ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے
از قلم : کامران غنی صبا ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے حسن امام قاسمی کا مجموعہ کلام’جنوں آشنا‘ میرے سامنے ہے۔ حسن امام قاسمی صاحب سے میرے مراسم بہت پرانے نہیں ہیں۔
لیکن مختصر سی مدت میں ہی انہوں نے اپنی شخصیت کا جو نقش میرے دل پر قائم کیا ہے ، وہ اب تازندگی مٹ نہیں سکتا ہے(ان شاء اللہ)۔
آج کے عہد میں ایسے مخلص، پرعزم، قوم و ملت کا درد رکھنے والے اور سب سے بڑھ کر نام و نمود اور ستائش کی تمنا سے بے نیاز لوگ کہاں ملتے ہیں؟۔ حسن امام قاسمی کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ آپ ’مدرسہ بیک گرائونڈ‘ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن مجھے یہ کہنے دیجیے کہ حسن امام صاحب میں ’مدرسہ والوں‘ کی عمومی خصوصیات کا ایک معمولی سا عکس بھی نظر نہیں آتا۔
میں یہاں موضوع سے ہٹ کر دوسری بحث چھیڑنا نہیں چاہتا لیکن حسن امام قاسمی صاحب کی شخصیت کے حوالے سے گفتگو شروع ہوئی ہے تو میں یہ کہنے کا حق رکھتا ہوں کہ مدارس اسلامیہ میں آج بھی حسن امام قاسمی جیسے نوجوان موجود ہیں ۔ جن کے یہاں زیورِ علم کے ساتھ ساتھ ’حُسنِ عمل‘ بھی نظرآتا ہے۔
قصور ہماری نظروں کا ہے جو ایسے لعل و گہر کو ڈھونڈ نہیں پاتیں اور مدارس اسلامیہ بدنام ہوتے ہیں کہ یہاں نہ زندگی ہے، نہ معرفت اور نہ نگاہ ؎
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ(اقبال)
میں خود کو خوش قسمت محسوس کرتا ہوں کہ میرے حلقۂ احباب میں حسن امام قاسمی جیسے مخلص اور بے ریا دوست موجود ہیں۔
حسن امام قاسمی سے میری قربت ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ ایک شرمیلے، کم سخن لیکن پر عزم انسان ہیں۔ ان کی طبیعت میں سوز ہے، عشق ہے۔ وہی عشق جو بندے کو بندگانِ خدا سے بے نیاز کرتا ہے۔ وہی عشق جو بندے کو خدا سے ہم کلام کرتا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ حسن امام قاسمی میں دنیاداری برائے نام بھی نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہو اکہ وہ شاعری بھی کرتے ہیں لیکن کس کے لیے کرتے ہیں انہیں خود بھی نہیں معلوم۔ میرے اندر بہت حد تک دنیاداری بھی ہے اور میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں نام و نمود کی تمنا سے بالکل بے نیاز ہوں
لیکن اس طرح کے لوگوں سے ملنا، ان سے دوستی کرنا، ان کی خوبیوں کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھنا مجھے پسند ہے۔ حسن امام قاسمی صوبۂ بہار کے مشہور ادارہ جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا میں ایک عرصے تک استاد رہے، گزشتہ سال ان کا تقرر چمپارن کے ہی ایک سرکاری مدرسہ میں ہو گیا ہے ۔
جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا، حفظ قرآن کی تعلیم کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ میری ایک عرصے سے خواہش تھی کہ اس ادارے کو قریب سے دیکھوں۔ حسن امام بھائی سے قربت ہوئی تو اس ادارے کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔
اسی بہانے حسن امام قاسمی کو اور بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میرے دل میں ان کی عقیدت گھر کر گئی۔ میں نے سمرا میں ہی پہلی بار ان کی شاعری بغور سنی۔ سمرا سے واپس ہونے لگا تو حسن امام بھائی مسکراکر اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ وہ منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ یا خدا! آج بھی ایسی محبت کرنے والے لوگ موجود ہیں؟۔ واپسی میں بس میں بیٹھے بیٹھے کبھی میں حسن امام بھائی کی باوضو آنکھوں میں اور کبھی ان کے اس شعر میں کھو جا رہا تھا ؎
گدائے عشق ہوں کیا اس کے ماسوا دوں گا
وفورِ شوق سے دیکھوں گا مسکرا دوں گا
میری وابستگی مختلف اخبارات و رسائل سے ہے۔ اس حوالے سے اکثر احباب اپنے مضامین اور تخلیقات بغرض اشاعت ارسال کرتے رہتے ہیں۔ کچھ تو بے تکلفی کی ساری حدیں پار کر جاتے ہیں اور اشاعت تک پیچھا ہی نہیں چھوڑتے۔ کچھ دوست ایسے بھی ہیں جو خود سے کبھی نہیں بھیجتے، ان سے مانگنا پڑتا ہے۔
ایسے دوستوں کو میں ذہن میں رکھتا ہوں اور جب زیادہ عرصہ گزر جاتا ہے تو ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کسی کی نیت پر شک کرنا اچھی بات نہیں لیکن مجھے معلوم ہے کہ کچھ لوگ تو صرف اس وجہ سے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں کہ چھپنے چھپانے میں آسانی ہو۔ حسن امام بھائی کو اس معاملہ میں بھی میں نے بہت مختلف پایا۔ اول تو از خود وہ اپنی کوئی چیز اشاعت کے لیے بھیجتے نہیں۔
میں ان سے زبردستی مانگتا ہوں توبس حقِ دوستی ادا کرنے کے لیے یا میری خواہش کے احترام میں وہ کچھ بھیج دیتے ہیں۔ ان کی اسی ادا نے مجھے ان کا گرویدہ بنایا ہوا ہے۔ کچھ ماہ قبل میں نے حسن امام بھائی سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ کا شعری مجموعہ منظر عام پر آجانا چاہیے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ تیارتو ہو گیے لیکن بار بار یہ بھی کہتے رہے کہ طبیعت پوری طرح آمادہ نہیں ہو پارہی ہے۔
میں ان کے مزاج سے اچھی طرح واقف ہوں۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اگر ان کا مجموعہ کلام منظر عام پر آ جائے گا تو ان کی شاعری کا ایک کھلا ہوا روپ ناقدین فن کے سامنے ہوگا۔ ان کی شاعری پر کھل کر گفتگو کی جا سکے گی۔’’جنوں آشنا‘ کی صورت میں حسن امام قاسمی صاحب کی شعری کائنات آپ کے سامنے ہے۔
اگر آپ اسے ان کی ابتدائی کاوش کے طور پر دیکھیں گے تو آپ کو ان کے یہاں امکانات کی ایک وسیع دنیا نظر آئے گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ حسن امام بھائی نے اپنے اولین شعری مجموعہ کا نام ’’جنوں آشنا ‘‘ کیوں رکھا ہے لیکن ان کے مزاج کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے روش صدیقی کا یہ شعر ضرور یاد آرہا ہے :
جو راہ اہلِ خرد کے لیے ہے لا محدود
جنونِ عشق میں وہ چند گام ہوتی ہے
منزلِ عشق کا راہی راہ کی صعوبتوں سے کبھی گھبراتا نہیں بلکہ مصائب و آلام اس کے عزم و حوصلے کو نئی امنگ عطا کرتے ہیں ؎
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر(غالبؔ)
حسن امام قاسمی صاحب کی شاعری میں یہی جنون ہمیں مختلف کیفیتوں میں نظرآتا ہے۔ یہ ’جنونِ عشق‘ نہیں تو اور کیا ہے کہ اپنی انا کو ٹھوکر مار کر شاعر دشمن کی آواز پر صرف انسانیت کے ناطے دوڑا چلا جا رہا ہے ؎
تقاضا تھا یہی انسانیت کا ایسی ساعت میں
جو دشمن بھی ہمیں آواز دیتا دوڑ کر جاتے
یہی جنونِ عشق جب اہلِ دل کی محفلوں میں داخل ہوتا ہے تو رموز کائنات منکشف ہوتے ہیں۔ جو معرفت بے شمار کتابوں کے مطالعہ سے حاصل نہ ہو وہ اہلِ دل یعنی اہلِ جنوں کی صعوبتوں سے حاصل ہو جاتی ہے ؎
منکشف ہوں گے کبھی تم پر بھی رمزِ کائنات
اہلِ دل کی محفلوں میں دو گھڑی بیٹھا کرو
یہی ’جنوں‘ لہجے کو شائستگی عطا کرتاہے۔ جنوں یعنی خدا تک رسائی کا جنوں۔ اس جنوں کے نتیجے میں نفس کشی، عفو درگز، ذاتی مفادات سے بے نیازی، جھوٹی انا سے گریز، بند گان خدا کی دلآزاری سے گریز جیسی صفتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ان صفات سے متصف شخص اشاروں کی زبان سے بھی کسی کے دل کو ٹھیس نہیں پہنچا سکتا۔ اس شعر کے بین السطور تک پہنچ کر شاعر کے لطیف حس کی داد دیجیے ؎
پسِ الفاظ جو بغض و عداوت سے مزین ہو
ہماری بزم میں وہ گفتگو کب معتبر ہوگی
یہی ’جنوں‘ کبھی آئینہ بن کر حقیقت کو تصویر بنا کر پیش کرتا ہے اور شاعر اپنے گرد وپیش کے سچ کو اپنے حوالے سے پیش کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ پس الفاظ بغض و عداوت اس کی سرشت میں داخل نہیں۔ اس لیے متکلم بن کر وہ سچائی کا برملا اظہار کرنے سے بھی نہیں چوکتا ؎
ہے ایک زہر یہ پندارِ پارسائی بھی
اسے میں اپنی شرائین سے بہا دوں گا
یہی ’جنوں‘ شاعر کے اعتماد کو کمزور ہونے سے بچاتا ہے۔ وہ نامساعد حالات سے گھبراتا نہیں۔ کشتی شکستہ حال سہی، اسے دریا پار کرنے کی ضد ہے ؎مری پتوار ٹوٹی ہے، شکستہ حال کشتی بھیحسن پھر بھی مجھے ضد ہے کہ دریا پار کرنا ہےذاتِ باری پر کامل ایمان شاعر کے ’جنون‘ کو مستحکم کرتا ہے۔ وقت کی تیرگی اس کے اٹھے ہوئے قدم کو روک نہیں سکتی۔ کیوں کہ نورِ خدا اس کا پیشوا ہے۔ یہی نورِ خدا اس کے جنوں کی پیشوائی کرتا ؎
کیا تیرگی ڈرائے گی مجھ کو حسن امام
رکھوں اگر جو پیشوا نورِ خدا کو میں
’جنوں آشنا‘ کی صورت میں حسن امام قاسمی کا’جنوں‘ آپ کے سامنے ہے۔ میں زیادہ مثالیں پیش کر کے اپنے مضمون کو بوجھل کرنا نہیں چاہتا۔
دعا ہے کہ حسن امام قاسمی صاحب کی ’جنوں آشنائی‘ کا سلسلہ دراز رہے۔ مجموعہ کی اشاعت پر صمیم قلب سے انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
کامران غنی صبا
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نتیشور کالج،مظفرپور