اردو ادب میں امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کا کردار
تحریر:افتخاراحمد قادری برکاتی اردو ادب میں امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کا کردار
اردو ادب میں امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کا کردار
انسان اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی میں الفاظ کا محتاج ہے- جب تک معانی کو الفاظ کے پیرائے میں نہ ڈھالا جائے تب تک افہام و تفہیم کی راہیں مسدود رہتی ہیں- لیکن معانی کی ادائیگی میں الفاظ کا انتخاب ہی دشوار گزار مرحلہ ہے
الفاظ کے انتخاب سے انسان کی وسعت قلبی،بلند پروازی اور اولواالعزمی کا اندازہ ہوجاتا ہے
واردات قلب کو خوش اسلوبی،عمدہ تعبیرات کے ساتھ الفاظ کے قالب میں ڈھال کر پیش کرنا مشکل تر نہیں تو کم از کم مشکل ضرور ہے- دراصل انسان کا انداز فکر،جمالیاتی حس،لطافت جذبات،منفرد ہوا کرتا ہے-اثر انگیریزی اور اثر پذیری میں سارے انسانوں کی طبیعت جداگانہ ہے- یہی وجہ ہے!کہ مرزا غالب،میر تقی میر،ذوق دہلوی کے کلام سے ان کے جس جمالیات حس،حسن بیان،معانی آفرینی کا پتہ چلتا ہے دیگر شعراء کے کلام میں اتنا ہی ان کا فقدان نظر آتا ہے
یہی حال مذہبی ادب و ثقافت کا ہے- مذہبی روح،عشق رسالت کی گہرائی،ایمان کی تازگی جتنی اتم کامل ہوگی اتنا ہی مذہبی ادب پروان چڑھتا ہے
فکر و نظر کی شفافیت،عمل صالح کی برکت اور عشقِ نبوی کا فیضان- یہ وہ بنیادی عنصر ہیں جو کسی بھی مسلمان کو ادب و ثقافت کی معراج تک پہنچا سکتے ہیں-احد رفتا کی باکمال شخصیات کا جائزہ لیں تو ادب کے میدان کی کئی قدر آور ہستیاں سطح شعور پر ابھرتی ہوئی نظر آتی ہیں
جیسے علامہ فضلِ حق خیرآبادی،مولانا لطف الله علی گڑھ، مولانا حسرت موہانی،مولانا کفایت علی کافی،مولانا رفیع الدین،مولانا حسن رضا،مولانا مصطفیٰ رضا خان- یہ تو نمونہ از خروارے کے طور پر تھا ورنہ تو آسمان ادب و تہذیب کے ایسے نہ جانے کتنے درخشندہ ستارے ہیں جن کی تابانی سے ایک عالم مستنیز ہورہا ہے
اسی سلسلتہ الذہب کی ایک کڑی ہے مجدد ماتہ ماضیہ،تاجدار علم و فن، فقہ ہندوستان،باکمال ادیب،امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمتہ والرضوان، یوں تو فقہ حنفی اور احقاق حق ابطال باطل ہی آپ کے ذوق لطیف کا میدان تھا- انہیں دو چیزوں کو آپ نے خدمت دین اور ترویج اسلام کا ذریعہ بنایا تھا-
لیکن آپ کے عبارات کے بین السطور سے جب مذہبی ادب کی جھلکیاں نظرآتی ہیں تو عقل کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں- مذہبی ذوق کے باوجود آپ کا اردو ادب دیکھ کر حیرت بھی جھنجھلا اٹھتی ہے
معزز قارئین! میں اپنے ان تبرکات کو دلائل کا جامہ پہنانا چاہتا ہوں- مزا غالب ادب کے افق کا سب سے تابندہ ستارہ ان کی مشہور زمانہ غزل
دل ہی توہے،نہ سنگ وخشت،دردسے بھر نہ آئے کیوں
روئے گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
ہاں! نہیں ہے وہ خدا پرست جاوہ بے وفا سہی
جس کو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
دیکھئے ! اسی زمین پر امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمتہ الرضوان کی طبع آزمائی کے جلوے دیکھئے
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کھائے کیوں
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں
سنگ در حضور سے ہم کع کو خدا نہ صبر دے
جانا ہے سر کو جا چکے دل کو قرار آئے کیوں
اپنے محبوب صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے وارفتگی،ہجر کی صعوبتوں کا انداذ بیان جس درجہ کا کلام رضا میں نظر آتا ہے غالب کا کلام اس سے کوسوں دور ہے- نیز ہر قاری غالب کی ترکیب،،اس کی گلی میں،،اور امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمتہ الرضوان کی ترکیب،،اس کی گلی میں جائے کیوں،،کا فرق محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا
جگر مرادآبادی،غزل کی رومانیت کا عدیم النظیر شاعر،،حسن مطلع،،کے زمن میں جن کی زبان زد ہر خاص و عام غزل کو بڑے فخر سے پیش کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی اس غزل میں حسن مطلع کے تیرا اشعار استعمال فرمائیں ہیں:
ایک لفظ محبت کا ادنیٰ سا فسانہ ہے
سمٹے تو دلِ عاشق پھیلے تو زمانہ ہے
کیا عشق نے سمجھا ہے کیا حسن نےجاناں ہے
ہم خاک نشینوں کا ٹھوکر پہ زمانہ ہے
لیکن حسن مطلع کے باب میں جب امام احمد رضا اپنے ادب و کمال کو بروئے کار لاتے ہیں تو حسن مطلع کے تیرا نہیں بیس نہیں بلکہ سینتالیس اشعار تک حسن مطلع کے جلوے بکھیر دئے
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارہ نور کا
اس کلام میں امام احمد رضا خان قادری نے حسن مطلع کے سینتالیس اشعار قلم بند فرمائیں ہیں جو آج تک اردو کے کسی بھی شاعر کی دسترس سے باہر ہے
فن شاعری کے حوالے سے امام احمد رضا خان قادری کی عظمت،دیگر شعراء پر فضیلت،ان کے ادب کی رفعت،علمی جلالت ضبط قلم سے بے نیاز ہے
تحریر: افتخاراحمد قادری برکاتی
کریم گنج،پورن پور،ضلع پیلی بھیت،مغربی اتر پردیش
iftikharahmadquadri@gmail.com
One thought on “اردو ادب میں امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کا کردار”