ماہ رمضان الوداع الوداع

Spread the love

از قلم : سیف علی شاہ عدم بہرائچی :: ماہ رمضان الوداع الوداع!

ماہ رمضان الوداع الوداع

بہت افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑ رہا ہے کہ عن قریب ماہ رمضان جانے والا ہے، مگر ایک بات کا خیال رہے ماہ رمضان صرف اور صرف گیارہ مہینے کے لیے الوداع کہ رہا

اور ان شاء اللہ یہی مبارک مہینہ جس میں ایک نیکی کا ستر ثواب ملتا ہے، جس میں شیاطین کی گرفتاری کر لی جاتی ہے پھر سے لوٹ کر آئے گا

اور ہم پھر سے اس کی مبارکبادیاں پیش کریں گے اور آپس میں خوشیاں بانٹ لیں گے ان شاء اللہ۔ 

ایک قول بہت مشہور ہے وہ کہتے ہیں نہ”کل کرے سو آج کرے،آج کرے سو اب “اس لیے ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیےکہ چلو یار اگلے سال پھر سے رمضان المبارک کا مہینہ آئے گا اور ان شاءاللہ تبھی میں روزے اور نماز کی ادائیگی کر لوں گا

بلکہ دنیا کے کسی بھی مذہب کے والے کسی بھی فرد کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ کون سے انسان کو کہاں اور کب موت لاحق ہوگی بلکہ ہر کوئی اس بات سے ناواقف ہے سوائے رب ذوالجلال کے۔

‌سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آخر آج کے مسلمان کیا کر رہے ہیں؟

انہیں رمضان کی کتنی قدر ہے؟

یہ رمضان میں کیا کیا امور انجام دے رہے ہیں؟ کیا انہیں رمضان کی برکتوں سے کوئی خاص فائدہ ہو رہا ہے؟ اس کا جواب تو ہر کسی کے پاس ہوگا کہ رمضان سے پہلے مسلم قوم خواب غفلت کی گرفت میں ہوتی ہے

لیکن اللہ کا شکر ہے اور کافی خوشی کی بات ہے کہ رمضان کے چاند کو دیکھتے ہی سب اس فیصلے پر پہنچتے ہیں کہ اب ان شاء اللہ ساری نمازیں با جماعت ادا کریں گے

اور ایک بھی روزے کی قضا نہیں ہوگی اور ان شاء اللہ صدقہ وخیرات نکالیں گے،غریبوں کی مدد کریں گے

اور آپس میں خوشیاں بانٹیں گےمگر رکو یہ ساری باتیں تو صرف اور صرف ان کی سوچیں اور ایمان کی تازگی ہوتی ہے

مگر یہ شاید حقیقت تک رسائی نہیں کر پاتی اور یہ اپنی منزل تک پہنچنے میں ناکام ہو جاتے ہیں کیوں کہ جب یہ ارادہ کرتے ہیں تو شاید صرف دماغ سے کرتے ہیں کیونکہ اگر ارادے دل سے بناۓ جائیں تو ان کو پورا ہوتے وقت نہیں لگتا، ہوتا یوں ہے کہ مسلمان جب ان باتوں کا ارادہ کرتے ہیں تو وہ اپنی بات پر کھرے اترنے کوشش کرتے ہیں

لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنی راہ سے دور ہوتے جاتے ہیں نماز سے دل بیزار ہوتا چلا جاتا ہے، سحری کے لیے اٹنے میں سستی آنے لگتی ہے روزے بھاری پڑنے لگتے ہیں،دھوپ کڑک اور بھاری محسوس ہونے لگتا ہے

روزہ رکھ کر اٹھنا بیٹھنا پہاڑ لگنے لگتا ہے، بس انہیں تمام وجوہات کی بنا پر روزہ ترک کرنے کا آغاز ہوجاتا ہے اور پھر کیا ایک دن کا سکھ ہر دن کی عادت بننے لگتی ہے، اور ایک دن کا مزہ ہمیشگی اختیار کرنے لگتا ہے، دھیرے دھیرے ایمان کمزور ہونے لگتا ہے

اور اس بات کا احساس ہونے لگتا ہے کہ ان شاء اللہ تعالی تمام روزے اور نماز کو باقاعدگی کے ساتھ اگلے رمضان میں ادا کریں گے، لیکن ہر کسی کو معلوم ہے کہ اگلے سال بھی وہی ہوگاجو اس سال ہوا یعنی شروع شروع میں جوش ہوگا

لیکن پھر وہی حالت ہوجائے گی اور لوگ پھر سے کوتاہی برتیں گے لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں آنے والے اگلے رمضان کے بارے میں یہ ارادہ کرتے ہیں

‌دوستوں ایک اہم بات یہ کہ کیا اب جب رمضان المبارک اپنی آخری منزل کو ہے اور گنے چنے دوچار دن باقی ہے اور اس کے بعد ہم بارہ مہینے کے بعد دوبارہ اس سے ملاقات کریں گےہمیں کیا کرنا چاہیے؟

دوستوں ہم نے جس طرح سے رمضان کے پاک مہینے میں نماز اور عبادات کا اہتمام کیا ہے اسی طرح دوسرے باقی مہینوں میں بھی نماز اور عبادات کاخاص خیال رہے کیوں کہ پنج وقتہ نماز صرف رمضان المبارک میں فرض نہیں بلکہ نماز ہر مہینے میں فرض ہی ہے۔

سیف علی شاہ عدم بہرائچی

ملاپورم، کیرلا

9004757175

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *