مدرسہ جوہر العلوم گنجریا کی تاریخ قیام

Spread the love

مدرسہ جوہر العلوم گنجریا کی تاریخ قیام

محمد شہباز عالم مصباحی

سرکار پٹی، گنجریا، اسلام پور، ضلع اتر دیناج پور،مغربی بنگال

سنہ 1950 میں رتن پور میں باضابطہ اسکول بننے سے پہلے ایک ٹریننگ اسکول بنا تھا۔ اسی سال 1950 میں اسکول سے متصل پچھم جانب ایک وقتی مدرسہ بنایا گیا جس میں حضرت مولانا تمییز الدین علیہ الرحمۃ پڑھاتے تھے اور اسی مدرسے کے اہم شاگردوں میں سے ایک حضرت مولانا نصیر الدین عرف بڑے مولانا صاحب علیہ الرحمۃ (پناسی) تھے. اس مدرسے کے نشانات بہت دنوں تک باقی بھی رہے جو کہ عیدگاہ سے اتر پچھم جانب ٹیلے نما شکل میں تھے. اسی مدرسہ کا ایک اہم تاریخی جلسہ بھی رتن پور میدان میں ہوا تھا جس میں مقرر خصوصی کے طور پر خطیب مشرق حضرت مولانا مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمۃ تشریف لائے تھے. اس کے بعد کچھ دنوں تک یہ مدرسہ ملتوی ہو گیا. مولانا تمییز الدین کے تعارف کے سلسلے میں یہ تفصیل ملاحظہ کریں جو گنجریا کے موجودہ بزرگ ترین عالم دین حضرت مولانا عبد الباقي مصباحی دام ظلہ سے مروی ہے جو حسبِ ذیل ہے:مولانا عبد الباقی نوری مصباحی دام ظلہ کے حسب روایت ایک دن ان کے والد ماجد حضرت حافظ راشد( متوفی 30 رمضان 1407ھ) علیہ الرحمۃ نے دوران گفتگو بتایا تھا کہ یہ پورا علاقہ جہالت اور لاعلمی کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، بالخصوص دینی ومذہبی علم سے پورا علاقہ نابلد تھا، پھر فضل الہی شامل حال ہوا کہ کسوا دھنتولہ کے ڈولو منشی مرحوم کے یہاں کہیں سے ایک مولانا تشریف لائے اور وہیں رہنے لگے. ان کا نام مولانا قربان علی ( علیہ الرحمۃ ) تھا. انہوں نے ہی اس علاقے میں دینی علم کی روشنی پھیلائی. اللہ ان کے مرقد پر ابر رحمت کی گہر باری کرے. ان کے ایک ممتاز شاگرد مولانا تمییز الدین تھے جو سرکار پٹی، گنجریا کے رہنے والے تھے. یہی مولانا تمییز الدین، گنجریا کے معروف عالم دین مولانا فضل المتین مرحوم کے والد ماجد تھے. مولانا تمییز الدین کو استاذ الاساتذہ مولانا قربان علی نے ابتدائی تعلیم سے لے کر مشکوہ المصابیح تک کی تعلیم دی تھی. پھر بعد میں فراغت کے لئے انہیں یوپی کے کسی مدرسے میں بھیجا تھا. بھیجتے وقت مولانا قربان علی نے اپنے شاگرد رشید کو یہ نصیحت کی تھی کہ “تم سند فراغت میں اپنے والد کی جگہ میرا نام لکھنا”. استاذ کی خواہش پر مولانا تمییز الدین باہر گئے اور تمام مروجہ علوم وفنون سے فراغت کے بعد گھر لوٹے اور پھر اپنے مشفق استاذ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر انہیں اپنی سند فراغت دکھائی. حضرت مولانا قربان علی نے سند فراغت ملاحظہ کیا تو دیکھا کہ والد کے خانے میں میرے نام کے بجائے ان کے حقیقی والد کا نام ہی لکھا ہوا ہے. مشفق استاذ نے سند ملاحظہ کرنے کے بعد فرمایا کہ “میں تم سے خوش ہوں؛ لیکن اگر میرا نام لکھا لاتے تو اور زیادہ خوش ہوتا” حضرت حافظ راشد علیہ الرحمۃ نے اپنے والد ماجد حضرت الحاج عبد الرب علیہ الرحمۃ ( متوفی 26 ربیع الاول 1358ھ) سے ( جنہوں نے ان کو درج بالا واقعہ سنایا تھا اور پھر بعد میں انہوں نے اپنے بیٹے مولانا عبد الباقی کو سنایا) یہ راز جاننے کی کوشش کی کہ آخر مولانا قربان علی نے اپنے شاگرد کو سند فراغت میں والد کے خانے میں اپنا نام لکھنے کی نصیحت کیوں کی تھی؟ اس کے جواب میں حضرت حاجی عبد الرب نے بتایا تھا کہ “دراصل مولانا قربان علی لاولد تھے؛ لیکن ان کی زمین جائیداد بہت تھی. مولانا چاہتے تھے کہ میرا یہ شاگرد جہاں دینی تعلیم سے مالا مال ہو وہیں دنیاوی دولت کی بھی اسے کوئی کمی نہ ہو جس کی صورت یہی تھی کہ وہ سند فراغت میں والد کی جگہ میرا نام لکھ لائے اور میرا وارث بن کر میری جائیداد کا مالک بن جائے. لیکن شاید خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا”۔بہر کیف آگے کا بیان یہ ہے کہ استاذ العلماء مولانا تمییز الدین نے عالم وفاضل ہو نے کے بعد گنجریا، پناسی، نہال پور و اطراف کی مرکزی عید گاہ سے متصل پچھم جانب جو خالی میدان ہے وہاں ایک مکتب کھولا جہاں انہوں نے کثیر طلبہ کو دینی تعلیم دی جن میں بالخصوص بڑے مولانا حضرت استاذ العلماء نصیر الدین اشرفی علیہ الرحمۃ اور حضرت حافظ راشد علیہ الرحمۃ بھی ان کے طلبہ میں شریک تھے ( جو اس بیان کے راوی متوسط بھی ہیں). گنجریا میں مدرسے کے قیام کی تاریخ کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ایک حافظ و قاری عبد السبحان دربھنگہ سے سرکار پٹی گنجریا میں مزدوری کرنے آئے تھے، اور صوفی امیر الدین کے کھلیان (کانا کھلیان) میں رہتے تھے. اول اول ان کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ حافظ قرآن ہیں، لیکن جیسے ہی صوفی امیر الدین صاحب کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے انہیں کھیت وغیرہ میں مزدوری سے منع کیا اور درخواست کی کہ آپ ہمارے کھلیان ہی میں ایک مکتب کھولیں اور بچوں کو ابتدائی دینی تعلیم دیں. انہی دنوں حضرت مولانا سید شاہ نور علی معروف بہ حضور عالی علیہ الرحمۃ سجادہ نشین خانقاہ سمرقندیہ دربھنگہ بھی گنجریا میں دعوت و تبلیغ کے لئے قیام پذیر ہوتے تھے اور اس وقت پورے علاقے میں حضور عالی کے چاہنے والوں میں سرکار پٹی کے افراد اور ان کے متعلقین ہی تھے اور پھر یہی سے دھیرے دھیرے ان کے مریدین کا دائرہ بڑھا. اصل کہنی کی بات یہ ہے کہ صوفی امیر الدین صاحب کے کھلیان ہی کے باہری گھر میں پلنگ پر حضرت سید شاہ نور علی صاحب اور ایک چوکی پر حافظ عبد السبحان سوتے اور آرام کرتے. حضرت نور علی صاحب نے اس مکتب کو سراہا اور صوفی امیر الدین صاحب جو گنجریا جامع مسجد کے سکریٹری بھی تھے انہیں ایک باضابطہ مدرسہ کھولنے کا بھی مشورہ اور ذہن دیا. چھ مہینے کے بعد جب بچے مکتب میں زیادہ ہو گئے تو جامع مسجد کے گنجریا کے پیچھے حاجی حیدر بخش کے محل کے سامنے وقتی طور پر ایک مدرسہ قائم کیا گیا اور پھر چھ ماہ کے بعد باضابطہ مدرسے کے قیام کے لئے میٹنگ ہوئی جس کی اطلاع پورے سرکار پٹی اور بڑا سرکار پٹی میں جناب بدھارو نے دی تھی. 25 دسمبر 1951 کو ماسٹر عبد الصمد کے کھلیان میں میٹنگ ہوئی جس میں سرکار پٹی اور بڑا سرکار پٹی کے تمام معززین شریک ہوئے تھے جس میں اتفاق رائے سے باضابطہ مدرسہ کے قیام کی تجویز پاس ہوئی اور صوفی امیر الدین صاحب کو باہمی رائے سے سب سے پہلا سکریٹری بنایا گیا جو کہ پہلے سے گنجریا جامع مسجد کے بھی سکریٹری تھے اور ان کے معاون جمال الدین مرحوم (والد ماسٹر ابو نصر مرحوم) تھے. میٹنگ میں شریک مرشد احمد تحصیل دار مرحوم نے صوفی امیر الدین سے کہا کہ آپ لوگ اب تک حافظ عبد السبحان کو کتنا ماہانہ دیتے ہیں. بتایا گیا کہ 10 روپے ماہانہ حافظ عبد السبحان کو دیے جاتے ہیں جس پر تحصیل دار صاحب نے کہا کہ کچھ تنخواہ بڑھائی جائی جس کی تائید ماسٹر عبد الصمد مرحوم نے بھی کی تو پھر دو روپے اضافہ کرکے 12 روپے تنخواہ مقرر ہوئی. جناب امیر الدین عرف بدھارو (والد محمد الیاس و بچان) کے کہنے پر چندہ دینے والوں کی لسٹ بنی. مولانا حارث نے کہا کہ صرف سرکار پٹی اور بڑا سرکار پٹی میں چندہ کیا جائے جس کی تائید ماسٹر عبد اللطیف نے بھی کی، کیوں کہ ان دنوں سرکار پٹی اور بڑا سرکار پٹی کے علاوہ دیگر ٹولوں کے افراد کی مالی حالت بہت خستہ تھی. اس لئے ان سے ماہانہ ایک چندہ لیا جانا مناسب نہیں سمجھا گیا. سرکار پٹی اور بڑا سرکار پٹی کے 23 یا 24 ممبر بنے. ڈیڑھ یا دو روپے ماہانہ چندہ مقرر کیا گیا.اور اس طرح اس اہم میٹنگ کے بعد سنہ 1952 میں مدرسہ جوہر العلوم گنجریا کی موجودہ جگہ پر بنیاد پڑی. اس جگہ کو حضور عالی علیہ الرحمۃ نے بھی پسند فرمایا تھا. اور جوہر العلوم نام اس لئے پڑا کہ ماسٹر عبد الصمد کے والد کا نام جوہر میاں تھا اور أول أول مدرسے کو زمین انہوں نے ہی عطیہ کیا تھا. ایک لمبے عرصے (غالباً 25 یا 30 سال) کے بعد غیر سرکار پٹی کو مولوی حارث کے کہنے پر شامل کیا گیا کہ ان میں سے جو لوگ از خود چندہ دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔ 1954 میں ماسٹر عبد اللطیف مرحوم کی دعوت پر اسلام پور بی ڈی او آفس سے بی ڈی او صاحب گنجریا مدرسہ میں آئے تھے اور مدرسے کے احاطے میں جو بڑا پیڑ ہے وہ انہی کا لگایا ہوا ہے. مدرسے کے پچھم کونے سے دھترنگ چوک تک سڑک بھی اسی وقت انہی کے ذریعے بنی تھی.(واضح رہے کہ ان تمام تفصیلات کے راوی ماسٹر محمد اسلم ساکن سرکار پٹی و مدرس جامعہ اہل سنت جوہر العلوم گنجریا ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *