کہاں ملے گی بھلا اس ستم گری کی مثال

Spread the love

کہاں ملے گی بھلا اس ستم گری کی مثال

مثال ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جس کا مضبوط ستون عدلیہ ہے جہاں سے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جاتا ہے لیکن اگر یہی عدلیہ انصاف کرنے میں پس و پیش کا مظاہرہ کرتی ہے تو ملک جمہوری کہلانے کے لائق نہ ہوگا جس میں نقصان ملک کا ہوگا

کیوں کہ عوام کا اعتماد عدلیہ پر سے اٹھ جائے گا جس طرح سے پچھلے سالوں سے یا حالیہ کچھ مہینوں سے حکومتوں کاجو طرز عمل دیکھا جارہا ہے وہ کسی تانا شاہی حکمرانی سے کم نہیں ہے

اسی لحاظ سے عدلیہ پر زائد زمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ جمہوریت کی بقاء کو قائم رکھیں حکومتوں پر اپنا دبدبہ قائم رکھیں تب ہی انصاف اور جمہوریت کا وجود باقی رہ سکتا ہے کیوں کہ عوام کو قانونی چارہ جوئی اور انصاف کی آخری امید کا سہارا عدلیہ ہی ہوتا ہے اگر یہاں سے بھی نا انصافی کے قصیدے پڑھے جائیں تو جمہوریت بے بنیاد اور کھوکھلی ہوجاتی ہے ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ عوام انصاف کی امید عدلیہ کے بعد کس سے کریں؟

ہمارا ملک بھی کچھ ایسے ہی دور سے گذر رہا ہے کیوں کہ موجودہ حکومتیں جو خود عدلیہ کا بھی کام انجام دے رہی ہیں جو جمہوری نظام کے بالکل برعکس ہیں ـ

جس طرح سے بنارس کی گیان واپی مسجد کو ہندو فریق نے مندر کی اراضی ہونے کا دعوی کیا مقامی سول کورٹ سے رجوع ہوکر اس اراضی کو زبردستی متنازعہ بنادیا گیا

لیکن عدلیہ کا جو ردعمل سامنے آیا وہ انصاف کے بالکل متضاد رہا ہے چوں کہ عدالت نے ایک لمحہ بھی سونچے بغیر دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سروے کرنے کی اجازت دے دی نہ ہی مسلم فریق کی بات سنی گئی نہ تاریخ پر نظر ثانی کی گئی عدالت کا یہ رویہ بھی جانبدارانہ نظر آیا اگر چہ عدلیہ اتنی آسانی سے فیصلے سنائے گی تو ملک بھر میں ہر کوئی ایسے من گھڑت دعوے کرتا رہے گا تو کیا عدلیہ بھی ایسے جانبدارانہ فیصلے سناتے رہے گی؟

اور یقیناً ایسا ہوبھی رہا ہے جس طرح سے گیان واپی مسجد میں ہندو فریق کے وکیل نے شیولنگ کے دریافت ہونے کا دعوی پیش کرتے ہی ملک کے الگ الگ گوشوں میں آوازیں اٹھنی لگی کوئی کرناٹک کی ٹیپو سلطان مسجد کو مندر ہونے کا دعوی کررہا ہے تو کوئی دہلی کی جامع مسجد کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے کوئی تاج محل تو کوئی قطب مینار کو لیکر بدزبانی کررہا ہے ان سب کے قصور وار عدلیہ ہے

اگر چہ عدلیہ انصاف پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گیان واپی میں سروے کی اجازت ہی نہ دیتی تو ایسی اٹھنے والی ناجائزہ آوازوں کو بھی روکا جاسکتا تھا ایسے میں ملک کی گودی میڈیا کا بھی بڑا اہم رول رہا ہے کیوں کہ میڈیا نے ہندو فریق کے حق میں جذباتی طریقے سےتہلکہ مچا رکھا ہے

جیسے ہی شیولنگ ہونے کا دعوی سامنے آیا گودی میڈیا کا یہ حال ہوگیا ہے کہ وہ جھوٹ کو سچ میں تبدیل کرنے کاشور مچارہی ہے اور اس دعوے کواسطرح پیش کررہی ہیکہ جیسے عدالت اعظمی نے شیولنگ کے حق میں فیصلہ سنادیا ہے ابھی معاملہ ملک کی عدالت اعظمی تک پہنچ گیا ہے عدالت اعظمی نے بھی شیولنگ کے نمودار ہونے والی جگہ کو سل کرنے کا حکم دیا جبکہ مسجد کی انجمن انتظامیہ کمیٹی نے شیولنگ کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے وضو گاہ کا فوراہ بتایا ہے

جب کہ انتظامی کمیٹی کے پاس تاریخ کے حوالے سے کئی صدیوں سے مسجد ہونے کے تمام تر شواہد موجود ہے پھر بھلا شیولنگ کے دریافت ہونے کے دعوے کو کیوں اتنا بڑھاوا دیا جارہا ہے؟

عدلیہ کے احکامات جس طرح سے سامنے آرہے ہیں وہ بابری مسجد کی یادیں تازہ کررہا ہے کیونکہ جسطرح سے عدلیہ نے خود بابری مسجد کے حق میں تمام تر دلیلیں دی اور فیصلہ کے وقت ایسا نظر آرہا تھا کہ عدلیہ اب انصاف کا فیصلہ بابری مسجد کے حق میں سنائے گی لیکن ہوا یوں کہ عدلیہ نے ایک جھٹکے میں رام مندر کے حق میں فیصلہ سنادیا اس فیصلے کے بعد عدالت اعظمی کے چیف جسٹس گوگوئی نے اپنی کتاب جسٹس فار جج میں جو انکشافات کیئے ہیں وہ کافی حیرت انگیز تھے بھلا ایک ملک کی سب سے بڑی عدالت کا چیف جسٹس ایسا حساس فیصلہ سنانے کے بعد کسطرح سے جشن مناسکتا ہے؟کسطرح سے جشن میں شراب نوشی کرسکتا؟

تب ہی سے عوام کا یقین عدالت پر سے کمزور ہوتا گیا ابھی اس کادوسرا اہم پہلو یہ بھی ہیکہ جس بنچ نے ایودھیا کا فیصلہ سنایا تھا اسی بنچ کے ایک جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ جو گیان واپی کیس کی سماعت کررہے ہیں انکے ساتھ ایک اورجسٹس پی ایس نرسمہا جو ایودھیا کیس کے وقت ہندو درخواست گذاروں کی جانب سے کیس لڑے تھے

اور بعد میں 2021میں عدالت اعظمی کے جج کی حیثیت سے بنچ میں شامل کیا گیا یہ دونوں ججس ابھی بھی عدالت اعظمی کے ججوں میں شامل ہیں اور یہ دونوں ججس چیف جسٹس کی دوڑ میں بھی شامل ہیں اب ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جس طرح سے بابری مسجد کے کیس کی سماعت ہوئی تھی اور فیصلہ صادر کیا گیا تھا بالکل اسی طرز پر گیان واپی مسجد کو لے جایا جارہا ہے تو کیا اب یہ امید کی جاسکتی کہ عدلیہ گیان واپی کے حق میں فیصلہ سنائے گی؟

ہندوتوا اور بھگوا تنظیموں کا صرف اور صرف ایک ہی منشاء ہے کہ وہ کسی بھی طرح مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کریں تب ہی مغلیہ دور کی تاریخی عمارتوں اور مساجد کو سازشوں کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے جو اکثریتی عوام کو مہنگائی بے روزگاری گھٹتی معیشت سے اوجھل رکھنے کے لیے مندر مسجد اور ہندو مسلم نفرت کا کھیل رچارہے ہیں

لیکن ایسے حالات میں عدلیہ کی دوگنی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ ملک کی شبیہ اور عدلیہ کے نظام کو متاثر ہونے نہ دیں بلکہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں سازشوں پر لگام کسیں لیکن عدلیہ ہر بار بجائے انصاف کرنے کے نا انصافی کے تقاضوں کو پورا کررہی بابری مسجد کا معاملہ ہم نے دیکھا ہے

کرناٹک میں حجاب کا فیصلہ ہم نے دیکھا ہے کہ کسطرح انصاف سے منہ پھیرا گیا بابری مسجد معاملہ میں ایسی نا انصافی کی گئی جو مسلمانوں کی مسجد کی اراضی سے بے دخل کرتے ہوئے رام مندر کے حوالے کردیا گیا جسمیں عدلیہ نے مسلمانوں کا مذاق بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی

اسی طرح کرناٹک میں شریعت میں مداخلت کرتے ہوئے مذہبی آزادی کو سلب کرتے ہوئے دستور کو پامال کیا گیا ہر بار مسلمانوں کو چاکلیٹ دیکر بہلایا جارہا ہے پھر جھوٹی ہم دردی کے ذریعہ پیٹ تھپتھپائی جاتی ہے مسلمانوں کے ساتھ ہورہی یہی نا انصافی تباہی کی طرف آگے ڈھکیل رہی ہے اور ہر بار عدلیہ سے مایوسی ہاتھ آرہی ہے تو کیا گیان واپی مسجد کے ساتھ انصاف ہو پائے گا؟

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ـکہاں ملے گی بھلا اس ستم گری کی مثالترس بھی کھاتا ہے مجھ پر تباہ کرکے مجھے

سید سرفراز احمد، بھینسہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *