور تعلق قائم کرنے والامرد مطمئن ہوگا کہ اس پر بچے کی کوئی ذمہ داری نہیں آئے گی، کیوں کہ وہ دنیا میں آئے گا ہی نہیں۔
خواتین کے حقوق سے متعلق تنظیموں نے اس فیصلے کی ستائش کی ہے، پرینکا چترویدی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ہے ’’سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ہر عورت کو اپنے جسم پر اختیار کا مساوی حق ہے، سپریم کورٹ نے تمام عورتوں کو برابر کا حق دیا ہے، سماج کو چاہیے کہ وہ عورتوں کے بنیادی حقوق، مساوات، پرائیویسی اور ان کے اپنے جسم کے تئیں حقوق کو سمجھے‘‘۔
برابری کے اس حق کو تووہ ممالک جن کے یہاں عورتوں کی آزادی کا تصور عام ہے، وہ بھی منظور نہیں کرتے، مغربی یورپی ، افریقی اورایشیائی چوبیس ممالک میںاسقاط حمل قابل سزاجرم ہے ابھی اسی سال ماہ جون میں امریکہ نے ۱۹۷۱ء کے اسقاط حمل قانون میں تبدیلی کرکے اسے ممنوع قراردیدیاہے جس کی وجہ سے اسقاط کاحق قانونی باقی نہیں رہا، امریکہ میںاحتجاج اورمظاہروںکے بعدیہ حق ریاست کودیدیاگیاہے کہ وہ مقامی طورپر اس سلسلے میں کوئی فیصلہ لے جب اسقاط حمل کووہاںقانونی حق حاصل تھاتوبھی زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک اس حق کااستعمال کیاجاسکتاتھا،لٹن امریکی دیش السلواڈورمیں حمل کے ضائع ہونے کی صورت میں عورت کوتیس (۳۰)سال تک کی سزاہوسکتی ہے، انگلینڈ اور آئرلینڈ میں اسقاط عورت کاحق ہے، وہ اگربچے کوآنے نہیںدیناچاہتی ہے تواسقاط کرواسکتی ہے،لیکن جاپان میں اسقاط حمل اور مانع حمل دواؤں کے استعمال کے لئے بھی شوہر کی اجازت کی ضرورت ہے، کیوں کہ حمل میں پلنے والا بچہ صرف عورت کا نہیں،مرد کا بھی ہے اور پیدا ہونے کے بعد اسے والد کا نام ملے گا، اس لیے مرد کی اہمیت کو حمل میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،جن ملکوںمیں اسقاط پر پابندی ہے ، وہاںحمل میں پلنے والے بچے کے حقوق کی رعایت کی گئی ہے، کیوں کہ وہ بھی ایک روح ہے اوراسے بھی دنیادیکھنے کاحق ہے ، یہی اسلام کاموقف ہے اس لئے ہماری گذارش ہے کہ اس فیصلہ پر عدالت کو نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ ہر ایک کے حقوق کی رعایت ہو سکے۔
عدالت نے بغیر بیوی کی رضا مندی کے جنسی تعلق کو بھی عصمت دری (ریپ) کے زمرے میں رکھنے کی ضرورت بتائی ہے، یہ رولنگ نہیں، فیصلے کا حصہ ہے، اس لیے نظیر کے طور پر آدھا کام تو ہو گیا ، دوسرے آدھے کی تعیین اگلی سماعت میں ہو جائے گی، اس کی وجہ سے خواتین کی طرف سے شوہروں کو ہراساں کرنے اور خانگی تشدد کا بازار بھی گرم ہو سکتا ہے، اور خاندانی نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ اس فیصلے کامنفی اثرسماج پر پڑے گا۔