سلطان الہند عطاے رسول کی لاجواب نصیحت
سلطان الہند عطاے رسول کی لاجواب نصیحت
قرآن و سنت سے یہ بات ظاہر و ثابت ہے کہ اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین اور آخری مذہب ہے اور قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے او رپیغمبر اسلام محبوب خدا حضرت محمد مصطفی ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئیگا ۔تو سوال پیدا ہوگا کہ اگلی امتوں میں ایک کے جانے کے بعد ہدایت و رہبری کے لیے دوسرے نبی تشریف لاتے رہے
اور ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کے وصال شریف کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا تو اسلام کی تبلیغ اور رشدو ہدایت کا کام کیسے آگے بڑے گا تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ۔میری امت کے علما بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں (کنزالعمال جلد ۱۰ حدیث نمبر ۲۸۶۷۳)۔
یعنی رشدو ہدایت کا فریضہ جو پہلے کے انبیائے کرام علیہم السلام انجام دیتے تھے ،اب یہ کام میری امت کے علما پورا کریں گے اِن سچے اور نیک و پارساعلماے کرام کے گروہ کو جوجانشین مصطفی ،نائبین نبی ﷺ کہتے ہیں اورانہیں نیک و صالح اور متقی وپرہیز گارلوگوں کو اولیا اللہ کہا جاتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے اللہ تعالیٰ کی زمین تقویٰ و طہارت اور نیکی سے آباد ہوئی اور اسلام خوب پھولا اور پھلا تو بادشاہوں اور امیروں کے ذریعہ نہیں بلکہ ان پاک اور نیک لوگوں کے ذریعہ عمل میں آیا جن کو اولیاء اللہ کہا جاتا ہے اللہ کے یہ ولی جس خطے میں گئے تواپنے پیارے نبی ﷺ کی سیرت و صورت کی سچی تصویر بن کر گئے ان کا وجود مسعود اسلام تھا
ان کا کردار و اخلاق محبوب خدا ﷺ کے کردار و اخلاق کا صاف و شفاف آئینہ تھا انہیں اللہ والوں کی پاک و نیک صحبت کی خوشبو سے علاقہ کا علاقہ معطر ہوگیا اور کفرو شرک کے گھٹاٹوپ اندھیرے ختم ہوئے اور اسلام کا پُر نور سویرا طلوع ہوا اور ایمان و یقین کا اُجالا پھیلا
اللہ کے ولی جس راہ سے گذرگئے اسلام کی خوبیوں سے آگاہی دیتے گئے اور ایمان کے نور سے اندھے قلوب کومنور ومجلی کرتے گئے انہیں پاک باز باکرامت اور باکمال اربابِ روحانیت ہستیوں میں ہند کے راجہ عطاے رسول سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رضی اللہ عنہ کا نام نامی اسم گرامی سب سے روشن ومنور ہے
آپ کے نہ آنے تک ہند میں اندھیراتھا روشنی گھر گھر پھیلی آپ ہی کے آنے سے ٓ حضرت خواجہ غریب نوازکی ولادت ٓآپ کی ولادت ۵۳۰ ہجری بمقام سنجر علاقہ سیستان میں ہوئی آپ کا پدری نسب سیدنا امام حسین بن مولیٰ علی رضی اللہ عنہما سے ملتا ہے اور آپ کا مادری نسب حضرت سیدنا امام حسن بن مولیٰ علی رضی اللہ عنہما سے ملتا ہے اس لیے آپ حسنی اور حسینی سید ہیں حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ دو بھائی تھے آپ کے والد ماجد حضرت خواجہ غیاث الدین تھے ابھی غریب نواز کی عمر شریف ۱۵ سال ہی کی تھی کہ والد گرامی کا وصال ہوگیا(مرآۃ الاسرار ص ۵۹۳)۔
سات سال کی عمر شریف تک آپ کی پرورش خراسان میں ہوئی ابتدائی تعلیم کا زمانہ والد بزرگوار کے زیرعاطفت گزرا اس کے بعد سنجر کی مشہور درسگاہ میں داخل ہوئے اور وہیں سے تفسیر وحدیث اور فقہ کی تعلیم مکمل ہوئی ۱۴ سال کی عمر شریف میں اور کتاب مرآۃ الاسرار کے مطابق پندرہ سال کی عمر شریف میں والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور آپ کے والد ماجد کا مزار بغداد مقدس میں ہے (سوانح غوث و خواجہ ص ۴۴)۔
حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کی جائیداد میں سے ایک ہرا بھرا باغ اور ایک پن چکی ملی تھی اسی کو آپ نے ذریعہ معاش بنایا خود ہی باغ کی نگہبانی کرتے اور درختوں کو پانی پلاتے اس طرح آپ کی ز ندگی بہت آسودہ اور اطمینان سے گزررہی تھی ایک دفعہ آپ باغ میں درختوں کو پانی دے رہے تھے اللہ کے ولی مجذوب بزرگ حضرت ابراہیم قندوزی رضی اللہ عنہ باغ میں تشریف لائے
حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے ادب واحترام کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے سایہ دار درخت کے پاس بٹھایا اور تازہ انگور کا ایک گچھا ان کی خدمت میں پیش کیا اور خود ان کی خدمت میں دوزانو ہوکر بیٹھ گئے حضرت ابراہیم قندوزی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بغل سے کھلی کا ایک ٹکڑا نکال کر اپنے منہ میں ڈالا دندان مبارکہ سے چباکرہمارے خواجہ کے منہ میں ڈال دیا
تو حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا باطن نور ِمعرفت سے روشن ہوگیا اس طرح آپ کے دل میں باغ اور پن چکی اور گھر کے سارے سازو سامان سے بیزاری پیداہوگئی اسی عالم میں ہمارے خواجہ نے باغ اور پن چکی فروخت کرکہ ساری دولت فقراء ومساکین اور بے سہاروں پر لٹادی اور خودی کے عالم میں خراسان کی طرف راہ حق کی تلاش میں نکل گئے
حضرت خواجہ غریب نوازرضی اللہ عنہ نے عالم و فاضل محدث و مفسر اور مفتی حتی ٰ کہ تمام علوم ظاری سے آراستہ ہونے کے بعد مردِ حق آگاہ خدا رسیدہ شیخ کامل پیرو مرشد کی تلاش و جستجو شروع فرمادی سچی تلاش وجستجو نے منزلِ مقصود کا پتہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے پیرو مرشد کے چشمہ ء کرم پرلاکر کھڑا کردیا اور سچ تو یہ ہے شعر۔کہ درِ کریم سے بندے کو کیا نہیں ملتا۔
جو مانگنے کا طریقہ ہے اس طرح مانگو حضرت خواجہ غریب نوازکی نصیحت حضرت خواجہ غریب نوازرضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں جب شرف بیعت حاصل کرچکا تو میں نے بیس سال تک اپنے مشفق و مہربان حضرت خواجہ عثمان ہارونی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت اقدس میں گزارے اس طرح خدمت میں لگا رہاکہ پل بھر کے لیے اپنی جان کو آرام نہ لینے دیا ۔
حضرت خواجہ غریب نوازرضی اللہ عنہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ مرید ثابت قدم یعنی کامل مرید اس وقت ہوتا ہے جب اس شخص کے نامہ ء اعمال میں اعمال بد لکھنے والا فرشتہ بیس سال تک کوئی گناہ نہ لکھے ۔خوب غور سے سوچ کر فیصلہ کرو کہ کیا ہم سچے اور کامل مرید بن گئے ہیں؟
حضرت خواجہ غریب نوازرضی اللہ عنہ کے فرمان ِ ذیشان کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوئی کہ ابھی ہم سچے اور کامل مرید ہی نہیں بن سکے ہیں اور پیروں اور عالموں اماموں میں غلطی اور کمی ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتے نظرآتے ہیں ۔مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نیکوں کے اندر کمی اور غلطی تلاش کرنا شیطان کی عادت ہے (مثنوی مولانا روم)
رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت خواجہ غریب نوازرضی اللہ عنہ نے ستر سال کی طویل مدت سفرمیں علم و ارشاد کے بڑے بڑے مشاہیر اور نادرہء روزگار اصحاب کمال سے ملاقاتیں کیں دلوں کی تسخیر روحوں کا تزکیہ اور جہانِ آب وگل میں تصرفات کے ایسے ایسے حیرت انگیز واقعات آپ سے ظہور میں آئے جن سے آج تک عقل و دانش کو سکتہ ہے (سوانح غوث و خواجہ ص ۵۰)
اولیاء اللہ بے نمازی نہیں ہوتے ہند کے راجہ خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ء اعظم حضرت قطب الدین بختیار کاکی رضی اللہ عنہ کا مرتبہ اولیائے کرام میں بہت بلند ہے حضرت قطب الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رضی اللہ عنہ جیسے عظیم الشان بزرگ وولی آپ ہی کے مرید وخلیفہ ہیں اور دلیل العارفین میں ہے
حضرت خواجہ غریب نواز فرماتے ہیں اللہ والے عشق و معرفت والے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد سورج طلوع ہونے تک اپنے مصلے ہی پر بیٹھے رہتے ہیں اور ذکروفکرمیں مشغول رہتے ہیں ۔ولی اللہ یعنی اللہ کے ولی نمازی ہوتے ہیں ان سے ایک نماز بھی قضانہیں ہوتی یہ خوفِ خدا میں لرزتے ہیں سورہ انفال آیت ۳۴ میں ہے ۔
اس کے اولیاء تو پرہیزگار ہی ہیں۔تو معلوم ہوا اولیاء اللہ رضائے الٰہی چاہتے ہیں کہ ہم سے اللہ راضی ہوجائے اللہ کے رسول راضی ہوجائیں یہ قدم قدم پرخوفِ خدا میں لرزتے ہیںکہ کہیں میرا یہ اٹھنے والا قدم اللہ و رسول کی ناراضگی کا سبب بن کر میری دنیا و آخرت تباہ و برباد نہ ہوجائے
حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کاوصال ۶ رجب المرجب ۶۲۷ہجری مطابق ۲۱ مئی ۹۲۹ء بروزدوشنبہ بعد نماز عشاء اجمیر شریف(ہندوستان )میں اس طرح ہوا کہ آپ نے حجرہ شریف کا دروازہ بند کرلیا
بعدہ نمازصبح کا وقت ہوا اور حجرہ شریف کا دروازہ حسب معمول نہ کھلاتو خدام و معتقدین کو سخت تشویش ہوئی دروازہ توڑ کر دیکھا گیا تو آپ واصل ِبحق ہوچکے تھے اسی وجہ سے ۶ رجب المرجب کو ہند کے خواجہ کا عرس شریف منعقد ہوتا ہے اور عاشقانِ خواجہ تو ہر مہینہ کی ۶ تاریخ کو چٹھی شریف کے نام سے یاد کرتے ہیں اور مناتے ہیں
تحریر۔ محمد توحیدرضاعلیمی بنگلور
امام مسجد رسول اللہ ﷺ خطیب مسجد رحیمیہ میسور روڈ جدید قبرستان
مہتمم دارالعلوم حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ و نوری فائونڈیشن بنگلور
رابطہ۔9886402786
Pingback: سوانح سلطان الہند خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ ⋆ از قلم:- احمدرضا اشرفی جامعی .